یوم کشمیر 5 فروری۔ کشمیر سے اظہار یکجہتی


یوم یکجہتی کشمیر ہر سال 5 فروری کو منایا جاتا ہے جس کا مقصد بھارتی قبضے میں مقبوضہ کشمیرکے کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی، ہمدردی اور انہیں یہ باور کرانا ہے کہ وہ اپنے مقاصد کے حصول میں تنہا نہیں ہیں۔ پاکستانی عوام ان کے ساتھ ہیں وہ اپنے کشمیری بھائیوں کے موقف کو دنیا کے سامنے، عالمی اداروں تک پہنچاتے رہیں گے۔ یہ دن (5 فروری) کشمیر کے ساتھ تجدید کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یوم یکجہتی کشمیر بھارتی ظلم و ستم کے خلاف ہر سال 5 فروری 1990ء سے منایا جا رہا ہے۔ اسی سال کشمیریوں نے جہاد کا علم تھام کر قابض بھارتی ا فواج سے ٹکرانے کا فیصلہ کیا۔

طویل عرصہ گزرجانے کے بعد بھی کشمیریوں کا جذبہ پہلے دن کی مانند تازہ اور پر عزم ہے۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے اقوام متحدہ میں کشمیریوں سے استصواب رائے کا جو وعدہ کیا تھا، بھارت مسلسل اس سے منحرف اور بھاگ رہا ہے۔ سلامتی کونسل بھارت کو اس کے کیے ہوئے وعدہ پر عمل درآمد کرانے میں ناکام نظر آتی ہے۔ بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ سمجھتا ہے جب کہ پاکستان کا اصولی موقف یہ ہے کہ ’کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘ ۔ پڑوسی ہونے کے باوجود دونوں ملکوں کے مابین کشمیر کا مسئلہ وجہ کشیدگی بنا ہوا ہے۔ بھارت نے ہٹ دھرمی اور وعدہ خلافی کی انتہا کردی ہے۔

رہی سہی کثر مودی سرکار نے پوری کردی ہے۔ وہ تو پاکستان ہی کو تسلیم نہ کرنے کے در پے ہے۔ اس کی پاکستان دشمنی واضح ہیں۔ 1971ء میں وہ یہ گھناؤنا کھیل بنگلہ دیش کی صورت میں کھیل چکا ہے۔ اب بھی بلوچستان میں مکروہ کردار ادا کر رہا ہے۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ 1947 ء میں قائداعظم محمد علی جناح نے مسلم کانفرنس کی دعوت پر سرینگر کا دورہ کیا جہاں قائد کی دور اندیش نگاہوں نے سیاسی، دفاعی، اقتصادی اور جغرافیائی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے کشمیر کو پاکستان کی ’شہ رگ‘ قرار دیا۔ مسلم کانفرنس نے بھی کشمیری مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے 19 جولائی 1947 ء کو سردار ابرہیم خان کے گھر سری نگر میں باقاعدہ طور پر قراردا د الحاق پاکستان منظور کی لیکن جب کشمیریوں کے فیصلے کو نظر انداز کیا گیا تو مولانا فضل الہٰی وزیرآبادی کی قیادت میں 23 اگست 1947 ء کو مسلم جدجہد کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔ 15 ماہ کی مسلسل جدوجہد کے بعد موجودہ آزاد کشمیر آزاد ہوا۔ اگر قائد اعظم اپنے سیاسی تدبر کا اظہار اس وقت نہ کرتے تو بھارت کی شاطر نگاہیں آزاد کشمیر کو بھی مقبوضہ کشمیر کی طرح اپنی گرفت میں لے لیتیں۔ قائداعظم کا تدبر ہی تھا کہ جس کے باعث کشمیر کو آزادحیثیت ملی۔

