اتفاق میں برکت ہے (ری مکس)۔


آج کل کی بات ہے بر اعظم ایشیا کے ایک غریب ملک میں ایک کامیاب سرکاری ٹھیکے دار رہتا تھا۔ اس ٹھیکے دار کی کامیابی کی واحد وجہ ”دولت تقسیم کرنے سے بڑھتی ہے“ جیسے عمیق فلسفے پر دل و جاں سے عمل پیرا ہونا تھا۔ وہ بامراد شخص روزی میں برکت کی نیک نیت سے اپنے ہر ٹھیکے کے منافع کا چالیس سے پچاس فیصد غریب سرکاری ملازمین اور مظلوم سیاست دانوں پر رشوت کی صورت میں دان دیتا تھا، اور فلاح پاتا تھا۔ یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ غریبوں اور مظلوموں کی دعا کبھی رد نہیں جاتی اس لیے ٹھیکے دار دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پیسے کی دوڑ میں اپنے ہم عصروں سے میلوں آگے نکل گیا۔

لیکن قدرت کی ستم ظریفی بھی دیکھئیے کہ متمول ہونے کے باوجود ٹھیکے دار حقیقت میں درماندہ تھا کیونکہ اس کا سکون اپنے بیٹوں کی وجہ سے غارت ہو چکا تھا۔ اس کے چاروں نا خلف بیٹے ہر وقت ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے رہتے تھے اور اپنے علاوہ ٹھیکے دار کی ناک میں بھی دم کئیے رکھتے تھے۔ اس نے اپنے بیٹوں کو بارہا سمجھایا کہ ہم شیطان کے چیلے دل یزداں میں کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں اس لیے متحد رہنا ہمارے اپنے قومی مفاد میں ہے لیکن مجال ہے کبھی ان چاروں پر ایسی کسی نصیحت کا اثر ہوا ہو۔

المختصر، ٹھیکے دار ٹھیکے لیتا رہا، پیسے کماتا رہا اور وقت پر لگائے گزرتا رہا۔ بالآخر وزیروں، سیکریٹریوں، فرنٹ مینوں اور حسیناؤں سے ملتے ملتے وہ دن بھی آن پہنچا جس دن ٹھیکے دار کی ملاقات عزرائیلٴ سے طے تھی۔ اس دن اچانک اسے بستر مرگ پر لیٹے ہوئے عقل مند کسان کی کہانی یاد آ گئی۔ یہ کہانی اس نے اپنے استاد سے اس وقت سنی تھی جب سکول میں اس کا آخری سال تھا۔ اسے اپنی ساری حیاتی کبھی خیال نہیں آیا کہ چھٹی جماعت میں اس کے اردو کے استاد ماسٹر اللہ دتہ نے جو کہانی سنائی تھی وہ اسے اس وقت کام آئے گی جب اس کی آخری سانسیں چل رہی ہوں گیں۔ ٹھیکے دار نے سوچا، سچ ہے علم وہ دولت ہے جو کبھی ضائع نہیں ہوتی۔

ٹھیکے دار نے بستر کے قریب کھڑے اپنے منشی کی ذریعہ سے اپنے چاروں بیٹوں کو پیغام بھیجا کہ میری سانسوں کی ڈور ٹوٹنے کو ہے اس لیے فوراً ہسپتال پہنچو۔ چاروں بیٹے اپنے تمام ضروری کام چھوڑ کر، جن میں گھوڑوں کی دوڑ پر جوا، کمپیوٹر گیم پب جی کے ڈائمنڈ لیول کے لیے کاوش، بائیک ریسنگ کے انتظامات کا جائزہ اور ہیجڑوں کے رقص کے انعقاد کی تیاریوں جیسے اہم کام شامل تھے، ہسپتال پہنچ گئے۔ جب چاروں کی نظر اپنے جان بلب نحیف باپ پر پڑی تو اس کے ترکے کا سوچ کر ان کی آنکھوں میں خوشی سے آنسو آ گئے۔

آخری ملاقات کا آغاز ٹھیکے دار نے اپنے ہونہار سپوتوں کو اپنے دوست ججوں، سرکاری افسروں اور سیاست دانوں کے ان پلاٹوں، گاڑیوں اور بنک اکاؤنٹس کی تفصیلات بتاتے ہوئے کیا جو انہوں نے ٹھیکے دار کے نام پر رکھے ہوئے تھے۔ ساتھ ہی ٹھیکے دار نے اپنے بچوں کو سختی سے تاکید کی کہ اگر تم لوگوں نے میرے مرنے کے بعد میرے رشوت خور دوستوں کو ان کے اثاثے واپس کئیے تو روز محشر میرا ہاتھ تم سب کے گریبانوں پر ہوگا۔ بچوں نے اپنے باپ کو یقین دلایا کہ ہماری رگوں میں آپ کا خون بہتا ہے اس لیے ہم جھوٹے مقدمات بھگت لیں گے لیکن کسی حرام خور کو ایک دمڑی بھی واپس نہیں کریں گے۔

یہ سن کر ٹھیکے دار نے اطمینان کا سانس لیا اور اس کے بعد اپنے بیٹوں کو حکم دیا کہ قریبی جنگل میں جاؤ اور ایک ایک لکڑی ڈھونڈھ کر لاؤ۔ حکم سنتے ہی چاروں پریشان ہو گئے جب کہ اس کا سب سے چھوٹا بیٹا بولا، ”پاپا شاید آپ سٹھیا گئے ہیں۔ اس ہسپتال کے ارد گرد کوئی جنگل نہیں ہے“

