کم آمدنی میں بچوں کی بھرمار، معاشی استحصالی کا باعث


\"\"

پاکستان کا شمار ترقی پزیر ممالک میں ہوتا ہے، ترقی یافتہ ممالک میں نہیں۔ ہم خدا سے اپنی مملکت خداداد کی حفاظت و ترقی و خوشحالی کی دعا کرتے ہیں۔ ہر سال چودہ اگست مناتے ہیں، شہدا کو خراج عقیدت اور خراج تحسین پیش کرتے ہیں، ملی نغموں کی گونج سے اپنے دلوں میں موجود وطن پاک کی محبت کے شعلے کو گرماتے ہیں، مختلف محافل کا انعقاد، شاعری و تقریری مقابلوں کا انعقاد کرکے مدارس میں اساتذہ بچوں کو سرزمین پاکستان سے محبت و حفاظت اور عزت و تکریم کا درس دیتے ہیں تاکہ نئی نسل وطن پاک کی محبت کے جذبے سے سرشار ہوسکے مگر نوجوان جو کسی ملک کی ترقی میں اہم اثاتہ سمجھے جاتے ہیں اگر اپنے بنیادی حقوق سے محروم رہیں، نہ پڑھ سکیں، نہ لکھ سکیں، نہ کھا سکیں نہ سو سکیں اور نہ ہی رو سکیں تو کیا کہیں گے آپ؟ ہم تو اتنے شقی القلب ہیں کہ بھیک مانگتے بچوں کو بھی دھتکار دیتے ہیں۔ صرف اس وجہ سے کہ ہم کس کس بچے کو بھیک دینگے۔ ایک کو دینگے ہزار آجائیں گے، بات بھیک کی نہیں، ہمارے رویوں کی ہے۔ ہم پڑھ لکھ ضرور گئے ہیں لیکن علم ہمارے وجود کی تکمیل نہ کرسکا یا یہ کہہ لیجیے کہ ہم علم کی نعمت کا حق ادا نہیں کرسکے، صرف کتابوں اور باتوں تک ہی محدود رکھا۔

ہمارے معاشرے میں بہت سی نا ہمواریاں ہیں۔ ان ناہمواریوں میں، عدم مساوات، اختیارات کی ناجائز منتقلی، نسل پرستی، فرقہ واریت، پست معیار تعلیم، جانبدارانہ رویے، حرام خوری، بے راہ روی، منشیات کا کھلے عام استعمال، دین سے دوری، طاقت کا بے دریغ استعمال سر فہرست ہے۔

پاکستان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی شرح آبادی ملک میں ہونے والی ترقی سے کئی گنا زیادہ ہے۔ جتنی تیزی سے آبادی بڑھ رہی ہے اتنی ہی تیزی سے معاشی تر قی پستی کی جانب گامزن ہے۔ آبادی کا تناسب معاشی ترقی پر اسی طرح اثر انداز ہوتا ہے جیسے مہنگائی صارف کی قوت خرید پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ملکی وسائل کو بروکار لاکر معاشی ترقی کو فروغ دینا، روزگار فراہم کرنا، صنعتی پیداوار میں اضافہ، صنعتوں کا قیام، ملک میں سرمایہ کاری، تجارت کا فروغ، زدمبادلہ میں اضافہ سب یقینا حکومت کی ذمے داریوں میں سے ہیں۔ آبادی کے تناسب کو ملکی ترقی وسائل کے مطابق رکھنا بھی ایک اہم ذمے داری ہے۔

یہاں کچھ باتیں بہت اہم ہیں۔

شرح آبادی کو کیسے کم کیا جائے؟ آبادی کی شرح ہی کو کم کرنا کیوں لازمی ہے؟

شرح آبادی کتنی ہونی چاہیے؟

زیادہ آبادی کیسے معاشی ترقی میں رکاوٹ بن جاتی ہے، کیا حالات ہوتے ہیں؟

معا شی ترقی کے لئے آبادی ہی میں کمی ضروری ہوتی ہے یا پھر کچھ اور عناصر بھی ہیں جو معاشی استحصالی کا باعث بنتے ہیں؟