حق خود ارادیت کشمیریوں کا پیدائشی حق ہے۔ اپنے اس حق کے حصو ل کے لیے کشمیری طویل عرصے سے عملی جدوجہد کر رہے ہیں۔ جس کے لیے سینکڑوں کشمیری اپنی جانوں کی قربانی دے چکے ہیں۔ پاکستان ان کے اس جائز اور اصولی موقف پر ان کے شانہ بہ شانہ کھڑا ہے۔ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی قیام پاکستان کے بعد سے شروع نہیں ہوئی بلکہ یہ جدوجہد 1931 ء میں اس وقت شروع ہو چکی تھی جب پاکستان کا خواب دیکھنے والے مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال نے سب سے پہلے 14 اگست 1931 ء کو لاہور میں یوم کشمیر منایا۔

حامد میر کی تحقیق کے مطابق ’کشمیر کی تحریک آزادی 1832ء میں پلندری اورنگ کے علاقے میں شروع ہوئی جہاں باغی مسلمانوں کی کھالیں اتار کر درختوں پر لٹکا دی گئیں۔ 1931ء میں قرآن پاک کی توہین پر کشمیر میں دوبارہ تحریک شروع ہوئی، سری نگر جیل کے سامنے 22 کشمیریوں نے جام شہادت نوش کیا اور علامہ اقبال نے 14 اگست 1931 ء کو لاہور میں یوم کشمیر منایا‘ ۔ کشمیر دراصل لارڈ ماؤنت بیٹن، جواہر لال نہرو اور شیخ عبداللہ کی سازش اور گٹھ جوڑ کے نتیجے میں بھارت کے قبضے میں چلا گیا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان اصل اختلاف کی وجہ یہی مسئلہ کشمیر ہی ہے۔ اس اہم مسئلہ پر دونوں جانب سے کشیدگی کا عمل جاری رہتا ہے۔ پاکستان کی اب تک بھارت سے تین باقاعدہ جنگیں ہو چکی ہیں۔ اقوام متحدہ اور دیگر بڑی قوتیں بھی اس مسئلہ کو حل کرانے میں سنجیدہ نظر نہیں آتیں۔ ان تمام کی خاموشی ایک سوالیہ نشان ہے۔

بھارت سمجھتا تھا کہ وہ طاقت کے بل بوتے پر کشمیریوں سے حق خود ارادیت کی خواہش اور لگن کو ختم کردے گا۔ اس نے ظلم و زیادتی کے تمام حربے آزمائے، مقبوضہ کشمیر کے نہتے کشمیریوں پر ظلم و زیادتی کی انتہا کردی لیکن آفرین ہے ان بہادر کشمیریوں پر کہ ان کے اندر سے جذبہ حریت کم نہ ہوا اور بھارت اب ظلم و جبر کے نئے نئے گر استعمال کرنے کے منصوبے بنا رہا ہے اور انہیں عملی جامہ پہنانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ اسے نہیں معلوم کہ مسلمان اپنی گردن کٹوا تو سکتا ہے لیکن ظلم و جبر کے آگے، کفر کے سامنے جھک نہیں سکتا۔ انشاء اللہ بھارت کی ہر سازش، ہر حربہ، بڑے سے بڑا ظلم و بربریت کشمیری مسلمانوں کے جذبہ حق خود ارادیت کوختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوگا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بھارت یکم جنوری 1949 ء کو از خود مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں لے گیا۔ جب اقوام متحدہ نے کشمیریوں کو ان کے حق خود ارادیت کی قرارداد منظور کی تو مسلسل اس سے روگردانی کر رہا ہے۔

5 فروی کو مقبوضہ کشمیر میں بھی جہاں بھارت کی حکومت کا سکہ چلتا ہے، اس خطے میں بھی جسے آزاد کشمیر کہتے ہیں، پاکستان بھرمیں، دنیا کے ہر ہر ملک میں جہاں جہاں کشمیری اور پاکستانی آباد ہیں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے اجتماعات، جلسے و جلوس، احتجاجی مظاہرے کیے جاتے ہیں،

کشمیریوں کے حق خود ارادیت تسلیم کروانے کے حق میں قراردادیں منظور کی جاتی ہے۔ دنیا کو باور کرانے کی سعیٔ کی جاتی ہے کہ بھارت اپنے آپ کو جمہوریت کا چیمپیئن کہتا ہے۔ اس نے کشمیریوں کی آزادی کو سلب کیا ہوا ہے۔

