قبضہ مافیا کی چیخ پکار


ملک کی سیاسی قیادت کا کام خدمت خلق کر کے عوام کے مسائل کم کرنا ہوتا ہے، لیکن ہمارے ہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے، یہاں پر کرائے کے مکان میں رہ کر کونسلر منتخب ہونے والے کے پانچ برس میں نہ صرف اپنے کئی گھر کرائے پر ہوتے ہیں بلکہ اس کے بینک اکاؤنٹس پیسوں سے بھرے ہوتے ہیں۔

دنیا بھر کے دیگر ممالک میں اتنی اندھیر نگری نہیں ہوتی، وہاں پر لوٹ مار ، کرپشن،  اقربا پروری دور تک نظر نہیں آتی، کرپشن کرنے والوں کو کڑی سزائیں ملتی ہیں، بسا اوقات انہیں جان سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں، مگر پاکستان میں احتساب کی بات کی جائے، قبضہ مافیا سے زمین واگزار کروانے کی کوشش کی جائے تو سیاسی انتقام کے نعرے لگنا شروع ہو جاتے ہیں، اپوزیشن کے احتسابی عمل کی مخالفت کے باوجود حکومت نے 36 سیاسی رہنماؤں سے 24 ارب روپے کی زمینیں واگزار کروائیں، جبکہ پنجاب سے 210 ارب روپے کی ریکوری ہوئی، ان سب افراد کا تعلق ایک ہی سیاسی جماعت سے تھا، یہ لوگ نہ جانے کب سے سرکاری وسائل پر قابض ہو کر اپنی ذات کے لیے استعمال کر رہے تھے، تاہم دیگر سیاسی جماعتو ں کے افراد بھی دودھ کے دھلے نہیں، حکومت کی ذمہ داری ہے کہ بلاتفریق احتسابی عمل جاری رکھے تاکہ ملک سے کرپٹ عناصر کا مکمل صفایا کیا جا سکے، حکومت کرپٹ مافیا پر سخت گرفت کرے گی تو ہی تبدیلی نظر آئے گی۔

یہ امر واضح ہے کہ ماضی کے حکمرانوں نے نہ صرف قومی خزانہ بڑی بے دردی سے لوٹا، بلکہ اپنے حلیفوں کی غیر قانونی کارروائیوں کی بھی سر پرستی کرتے رہے ہیں، حکومت نے کرپٹ مافیا پر ہاتھ ڈالا تو چیخیں اپوزیشن قائدین کی نکلنے لگی ہیں۔ یہ محض اتفاق تو نہیں ہو سکتا کہ 24 ارب روپے کی سرکاری اراضی کا قبضہ صرف 36 مسلم لیگی رہنماؤں سے چھڑایا گیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں خوب لوٹ مچائی گئی، لیکن شہباز شریف تو اپنے دس سالہ پنجاب کے دور اقتدار میں میرٹ اور قانون کی باتیں کرتے تھے، پھر ان کے دور حکومت میں یہ لوٹ مار کیسے ہوتی رہی ہے، اگرچہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما زمینوں کی واگزاری کے عمل کو سیاسی انتقام کہتے ہوئے عدالتوں میں جانے کی وارننگ دے رہے ہیں، مگر وزیراعظم کے مشیر شہزاد اکبر نے سرکاری زمینوں کے قبضے چھڑانے کی جو تفصیل بیان کی ہے، اس حو الے سے متاثرہ مسلم لیگی کوئی ثبوت پیش نہیں کر رہے ہیں۔

دراصل ہمارے ہاں ہر الزام کا سادہ سا جواب ہوتا ہے کہ سب کچھ سیاسی انتقام کی وجہ سے کیا جا رہا ہے، اس بار کچھ اضافہ بھی کر دیا گیا ہے کہ ہمیں نواز شریف کے ساتھ وفاداری کی سزا دی جا رہی ہے، لیکن نواز شریف سے وفاداری تو ہر مسلم لیگی رکھتا ہے، اگر زمینیں واگزار کرانے کا یہی سبب ہے تو پھر ایسے ہزاروں کیسز بننے چاہئیں، مگر یہاں تو صاف نظر آ رہا ہے کہ صرف انہی مسلم لیگی رہنماؤں نے مبینہ قبضے کیے جو شریف برادران کے قریب سمجھے جاتے ہیں یا مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے جن کا سرگرم کردار ہے۔

