اپنی جیبوں سے رہیں سارے نمازی ہوشیار


جو اصطلاحات اب استعمال نہیں ہوتیں ظاہر ہے ہم انہیں بھولتے جا رہے ہیں مگر مشتری ہوشیار باش نجانے کیسے یاد آ گیا۔ اور پھر اس مفہوم سے جڑا ایک پرنا مصرع بھی، اپنی جیبوں سے رہیں سارے نمازی ہوشیار۔ حساس لوگوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر چیز کا اثر بہت زیادہ لیتے ہیں۔ ہمارا تو یہ حال ہے کہ کوئی دکھ بھری کہانی پڑھ لیں یا سن لیں تو بھوک پیاس اور نیند اڑ جاتی ہے اور زیادہ ہی اثر لے لیں تو بخار میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں۔ صبح اچھے بھلے تھے، ادارہ بین ا لاقوامی امور پاکستان کا ایک سیمینار اٹینڈ کرنے گئے تو پاکستان کے مستقبل کی فکر ستانے لگی۔

موضوع اتنا مشکل اور خشک تھا کہ ہمارا خیال تھا کہ سر کے اوپر سے گزر جائے گا لیکن ہوا یہ کہ بات کچھ زیادہ ہی سمجھ میں آ گئی۔ بات آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو وہ دقیق موضوع بتائے دیتے ہیں :Emerging Geostrategic Contestation in Asia Pacific:پاکستان کے لئے چیلنجز اور مواقع۔ افتتاحی خطبہ سنتے ہی یوں سمجھئے کہ چودہ طبق روشن ہو گئے۔

ہم ٹھہرے بائیں بازو کی طلبہ تنظیم این ایس ایف کے رکن، جوانی یہی پڑھتے اور سنتے ہوئے گزری کہ ہمارے قائدین سے غلطی یہ ہوئی تھی کہ ماسکو کا دعوت نامہ نظر انداز کر کے واشنگٹن تشریف لے گئے تھے اور پھر سیٹو اور سینٹو جیسے دفاعی معاہدوں میں شامل ہو کے امریکہ کی گود میں جا بیٹھے۔ دوسری طرف ہم یہ بھی جانتے تھے کہ سارے مسلمان علما سوائے علامہ شبیر احمد عثمانی کے قائد اعظم کے اور ساری اسلامی جماعتیں قیام پاکستان کے خلاف جب کہ کمیونسٹ پارٹی پاکستان کے قیام کے حق میں تھی لیکن پاکستان بننے کے بعد راولپنڈی سازش کیس کی بنیاد پر پاکستان کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگا دی گئی اور وہ مین اسٹریم سیاست سے باہر ہو گئی۔

بائیں بازو کے لوگ یا تو زیر زمین جا کے کام کرنے لگے یا نیشنل عوامی پارٹی، مزدور کسان پارٹی وغیرہ میں شامل ہو گئے۔ بائیں بازو کے لوگ ٹریڈ یونینوں میں بھی بہت سرگرم تھے۔ صحافت میں بھی ان کی موجودگی نمایاں تھی۔ اس وقت دنیا اشتراکی اور سرمایہ دارانہ دو بلاکوں میں تقسیم تھی، سوویت یونین اور چین کا جھگڑا ہوا تو تو پاکستان میں بھی بائیں بازو والے چین نواز اور ماسکو نواز گروپوں میں تقسیم ہو گئے۔

خیر جب سے اب تک پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ اب دنیا ایک قطبی ہو چکی ہے۔ امریکہ واحد سپر پاور رہ گیا ہے مگر ماہرین کے بقول وہ اندر سے انتشار کا شکار ہے۔ پہلے اس کا ٹارگٹ سوویت یونین تھا، سوویت یونین ٹوٹ گیا لیکن اس سے پہلے امریکہ افغانستان میں مجاہدین کو ہیرو بنا چکا تھا۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد وہی مجاہدین دہشت گرد بن گئے۔ نائن الیون کے بعد القاعدہ اور پھر داعش نے جنم لیا۔ امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہو گیا۔

