مریض کو پوچھنے والے



مرنے کے لئے تو سب ہر وقت تیار رہتے ہیں لیکن جب کوئی بیمار ہو جائے تو وہ زندگی میں توسیع کے لئے اس حد تک بھی چلا جاتا جس حد تک تحریک انصاف خاص توسیع کیس میں چلی گئی تھی۔ موت اور مریض کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ م سے شروع ہوتے ہیں اور سانس دبوچ لینے پر ختم ہوتے ہیں۔ مریض بننا ایسا ہی ہے کہ موت کی طرف پہلا اور آخری قدم اٹھانا یوں ہی سمجھ لیں کہ جنازہ گاہ سے پہلا گاہ ہسپتال گاہ ہوتا ہے۔ اور جنازے سے زیادہ لوگ ہسپتال میں آتے ہیں۔

ہمارے ایک دور دراز کے رشتے دار جن کا بیماری سے ایسا ہی تعلق ہے جو میاں صاحب کا این آر ہو سے ہے۔ وہ شدید پڑ گئے۔ خوش قسمتی کہ وہ ہمارے شہر میں نہیں رہتے اور بدقسمتی کہ اچھا ہسپتال ہمارے شہر میں تھا۔ لفظ اچھے کی تعریف ہم خود کیا کرتے تھے۔ بیمار نے ہمیں بیزار کر کے ہمارے شہر آنے کا اصولی فیصلہ کر لیا تھا۔ لیکن پتا نہیں اوپر بیٹھے موت کے فرشتے نے کوئی فیصلہ کیا تھا یا نہیں۔ ڈر ان کا ہمارے شہر آنا نہیں بلکہ کچھ اور تھا۔

بیمار شہر سوزاں میں داخل ہوا اور پوری کپور فیملی کو بھی ساتھ لے آیا۔ اور ان کی فیملی بھی قدیم درخت کی شاخوں کی طرح پھیلی ہوئی تھی۔ بیمار ایک اور بیماریاں پندرہ جن کی آمد سے سونامی کے آنے کی یاد تازہ ہو رہی تھی اور یہ مشورہ اور حوصلہ دینے کے لئے ساتھ آئے تھے پتا نہیں یہاں مریض نے پٹواری سے زمین کی لکھت پڑھت کرنی تھی یا علاج کروانا تھا۔ لیکن جو بھی تھا ہمارے شہر آ کر انہوں نے ہمیں بھی تکلیف دینا تھی۔ اور ہمیں ڈر بھی اسی بات کا تھا۔ فون کی یہودی گھنٹی بجی اور آواز آئی کہ ہم آ رہے ہیں میں نے کہا آ جائیں گندے نالے میں بہتے پانی کو کون روک سکتا ہے۔

گھر داخل ایسے ہوئے جیسے طلاق کا فیصلہ ان کے حق میں آیا ہو اور سیشن عدالت نے وکیل کی فیس بھی ادا کرنے کا وعدہ کیا ہو۔ لیکن ہمارے پڑوسی ڈر گئے انہیں لگا کہ شاید یہاں کوئی ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ حقیقت میں وہ پندرہ لوگ آپس میں گتھم گتھا ہی اس طرح تھے کہ لگ رہا تھا کہ معاملہ کسی کی موت تک جائے گا۔ ہم گدھوں (گدھ کی جمع ) کی طرح مردار کی آس لگائے بیٹھے تھے کیونکہ ملکی معیشت نے تو حلال کھانے والوں کے لئے جنگل کی زمین تنگ کر دی تھی۔ پہلے تو چھانگا مانگا میں پیسوں کی بوریاں لائی جاتی تھی۔

آخر میں گتھم گتھا ہوئے گنوار انسان نما جنگلی گدھوں کی بات یہاں ختم ہوئی کہ پانچ بندے مریض کو بستر سے قومے میں پہنچانے کے لئے ہسپتال میں ساتھ رہیں گے۔ آب میں سوچ رہا تھا کہ سب سے پہلے تو گتھم گتھا ہونے کی اتنی معمولی وجہ اور پھر میں سوچنے لگا کہ جس طرح ان کی تربیت کا معیار ہے۔ ہسپتال والوں نے مریض کو رکھ لیا یہ بھی بڑی بات ہے۔ بلکہ ان کا احسان عظیم ہے۔ جس کا بدلہ وہ قیامت والے دن لیں گے۔ خیر ہمارے گلے میں جو مصیبت کا آر ٹی ایس سسٹم ڈل چکا تھا وہ آب جام ہو چکا تھا۔ نتائج ہماری مرضی کے خلاف تھے۔ ہم نے سوچا کہ اچھی خاصی بیوقوف فیملی ہے۔ کھانا اپنے لئے بھی لائے گی اور ہمارے لئے بھی لے آئے گی لیکن میں بھی کمال کر رہا تھا یہ سوچ کر بھلا گدھ بھی شکار کرتے ہیں۔