”جاہلو، لکڑیاں نہیں ملتیں تو کچی پینسلیں ہی لے آؤ“ ، اچانک ٹھیکے دار چلایا۔

بچوں نے منشی کی طرف دیکھا اور وہ دوڑ کر پینسلیں لے آیا۔ جب کچی پینسلیں آ چکیں تو ٹھیکے دار نے اپنے بڑے بیٹے کو حکم دیا کہ چاروں پینسلوں کو آپس میں باندھ دو۔ اس کے بعد اس نے چاروں کو کہا کہ ایک ایک کر کے پینسلوں کی گٹھری کو اپنے ہاتھوں سے توڑو۔ کسان کے بیٹوں کی طرح ناکامی نے ٹھیکے دار کے بیٹوں کے بھی قدم چومے۔

ٹھیکے دار نے بچوں کو نصیحت کی، ”میرے جگر گوشو اگر تم چاروں ان پینسلوں کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہو گے تو کوئی مائی کا لعل تمہیں گزند نہیں پہنچا سکتا“ ۔

اس کے بعد ٹھیکے دار نے بچوں کو کہا کہ اپنی اپنی پینسل علیحدہ کرو اور پھر انہیں توڑو۔ چاروں نے اپنی اپنی پینسل توڑنے کی بھرپور کوشش کی لیکن اپنی کمزور جوانی اور جرمن نسل کی پینسلیں ہونے کی وجہ سے بری طرح ناکام رہے۔ یہ دیکھ کر منتظر عزرائیل اسرائیل نے مرنے سے پہلے آخری دفعہ اپنے آپ کو دل میں گالیاں دیں اور سوچنے لگا کہ اب کیا کیا جائے۔

اچانک اس کے موت قریب ذہن میں ایک نیا خیال آیا اور مسکراہٹ اس کے لبوں پر پھیل گئی۔ اس نے کمرے میں پڑے آکسیجن سلنڈر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے بیٹوں کو کہا کہ ایک ایک کر کے اسے اٹھانے کی کوشش کرو۔ ان چاروں نے سلنڈر اٹھانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ ٹھیکے دار نے مسکراتے ہوئے اپنے بیٹوں کو دوبارہ نصیحت کی، ”میرے جوانو، اگر تم اتفاق سے نہیں رہو گے تو مصیبت کا مقابلہ اکیلے نہیں کر سکتے“ ۔

اس کے بعد ٹھیکے دار نے اپنے بیٹوں کو حکم دیا کہ اب چاروں مل کر آکسیجن کا سلنڈر اٹھاؤ۔ اس بار چاروں جوان جوش و خروش سے آگے بڑھے اور آکسیجن سلنڈر کو مل کر اٹھانے کی کوشش کی لیکن ناکامی نے قہقہہ لگاتے ہوئے دوبارہ ان کے قدم چومے۔ یہ دیکھ کر بوڑھے ٹھیکے دار نے خدا سے آخری التجا کی کہ آدھا گھنٹہ پہلے ہی عزرائیل کو بھجوا دیں، آپ کی نوازش ہوگی۔

منشی، یہ سارا ڈرامہ غور سے دیکھ رہا تھا۔ وہ ٹھیکیدار کو مخاطب کرتے ہوئے بولا، ”حضور، میں نے آپ کا نمک کھایا ہے، میں نے ساری زندگی آپ کے بے شمار مسائل حل کئیے ہیں، آپ کے ڈوبے ہوئے بل سرکاری دفتروں سے نکلوائے ہیں، آپ کے بے نامی بینک اکاؤنٹس چلائے ہیں، آج تک آپ کی عیاشی کے دوران آپ پر چھاپا نہیں پڑنے دیا، آپ کے بچوں کو اپنے ہاتھوں میں جوان کیا ہے، اس لیے مجھے موقع دیں کہ میں انہیں سمجھاؤں کہ اتفاق میں برکت ہے“ ۔

قرب المرگ ٹھیکے دار نے اجازت میں سر ہلا دیا۔

بوڑھا منشی اجازت ملتے ہی آگے بڑھا اور آکسیجن سلنڈر اٹھا کر دوسرے کونے میں رکھ دیا۔ اس کے بعد بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے غصے سے بولا، ”سؤر کے بچو ہر وقت موبائل پر لگے رہتے ہو، کچھ کھایا پیا کرو اور ورزش کیا کرو“ ۔

اس کے بعد منشی نے بچوں کو بتایا، ”تمہارا باپ ساری زندگی ہر ٹھیکے کے منافع میں سے تقریباً آدھا اپنے پاس رکھتا تھا اور آدھا غربا اور مظلومین میں تقسیم کر دیتا تھا۔ اس کے باوجود دیکھ لو اس کے پاس کتنی دولت ہے۔ اگر سو فیصد منافع اس کی اپنی جیب میں جاتا تو یہ اس ملک کا ایلون مسک نہ سہی لیکن بل گیٹس ضرور ہوتا۔ تم چاروں اگر رئیس بننا چاہتے ہو تو مل کر کام کرو۔ تم چاروں میں سے جو فطین ہے وہ ٹھیکے دار بن جائے، ذہین سرکاری افسر بن جائے، تیسرا سیاست کے میدان زار میں قدم رکھے جب کہ چوتھا جج بن جائے۔ اس کے بعد سب مل کر کام کرو اور دنیا کو بتا دو کہ مقدر کے سکندر کیسے ہوتے ہیں۔“

یہ سنتے ہی چاروں قہقہے لگاتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ چمٹ گئے۔ بوڑھے ٹھیکے دار نے مسکراتے ہوئے اپنے بیٹوں پر نظر ڈالی اور آخری ہچکی لے کر عازم جہنم ہوا۔
نتیجہ : اتفاق میں برکت ہے

محمد عامر الیاس
Latest posts by محمد عامر الیاس (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).