اور اب چین کے حوالے سے کولڈ وار کا آغاز کرنے جا رہا ہے۔ چین دشمنی میں اب امریکہ مودی جیسے کٹر متعصب شخص کے ساتھ پینگیں بڑھا رہا ہے۔ یاد رہے کہ ہندوستان اور اسرائیل کے تعلقات پہلے ہی بہت اچھے ہیں اور مودی نے ابھی جو کشمیر کے ساتھ کیا ہے، وہ وہی ہے جو اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ کرتا چلا آیا ہے۔ حال ہی میں ٹرمپ جاتے جاتے اسرائیل کو سنٹ کوم کا اکیسواں ممبر بنا گیا ہے اور اب اس کی ان فوجی معلومات کے تک رسائی ہو گی جو وہ ہندوستان کو فراہم کر کے پاکستان کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ افتتاحی کلمات ادا کرنے والے ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل طارق وسیم غازی کا کہنا تھا کہ ”اب ہندوستان کی دوستی اور چین سے دشمنی کی وجہ سے امریکہ کی خواہش ہو گی کہ چین کے بارے میں پاکستان مجہول اور مفعول ہو کے رہ جائے۔“

پاکستان کے پالیسی سازوں کو امریکہ اور ہندوستان کی دوستی اور چین کے ساتھ امریکہ کی کولڈ وار کے بارے میں یقیناً فکر مند ہونا چاہیے۔ ویسے بھی ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس کچلی جاتی ہے۔ ہمیں ویسے بھی پراکسی وارز لڑنے کا بہت شوق ہے لیکن ضروری نہیں کہ ماضی کی غلطیوں کو ایک بار پھر دہرایا جائے۔ اگر امریکہ کی ہندوستان سے دوستی اور چین سے دشمنی بڑھتی چلی گئی تو پاکستان کو چین اور امریکہ کے حوالے سے کچھ مشکل فیصلے کرنا پڑیں گے۔

ابھی تک پاکستان امریکہ، سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے زیادہ قریب رہا ہے۔ غازی صاحب کا کہنا تھا کہ اب ہمیں ان ممالک کی بجائے ایران، افغانستان اور سنٹرل ایشیا کے ممالک کے ساتھ اتحاد بنانے چاہئیں اور جہاں تک امریکہ اور چین کا سوال ہے تو چین ہمارا قریبی ہمسایہ اور پرانا دوست ہے۔ پاکستان کی سیکورٹی کے لئے چین لائف لائن کی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکہ اور ہندوستان دونوں ہی پاک چائنا اکنامک کوریڈور CPEC کے سخت مخالف ہیں۔ دوسری طرف افغانستان کا مسئلہ بھی ہے اورہو سکتا ہے کہ پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کی جائے۔

خارجہ امور کے ماہر اعزاز احمد کا کہنا تھا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد قائم ہونے والا نظام اب شکست و ریخت کا شکار ہے۔ موجودہ دور بین الاقوامی تجارت، امیگریشن اور تشخص کی سیاست کا دور ہے۔ ٹرمپ کے جانے کے بعد اب دنیا کی نظریں امریکہ پر لگی ہوئی ہیں۔ چین اپنی اقتصادی سفارتکاری کی پالیسی کو جاری رکھے گا۔ پاکستان کو امریکہ کے ساتھ سیکورٹی اور ایڈ کی بجائے تجارت پر توجہ دینی چاہیے۔ امریکہ پاکستان کے ساتھ صحت، تعلیم، کلائمٹ چینج، اور اقتصادی سرمایہ کاری میں تعاون کر سکتا ہے۔ چین کے ساتھ ہمارے اچھے تعلقات ہیں، انہیں برقرار رکھنا چاہیے۔ اب جیو اسٹریٹجک کی بجائے جیو اکنامک مفاد ہماری پالیسی ہونا چاہیے۔

قائد اعظم یونیورسٹی کے ظفر جسپال کا کہنا تھا کہ کمزور ریاستوں کو سیکورٹی سنٹرک پالیسی اپنانی پڑتی ہے لیکن ہمیں امریکہ یا چین کی بینڈ ویگن بنے بغیر اپنے دفاع کو مضبوط بنانا چاہیے۔ چائے کے وقفے میں ہم نے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ دفاع کی بجائے ہمیں انسانی ترقی کو اپنی پہلی ترجیح قرار دینا چاہیے لیکن وہ مان کر نہیں دیے۔ خضر صورت تو نہیں تھے، لیکن ہمیں بہرحال نمازیوں کو چوکنا رہنے کے انتباہ کی ضرورت محسوس ہوئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).