چند دن ہمارے گھر ٹوپی ڈرامے کا کھیل چلتا رہا۔ وہ صبح سارے ہسپتال چلے جاتے تھے کھانے کے وقت واپس آ جاتے اور قوم لوط کی طرح بات ایک نہیں مانتے تھے۔ چند دن گزرے میں ہسپتال گیا کہ واقعی مریض بیمار ہے یا پھر عادت کر رہا ہے۔ ہسپتال کمرے کے ارد گرد ہی پہنچا تھا کہ دو ڈاکٹر دوڑ کر میری طرف آئے کہنے لگے جیم شہد 007 کا آپ سے تعلق نہیں بھی ہے تو بنا لیں اور انہیں یہاں سے لے جائیں ہمارے لئے آب mission impossible ہے۔

یہ کیا آپ نے یہاں ہالی ووڈ کی دکان کھول لی ہے ہڑتال کے دنوں میں بات تو بتائیں ہوا کیا ہے؟ کہنے لگے ہونا کیا ہے دماغ کی نسیں ایک دوسرے کے ساتھ گتھم گتھا ہو گئی ہیں۔ اگلے دن مریض کو بوتل لگائی تو کہنے لگا اس میں نمک ڈالنا ہاضمہ جلدی ہوتا ہے۔ نرس کو بے بی ڈول کہتا ہے۔ روز کوئی نہ کوئی ایسی حرکت کرتا ہے کہ ہم ایک دوسرے میں گتھم گتھا ہو جاتے ہیں اور وجہ معلوم نہیں ہوتی۔ یہ لوگ آپ جیسے مہذب انسان کے پڑوسی بھی نہیں لگتے لیکن رشتہ بنا لیں اور واپس لے جائیں۔

چار پانچ بندے مریض کے ساتھ ایسے رہتے ہیں جیسے وہ کوئی طوائف ہو حالانکہ کہ مرد طوائف نہیں ہوتے۔ یا انہیں لے جائیں یا ان کے لئے ڈاکٹر عامر لیاقت کو لے آئیں۔ لیکن آخر میں کسانوں کی طرح ڈاکٹروں کو میری بات ماننی پڑی کہ مریض کو سہی کا سرٹیفکیٹ کا دے کر صحت مند کر دیں اور یہاں سے رخصت کریں۔ تاکہ یہ گھر جائیں ہماری زندگی گمراہ کن راستے پر لے کر جا رہے ہیں۔ پر مجھے کیا معلوم کہ کیا ہونا ہے۔

آب مریض کچھ بہتر ہو رہا تھا اسے مزید چیک اپ کی ضرورت کے پیش نظر ہمارے آستانہ عالیہ پر منتقل کر دیا گیا تھا۔ خرچہ پانی کی طرح بہ رہا تھا۔ رکی ہوئی تو ہماری گھڑی اور روزی تھی۔ آب مریض روز یخنی پی پی کر شیر کے نوکیلے دانتوں کی طرح ہو گیا تھا۔ توند پولیس والوں کی طرح بے تحاشا بڑھی گئی مجھے لگتا تھا کہ یہ ہماری زندگی میں سردیوں کی راتوں کی طرح آیا ہے۔ آب حالات سے ایسا لگ رہا تھا کہ اگلا مرحلہ اگلی لہر شروع ہونے والی ہے۔ لہر کون سی ہو گئی کچھ معلوم نہیں۔ اتنے میں گھر کی کنڈے پر چلنے والی گھنٹی بجی تو چونک اٹھا کہ شالا کوئی مریض نہ ہوئے چلو مریض وی ہوئے تاں اکلا۔

دروازہ کھولا آگے سے چند لوگ جن کی شکلیں بیمہ کمپنی والوں کی طرح لگ رہی تھیں کہنے لگے ”وہ مریض کو پوچھنا تھا“ جن حالات سے ہم پہلے ہی گزر رہے تھے اور اب یہ۔ میں نے دل میں کہا پہلے ہمیں پوچھ لیں بعد میں نہ آنا پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).