ہاؤسنگ سوسائٹیاں اور پنجاب کا مستقبل



پاکستان یاترا میں گجرات سے کوٹ مومن (سرگودھا) جانا ہوا۔ کئی سال پہلے اس سڑک پر سفر کیا تھا تو سڑک کے دائیں اور بائیں قطار در قطار آپس میں گلے ملتے ہوئے درخت ہی درخت تھے۔ دونوں اطراف کے درخت اوپر سے آپس میں مل گئے تھے اور یوں لگتا تھا کہ جیسے ایک سبز سرنگ میں سفر کر رہے ہوں۔ دائیں بائیں ہرے بھرے کھیت جن میں ہل جوتتے کسان، اور ان کی مدد کرتی مختلف رنگوں میں ملبوس خوبصورت مٹیاریں گویا ایک رنگوں کی بہار۔ فضا میں کسان کے پسینے کی مہک اور سبزے کی فرحت انگیز خوشبو تھی۔

اس بار جب اسی راستے پر دوبارہ سفر کیا تو دیکھا سڑک بالکل ٹنڈ منڈ تھی نہ وہ درخت اور نہ وہ ہرے بھرے کھیت، نہ وہ سبزے کی مہک اور نہ ہل جوتتے کسان، یوں لگتا تھا کہ یہاں کبھی کوئی درخت تھا ہی نہیں، دہائیوں پرانے درخت بڑی بے دردی سے کاٹ دیے گے تھے۔ دائیں بائیں تا حد نگاہ آبادی ہی آبادی، بے ہنگم، کسی پلاننگ کے بغیر بنے مکانات، کنکریٹ کا ایک جنگل اور زمین کے سینے میں گڑا ہوا سریا۔ پورا منظر مکمل طور پر بدل چکا تھا۔ خوبصورتی بدصورتی میں تبدیل ہو چکی تھی، جدھر دیکھو سیمنٹ اور سریا کسی بدصورت بلا کی طرح سینہ تانے کھڑا تھا۔

کوٹ مومن کی سونا اگلتی زمین، جو کہ سٹرس فروٹ اور خاص طور پر کینوؤں کی پیداوار کے حوالے سے دنیا میں بہترین مانی جاتی ہے اس پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنا کر، کنکریٹ کا بد ہیئت جنگل اگا کر بیچا جا رہا ہے۔

پنجاب میں جس حساب سے ہاؤسنگ سوسائٹیاں بن رہی ہیں، سونا اگلتی نہری اور بارانی زمین کے سینے میں بجری سینٹ اور سریا گاڑا جا رہا ہے کچھ بعید نہیں کہ کچھ برس بعد کنکریٹ کا جنگل تو ہو لیکن کھانے کے لئے خوراک نہ ہو۔ سیمنٹ سریا دیکھ کر لگتا ہے کہ خوراک کا بحران کچھ زیادہ دور نہیں۔ زرعی ملک میں زراعت کا کوئی والی وارث نہیں۔ کسانوں کو نہ تو کوئی امداد ملتی ہے نہ رہنمائی، اور نہ ہی فصل کی اچھی قیمت۔ اس لئے وہ اپنی بھوک اور غربت کے ہاتھوں اپنی زمینیں تھوڑے سے لالچ کی خاطر سوسائٹی مافیاز کو بیچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ جو ان کی قیمتی زمینیں کوڑیوں کے بھاؤ خرید کر پانچ پانچ مرلے کے پلاٹ بنا کر لاکھوں میں بیچ رہے ہوتے ہیں۔ خدا جانے زرعی زمینوں پر بنی ان سوسائٹیز کو ڈیویلپمنٹ اتھارٹیز سے این او سی کیسے مل جاتے ہیں۔

اب ”ایماندار حکومت“ نے راوی کنارے ایک نیا شہر بسانے کے لئے ایک لاکھ ایکڑ (جو تقریباً 46 سے 48 کلو میٹر) زرخیز زمین اس شہر کے لئے وقف کر دی ہے، گویا زرخیز زمین پر ہاؤسنگ سوسائٹی اگائی جائے گی۔ کسی نے نہیں سوچا کہ ایک لاکھ ایکڑ زمین سے کتنی خوراک اور برآمدات کے لئے خام مال حاصل کیا جا سکتا ہے۔ کیا حکومت جانتی ہے کہ دنیا ایک غذائی بحران کی طرف بڑھ رہی ہے جس کے لئے باقی دنیا پہلے ہی تیاریوں میں مصروف ہے۔ کیا کسی نے سوچا ہے کہ اس کے ماحول پر کیا اثرات ہوں گے، پہلے ہی لاہور میں سانس لینا مشکل ہے۔