پاکستان کی قومی اسمبلی کی ایک ’کشمیر کمیٹی‘ بھی ہے۔ جس کی ذمہ داریوں میں کشمیر کے معاملات کو مختلف فورم پر اٹھانا، کشمیر کی آزادی اور جدوجہد کی حمایت کرنا ہے۔ کمیٹی میں پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتوں کے 35 قومی اسمبلی کے اراکین اس کے ممبرہوتے ہیں۔ اس کمیٹی کا بنیادی مقصد کشمیریوں کی جدوجہد کے لیے، بھارتی ظلم و زیادتی کے خلاف عالمی سطح پر آوا ز بلند کرنا ہے۔ قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹیاں ملک کے مختلف معاملات کے حل میں اہم کردار ادا کرنے کی ذمہ دار ہیں۔

کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا نہ رکنے والا عمل انشاء اللہ اس وقت تک جاری و ساری رہے گا جب تک کشمیری اپنا یہ جائز حق حاصل نہیں کر لیتے۔ پاکستان کے غیور اور کشمیر سے محبت کرنے والے عوام اور بہادر کشمیری اپنے اتحاد و اتفاق سے کشمیر دشمن قوت بھارت کو شکت دینے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر ایک ایسا عنصر ہے کہ جس کے نتیجے میں دونوں ممالک ہر وقت حالت جنگ میں رہتے ہیں، تین باقاعدہ جنگوں کے علاوہ چھوٹے معرکے الگ ہیں۔

اس کی وجہ سے دونوں ممالک اپنا دفاعی بجٹ زیادہ سے زیادہ کرنے کی تدابیر میں لگے رہتے ہیں۔ یہی بجٹ عوام کی فلا ح و بہبود پر خرچ ہوتو خلق خدا کی بھلائی اور عوام خوش حال ہوجائیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ دونوں ممالک کے سربرہان کشمیر کے اس دیرینہ مسئلہ کو باہم مل کر حل کر لیں۔ کشمیر، کشمیریوں کا ہے۔ کشمیر کے حوالے سے طویل کشیدہ تاریخ ہمیں کیا پیغام دے رہی ہے، ہم نے دشمنی سے کیا حاصل کیا۔ کشت و خون سے دونوں کو کیا ملا، بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں کو خون میں نہلا کر کیا حاصل کیا، کیا اس عمل سے بھارت کے عوام خوش حال ہوئے، بھارتی عوام نے اپنی حکومتوں کو شاباش دیتے ہوئے انہیں مسلسل اقتدار میں رکھا۔ نہیں، انڈین نیشنل نگریس کا انجام (INC)، بھارتیہ جنتہ پارٹی (بی جے پی) کا انجام سب کے سامنے ہے۔

سچائی یہی ہے، حقیقت بھی کہ ’آؤ صلح کر لیں‘ ۔ دیکھو ہندوستان ہندؤں کا ہے، پاکستان پاکستانیوں کا، بنگال بنگالیوں کا، افغانستان افغانیوں کا، ترکی ترکیوں کا، سعودی عرب سعودیوں کا، مصر مصریوں کا، جرمن جرمنیوں کا، فرانس فرانسیسیوں کا تو پھر ہم اور آپ کون ہوتے ہیں کشمیریوں کو ان کے حق سے محروم کرنے والے۔ بہتری اور سچائی اسی میں ہے کہ کشمیریوں کا ان کا حق خود ارادی خوشی سے دیدیا جائے۔ بہتری اسی میں ہے، انصاف اور سچائی کا یہی تقاضا ہے۔ انسانیت اسی میں ہے، دنیا کا ہر مذہب، ہر عقیدہ، ہر فلسفہ یہی کہتا ہے کہ حق حقدار کو اس کا حق دے دینے میں ہی بھلائی ہے، کسی کا حق غضب کرنے سے بے شمار قسم کی خرابیاں ہی پیدا ہوتی ہیں، امن و سکون خراب ہوتا ہے، خون نہ حق بہتا ہے جو کسی طور بھی اچھا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).