نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی


حزب اختلاف ابھی تک وزیراعظم عمران خان سے استعفیٰ نہیں دلوا سکی کہ اکتیس جنوری گزر چکی ہے۔ اب وہ شاید خود استعفے دے اور لانگ مارچ کرے کہ اس سے پریشان ہو کر عمران خان اقتدار سے الگ ہو جائیں یوں ان پر احتساب کی لٹکتی تلوار ہٹ جائے۔ پھر وہ کسی نہ کسی طرح نئے انتخابات کروا کر حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے مگر ایسا ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ وہ اپنا اتحاد (پی ڈی ایم) برقرار رکھنے میں ناکام ہو گئی ہے۔

اب وہ حکومت کو اندر سے کمزور کر کے اپنا مقصد پورا کرنے پر توجہ دے گی، دے رہی ہے۔ ہو سکتا ہے اس میں اسے کامیابی حاصل ہو جائے کیونکہ یہ جو وزیراعظم نے استعفیٰ دینے کی بات کی ہے اگرچہ وہ مشروط ہے مگر وہ مستعفی ہونے پر آمادہ تو ہو گئے ہیں شرط انہوں نے یہ رکھی ہے کہ جن حزب اختلاف کے رہنماؤں نے جو ملک کا پیسا ہتھیایا ہے اسے قومی خزانے میں جمع کرا دیں۔

اس سے تو صاف ظاہر ہے کہ نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی۔ ویسے کچھ رقوم ان دولت مند سیاسی رہنماؤں کو حکومت کے حوالے کر دینی چاہیے اور کہیں خان صاحب سے اب وہ اقتدار چھوڑ دیں کیونکہ انہوں نے یہی کچھ ”کمایا“ تھا ان کی یہی جمع پونجی تھی اس طرح سب کو راحت مل جائے گی۔ وہ اور عوام کے دن پھر جائیں گے زندگی ایک نئے انداز سے ابھر کر سامنے آ جائے گی۔ ہر سمت بہار یہ سماں ہو گا فضا میں خوشبوئیں رچ بس جائیں گی وغیرہ وغیرہ۔

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عمران خان وزیراعظم پاکستان ڈو مور کا تقاضا کر دیں یعنی وہ کہیں کہ ان کے پاس اور بھی دولت ہے اسے بھی واپس کریں۔ اور استعفیٰ تب بھی نہ دیں کیونکہ وہ یوٹرن لینے کے عادی ہیں ان کا کیا پتا؟

عجیب سیاسی فضا جنم لے رہی ہے کہ ایک فریق حکمرانوں کو گھر بھیجنا چاہتا ہے اور ایک خود کو حکومت میں دیکھنے کا خواہاں ہے مگر سوچنے والی بات یہ ہے کہ عوام کے دکھ میں کوئی بھی مبتلا نہیں یہی وجہ ہے کہ حکمران طبقے کے اپنے مفادات اور ان کے رویے سے متاثر ہو کر آج معاشرے کی حالت دگر گوں ہے۔ خونی رشتے کمزور پڑ چکے ہیں ایک دوسرے کا احساس ختم ہو گیا ہے۔ جمع پونجی پر نگاہیں جمعی ہوئی ہیں۔ یہ انتظار کیا جا رہا ہے کہ کب اس کی موت واقع ہو۔

عیاری، بددیانتی، دروغ گوئی اور دھوکا دہی عام ہے۔ اپنی اصلیت چھپانے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ پرلے درجے کے مکار و عیار لوگ خود کو معتبر و مہذب تصور کرتے ہوئے دوسروں کو ٹیڑھی نظر سے دیکھ رہے ہیں اور اس کی ذمہ داری اہل اقتدار پر عائد ہوتی ہے کہ انہوں نے قومی سطح پر ایسے کلچر کو پروان چڑھانے کی سعی نہیں کی گئی جو اچھائی کے جذبے کو ابھارتا، احترام آدمیت سکھاتا۔ حقوق سلبی سے اجتناب برتنے اور سچ بولنے کی ترغیب و تحریک دیتا ہو لہٰذا لگتا ہے کہ انہوں نے (حکمران طبقات) دانستہ لوگوں کو چھینا جھپٹی اور لاتعلقی کی جانب دھکیلا ہے تا کہ یہ اقتدار کے کھیل کی طرف متوجہ نہ ہوں اور ان میں یہ سوچ ہی پیدا نہ ہو کہ ان کا بھی کوئی حق ہے اور اقتدار میں ہونے کے حق کا خیال بھی ذہن میں نہ آئے لہٰذا آئے روز اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں ایسا ہر دور میں ہوتا چلا آیا ہے مگر یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ موجودہ حکومت نے تو حد ہی کر دی ہے نجانے یہ کن لوگوں کو خوش کر رہی ہے کہ جنہیں غریب عوام کی ذرا بھر بھی فکر نہیں۔