اوئے خدا کے بندو، نئے شہر بسانے ہیں تو کسی بنجر زمین پر جاکر بساؤ۔ پوری دنیا عمودی رہائش کی طرف جا رہی ہے تا کہ کم سے کم زمین رہائش کے لئے استعمال ہو، نئے شہر ہی بنانے ہیں تو کسی نئی جگہ بڑے شہروں سے دور بناؤ تا کہ ماحول پر کم سے کم دباؤ آئے۔ تم سونا اگلتی زمین پر پلاٹ بنا رہے ہو۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت صرف دو ہی صنعتیں چل رہی ہیں ایک ہاؤسنگ سوسائٹیز اور دوسری میرج ہال، جس طرف نظر گھماؤ کوئی نہ کوئی ہاؤسنگ سوسائٹی زیر تعمیر نظر آئے گی یا شادی ہال زرعی زمین پر کھڑا منہ چڑا رہا ہوگا۔

یوں لگتا ہے کہ پاکستان میں بس دو ہی کام رہ گئے ہیں شادیاں کرو، بچے پیدا کرو اور گھر بناؤ۔ جس رفتار سے پاکستان کی آبادی بڑھ رہی ہے لگتا ہے کچھ عرصے بعد ہر طرف ہاؤسنگ سوسائٹیاں ہی ہوں گی۔

اس انتہائی سرعت سے بڑھتی آبادی کی وجہ سے ہی ان کھمبیوں کی طرح اگتی سوسائٹیوں اور شادی ہالوں کو اتنی کامیابی ملی ہے، نتیجتاً زرعی زمین سکڑتی جا رہی ہے اگر یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا تو پھر پنجاب کے دریاؤں کے قصے، اس کی ہریالی کی کہانیاں، اس کی سونا اگلتی زمین کی داستانیں، صرف کتابوں کہانیوں میں ہی رہ جائیں گی۔

ایسا لگتا ہے اگر اس بے قابو آبادی کو نہ روکا گیا، اس کے آگے بندھ نہ باندھا گیا تو اس آبادی کے بوجھ تلے پاکستان کی سانس رک جائے گی۔

اس کو روکنا انتہائی ضروری ہے سب سے پہلے تو دو بچے خوشحال گھرانا کے نعرے کو سختی سے نافذ کرنا ہوگا، جس سرکاری ملازم کے دو سے زیادہ بچے ہوں اس کی تنخواہ کم کر دی جائے۔ جو لوگ پرائیویٹ ملازمت یا کاروبار میں ہیں ان میں سے جس کے بھی دو سے زیادہ بچے ہوں ان پر ٹیکس لگا دیا جائے۔ جوں جوں بچوں کی تعداد بڑھے ٹیکس کی شرح میں بھی اضافہ کر دیا جائے، شاید یہ واحد طریقہ ہے آبادی کو کنٹرول کرنے کا۔ کیونکہ باتوں سے تو ہم ماننے کے نہیں۔

اگر فوری طور پر اس آبادی کے ٹائم بم کی ٹک ٹک پر دھیان نہ دیا گیا تو یہ جلد ہی پھٹ جائے گا اور پھر ہر طرف انسان ہی انسان ہوں گے، کنکریٹ کے جنگل اگیں گے، نہ پانی ہوگا، نہ ضرورت کے لئے کافی غذا، نہ بجلی، نہ ہی صحت اور تعلیم کی مناسب سہولتیں، اور سب سے بڑی بات شاید سانس لینے کے لئے ہوا بھی دستیاب نہیں ہوگی! وہ بھی شاید خریدنی پڑے یا کسی اور ملک سے امداد میں لینی پڑے۔ اور مانگنے میں تو ہم ویسے بھی بڑے تیز ہیں اور اب تو خوش قسمتی سے اس کام کے سب سے بڑے ماہر دوسرے (پہلے پر کہتے ہیں کوئی ”سرجی“ ہیں) اعلی عہدے پر بھی ہیں۔

براہ مہربانی لائیو کالز کی شعبدہ بازیوں بند کرو اور ملک کے حقیقی مسائل پر توجہ دو، کہیں بہت دیر نہ ہو جائے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).