زائر حرمین۔ پارٹ ایٹ۔ بہترین لمحات


پہلا عمرہ، پہلا تجربہ تھا۔ اتنا اندازہ تو تھا کہ کچھ تھکن ہو گی لیکن اتنی شدید ہو گی، یہ اندازہ نہ تھا۔ شدید اس سینس میں کہ چلنے میں دشواری کا سامنا تھا۔ جب عمرہ کا پلان فائنلآئز ہوا تو میں نے امی سے پوچھا کہ

کیا لوگ ایک دن میں ایک عمرہ کر لیتے ہوں گے؟
انہوں نے جواب دیا : ہاں۔ ہمت ہو تو کیا جا سکتا ہے۔
میں بولی : واہ، یعنی جتنے دن وہاں قیام ہو، اتنے عمرے۔ اچھا آئیڈیا ہے۔
امی ہنسنے لگیں اور بولیں : اب اتنا بھی آسان کام نہیں۔ کافی محنت طلب کام ہے۔
چلیں، دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ میں نے گفتگو سمیٹی۔

اب پہلے عمرے کے بعد یہ صورتحال تھی کہ میں چلتی تو مجھے یوں محسوس ہوتا جیسا ٹانگ میں نقص والا کوئی شخص چل رہا ہے۔ اپنے اس خیال سے خود ہی محظوظ ہوئی اور بے تحاشا ہوئی اور سوچا ایک عمرہ ہی بہت ہے۔ عمرہ کی نیت کر کے جو چلے تھے وہ تو تکمیل کو پہنچ چکا ہے، باقی تو بونس ہوتے۔ اور بونس سے مستفید ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔ چلو یونہی سہی۔ میں اتنے میں ہی خوش ہوں۔ اللہ اللہ خیر صلا۔

اور پھر ایک رات، اچانک ہی عمرے کا پلان بن گیا۔ بھائی اور میں دس بجے کے قریب اپنے ہوٹل سے مسجد عائشہ کے لیے روانہ ہوئے۔ وہاں سے عمرہ کی نیت کر کے حرم پہنچے تو قریب قریب نصف شب بیت چکی تھی۔ رش کافی کم تھا۔ روشنیاں، ہرے رنگ کی بتیاں، اوپر صاف شفاف آسمان اور نیچے ہم۔ مطاف میں طواف کیا اور اب کی بار سعی کے لیے گراؤنڈ فلور منتخب کی۔ شام کی نسبت رات کے اس پہر گراؤنڈ فلور پر بھی لوگوں کی تعداد کم تھی۔ گراؤنڈ فلور پر صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کی باقیات موجود ہیں۔

باقیات اس طرح کہ ان پہاڑیوں کو کاٹ کر کسی کیمیکل کی مدد سے محفوظ کر دیا گیا ہے۔ اب وہاں سطح زمین سے بالکل تھوڑا سا اوپر ان کے نشانات موجود ہیں جہاں زائرین سستانے کو یا شاید احتراماً بیٹھ جاتے ہیں۔ میں نے بھی ان پر چڑھ کر دیکھا۔ ملائم سے کیمیکل کے باوجود بھی اچھی خاصی نوکیلی محسوس ہوئیں۔ سعی کرتے کرتے خیال آیا کہ اتنے ہموار فرش پر، اتنی ٹھنڈک میں صفا اور مروہ کے سات چکر تھکا دیتے ہیں تو جب حضرت حاجرہ اپنے ننھے جگر گوشے اسماعیل علیہ السلام کو اٹھا کر ان پہاڑوں کے درمیان پانی کی تلاش میں دوڑی ہوں گی تو کتنا تھکی ہوں گی۔

واقعی وہ عالی مرتبت لوگ تھے جو حکم الہٰی کی بجا آوری میں اس قدر مشقت اٹھا گئے۔ یہ ہم جیسوں سے ہونے والے کام تو نہ تھے۔ ان جذبات پر بند باندھتے ہم نے عمرہ کے اختتامی مناسک ادا کیے اور اس ایریا سے نکلنے کو قدم بڑھا دیے۔ وقت دیکھا تو فجر ہونے میں کچھ وقت باقی تھا۔ میں نے بھائی سے کہا کیوں نہ تہجد کی دو رکعت پڑھ لی جائیں۔ انہوں نے میرے خیال سے اتفاق کیا۔

پہلی منزل، نظروں کے سامنے خانہ کعبہ اور زندگی کی پہلی تہجد۔ میری ایک دوست ہے جو مجھے وقتاً فوقتاً نیک اعمال اور تہجد کی افادیت پر مبنی مواد بھیجتی رہتی ہے۔ میں سوچتی تھی میں اسے کیا بتاؤں کہ میں تہجد پڑھنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ بلکہ تہجد پر ہی کیا موقوف، میں تو نماز بھی اس باقاعدگی سے نہیں پڑھتی جس باقاعدگی سے پڑھنے کا حکم ہے۔ اس پر ایسی تہجد کا موقع مل جانا ؛ آپ خوشی اور شرمساری کے کیسے ملے جلے تاثرات کا شکار ہوتے ہیں، شاید یہ لفظوں میں بیان نہ کیا جا سکے۔

زندگی میں اتنے ڈھیر سارے بہترین مواقع آئے ہیں جن پر شکر واجب ہو لیکن ان لمحات کا طلسم آج بھی دل کو گرما دیتا ہے، خوشی اور تشکر سے بھر دیتا ہے۔ دنیا میں بہت سے لوگ ایسے کسی لمحے کے حصول کے لیے سالوں دعائیں مانگتے ہوں گے، انتظار کرتے ہوں گے۔ میں نے تو ایسا کوئی لمحہ سوچا ہی نہیں تھا تو اس کے حصول کی خواہش کیسے کر سکتی تھی۔ بن مانگے مل جانے والے اس اعزاز پر جتنا شکر ادا کیا جائے، کم ہو گا۔ وہ دو رکعات اس سارے سفر کے بہترین لمحات تھے بلکہ اگر ان لمحات کو زندگی کے بہترین لمحات میں شمار کروں تو بے جا نہ ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).