یہ امر قابل غور ہے کہ مسلم لیگ ( ن) کے رہنماؤں کی بڑی تعداد ہی ایسے غیر قانونی کاموں میں کیوں ملوث رہی ہے، کیا انہیں کھلی چھٹی دے دی گئی تھی یا شریف برادران کے ساتھ وابستگی کا ناجائز فائدہ اٹھایا گیا ہے، کیا سوچ کر ناجائز قبضے کیے گئے؟ کیا قانون کا خوف ختم ہو گیا تھا یا یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ قانون تو گھر کی باندی ہے، اسی لئے زیادہ تر کرپٹ لوگ سیاست میں آنے لگے ہیں کہ راتوں رات لکھ سے ارب پتی بنا جا سکے، کیا کوئی جائز طریقے سے اتنی ترقی کر سکتا ہے کہ جتنی ترقی ہمارے بعض سیاست دانوں نے کی ہے؟

ہمارے ہاں سیاست خدمت خلق کے نام پر کاروبار بن کر رہ گئی ہے، سیاست کے کاروبار میں کوئی قانون کوئی اصول نہیں، ہر طریقے سے اپنے مفادات کے حصول کو یقینی بنایا جا رہا ہے، اگر کہیں کوئی رکاوٹ آئے تو سیاسی انتقام کا نعرہ گونجنے لگتا ہے، اپنے غیر قانونی کاموں کے دفاع کے ساتھ ایک دوسرے پر الزام تراشی کی جاتی ہے۔ عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہر دور حکومت میں قبضہ مافیا کو سیاسی سر پرستی حاصل رہی ہے، اس لیے مسلم لیگی رہنما صرف اپنے غیر قانونی قبضوں کا دفاع نہ کریں، بلکہ انہیں چاہیے کہ موجودہ حکومت سے تعلق رکھنے والے ایسے لوگوں کی بھی نشاندہی کریں کہ جنہوں نے سرکاری زمینوں پر ناجائز قبضے کر رکھے ہیں تاکہ ثابت کیا جا سکے کہ وزیراعظم عمران خان صرف سیاسی انتقام کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ گزشتہ دور حکومتوں میں سیاسی وابستگیاں تبدیل کرنے کے لئے احتساب کا نام استعمال کیا جاتا رہا ہے، تاہم اس بار حکومت بلا امتیاز احتسابی عمل کی دعوے دار ہے، جبکہ اپوزیشن ماننے کے لئے تیار نہیں کہ بلا امتیاز احتساب ہو رہا ہے، ملک بھر میں موجود مافیا کو حکومت نکیل ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے، مگر اپوزیشن اسے بھی سیاسی انتقام سے ہی جوڑنے پر تلی ہے، جبکہ دیکھا جائے تو ملک بھر میں مختلف محکموں اور اداروں کا لاکھوں کنال سرکاری رقبہ قبضہ گروپوں کے پاس ہے، اس میں ریلوے اور اوقاف کی املاک کے علاوہ پبلک پارک، اسکول، کالج، یونیورسٹیاں، اسپتال اور مزارات شامل ہیں، یہاں تک کہ ہر چھوٹے بڑے شہر میں لوگوں نے فٹ پاتھوں پر بھی قبضے جما رکھے ہیں، دکانوں اور مارکیٹوں کے سامنے تھڑے بنانا معمولی بات سمجھی جاتی ہے، ہر دور حکومت میں قبضہ مافیا کے خلاف کارروائی شروع ہونے پر مصلحتیں آڑے آتی رہی ہیں، اس بار بھی حکومت جوش و جذبے سے قبضہ مافیا کا خاتمہ کرنے نکلی ہے تو سر پرستوں نے شور مچانا شروع کر دیا ہے، ایک ناجائز کھوکھر پیلس گرنے پر مسلم لیگی رہنماؤں کی چیخ پکار تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے، تاہم اگر حکومت نیک نیتی سے یونہی کسی بھی فریق کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے فی الواقع قبضہ گروپ سے ہر چھوٹی بڑی سطح پر سرکاری جائیدادیں واگزار کرانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو نہ صرف اس کے شہری خدوخال پر نہایت خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے، بلکہ حکومتی کارکردگی پر کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع نہیں ملے گا اور تبدیلی کے اثرات بھی نظر آنے لگیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).