وہ بے چارے ہر طرح سے لٹ رہے ہیں۔ ڈاکو بھی انہیں لوٹ رہے ہیں۔ تھانے، پٹوار خانے، سرکاری محکمے اور مہنگائی مافیا سبھی ان کے جیبوں پر ڈاکے ڈال رہے ہیں مگر مجال ہے حزب اختلاف اور حزب اقتدار مل کر کوئی ذہن پر زور دیں بس ایک بیوقوف بنانے کا سلسلہ جاری ہے جبکہ عوام کو اب اچھی طرح سے معلوم ہو چکا ہے کہ ان کو مسلسل دھوکا دیا جا رہا ہے اور ان سے غلاموں ایسا سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔

اس کے باوجود وہ جلسوں اور جلوسوں کا حصہ بنتے ہیں اگرچہ اب ان میں وہ جوش اور جذبہ نہیں ہوتا جو کبھی ہوتا تھا کہ ایک طغیانی ہوتی تھی جذبات لہر در لہر ہوتے اور چہرے ان کے دمک رہے ہوتے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ قریبی سیاسی شخصیت سے سماجی تعلق رکھتے ہوئے ان میں شریک ہوتے ہیں وگرنہ سیاسی لگن سے وہ دور جا چکے ہیں اس کا نہیں نقصان بھی ہو رہا ہے کہ اب حکمران آنکھیں بند کیے ان کی رگوں سے خون کشید کر رہے ہیں اور وہ بالکل خاموش ہیں ان میں کوئی حرکت نہیں پیدا ہو رہی۔

بہرحال معاشرے کے سیاسی چہرے ہوں یا غیر سیاسی سب دھیرے دھیرے عیاں ہوتے جا رہے ہیں ان کا منفی انداز فکر نمایاں ہو کر سامنے آ رہا ہے جو ایک قابل افسوس بات ہے۔ حکمران عوام کو تو بیوقوف بناتے ہی تھے اب بعض چالاک لوگ بھی اپنے عزیزوں اور تعلق دارون کو احمق بنانے لگے ہیں جبکہ یہ دور شعوری دور ہے اس میں خود کوئی بیوقوف بنتا ہے تو بن جائے ویسے وہ نہیں بن سکتا۔ لہٰذا روایتی طرز سیاست اور طرز زندگی کو بدلنا ہو گا۔

ہٹ دھرمی اور ضد کے حصار سے باہر آ کر دکھ بانٹنے کی روش اختیار کرنا ہو گی کیونکہ اب عوام اتنے بھی لا تعلق نہیں کہ اپنا پیٹ بھرنے کے لیے سوچ بچار نہ کریں اور متحرک نہ ہوں یعنی وہ تہتر برس کے بعد کسی نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں اور اپنی منزل کی جانب بڑھنے کے لیے گھروں سے باہر آ سکتے ہیں۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ جب بھارتی پنجاب کے کسانوں کو اپنی آزادی اور معاشی ضروریات پر ضربات پڑتی دکھائی دیں تو انہوں نے خاموش بیٹھنا ترک کر دیا اور نکل آئے میدان میں، لہٰذا عرض ہے کہ اگر حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ذاتی مفادات پر پردہ ڈال کر عوام کو اندھیرے میں رکھ سکتے ہیں تو یہ ان کی خوش فہمی ہے لہٰذا انہیں چاہیے کہ وہ متحدہو کر فلاحی منصوبوں کے لیے کام کریں۔

ہم پہلے بھی عرض کر چکے ہیں اب بھی کیے دیتے ہیں کہ اس وقت کوئی ایک بھی سیاسی جماعت ملک کو معاشی بدحالی کے چنگل سے آزاد نہیں کرا سکتی لہٰذا ضروری ہے کہ سب جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر کھڑی ہو جائیں یہ جو ٹانگیں کھینچنا شروع کر رکھا ہے اس کی پہلے گنجائش تھی نہ اب ہے کہ ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبتا چلا جا رہا ہے۔ انصاف کا فقدان ہے، رشوت سفارش بھی نہیں رک رہے، بدعنوانی پر ایک فیصد بھی قابو نہیں پایا جا سکا بلکہ پہلے سے زیادہ ہے جو کسی طور بھی تنزلی کی طرف جاتے معاشرے کے لیے درست نہیں مگر کہیں سے بھی یہ آواز نہیں آ رہی کہ آئیں ہم سب یک جان ہو کر مسائل کی یلغار کا مقابلہ کریں۔ اگر کچھ سنائی دے رہا ہے تو یہ کہ ہائے اقتدار!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).