معاشی ترقی کو بھی تو بڑھایا جاسکتا ہے بجائے اس کے کے ہم آبادی و دیگرشماری عناصر کی شرح میں کمی واقع کریں؟

اگر ہم پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو تو بہت سے سوالوں کا خود بخود جائے گا۔ قیام پاکستان کے وقت جب مشرقی بنگال بھی پاکستان کا حصہ تھا، اس وقت پاکستان دنیا کے نقشے پر تیرہواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک تھا، جس کی آبادی بتیس اعشاریہ پانچ 32.5 ملین تھی جبکہ یہی تعداد 1996 میں 140 ملین تک جا پہنچی تھی، اس وقت پاکستان ساتویں نمبر پر سب سے زیادہ آبادی والا ملک تھا۔ موجودہ صورتحال میں پاکستان آبادی کے لحاظ سے چھٹے نمبر پر دنیا کا سب سے زیادہ آبادی رکھنے والا ملک ہے جس کی آبادی 19 کروڑ سے بھی ذیادہ ہوچکی ہے، آنے والے دور 2050 میں یہ تعداد مزید بڑھ جائے گی۔

معاملہ وہاں سنگین نوعیت اختیار کر جاتا ہے جب ملک میں وسائل کی کمی ہو یا پھر وسائل کی موجودگی کے باوجود، ٹیکنالوجی کا فقدان اور سائنسی تحقیق میں سست روی اور دور جدید کے نئے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت کو پس پشت ڈال دینا ہماری عادت بن جائے، غیر مناسب معاشی منصوبہ بندی، بیورکریسی نظام اور وطن کے اندرونی معاملات میں بیرونی مداخلت اور اضافی قرضہ جات جو ملک میں ترقی کے نام پر غبن کو چھپانے کی بڑی اعلیٰ مثال ہے، انحصار کرنا شروع کردینا۔

حکمران عوام کی ٖفلاح وبہبود کی جگہ دنیا خرید نا چاہتا ہیں، دنیا میں رہنے کی فکر سے زیادہ، پیسہ کھانے اور بچانے کی فکر لاحق رہتی ہے۔

ہم نہیں سوچتے کے کیا کمائی کھارہے ہیں، کس کے حصے کی کھارہے ہی

دوسرے کے گھر کا چولہا کیسے جلےگا، عوام مرے گی بھی یا نہیں یا صرف تڑپتی ہی رہے گی، بھوک کو پیاس کو، گھر کو روزگار کو!

ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم وقت کا انتظار کرتے ہیں کے آنے والا وقت ہمارے لئے کیا لارہاہے؟ خود کو آنے ولے وقت کے لئے تیار نہیں رکھتے۔ اگر مسائل کی طرف نظر کی جائے توایک لمبی نا ختم ہونے والی فہرست پیش کرسکتی ہوں۔

مسائل کو منظر عام پر لانا یقینا میڈیا (ٹیلی ویژن، ریڈیو، فلم، انٹرنیٹ) کی ذمے داری ہے جو کسی ملک یا حکومت کے بنائے گئے اصولوں کے مطابق معلومات کی ترسیل میں زرائع ابلاغ کا استعمال کرکے عوام الناس کو وقت جدید کے تقاضوں، موجودہ ملکی و غیر ملکی صورتحال، صحت، تعلیم، جدید سائنسی تحقیقات(ٹیکنالوجی)، اور موسیقی و فلمی صنعت سے متعلق عوام کو آگاہ کرتا ہے۔

ہمارے پاس جتنے پیسے ہوتے ہیں، ہمیں اس میں ہی گزارا کرنا ہوتا ہے، اگر ضروریات زیادہ ہوں اور پیسے کم؟ تو ہمیں اپنی ذاتی خواہشات کو مار کر صرف ضروریات کو پورا کرنا ہی غنیمت سمجھتے ہیں کیونکہ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا، سوائے اس کے کے یا تو آپ اپنی آمدنی بڑھا لیں یا پھر دل مار لیں، اور دل مارنا بہت مشکل ترین کام ہے، اور اس وقت خاص کر جب وہ خواہشات آپ کے بچوں سے منسوب ہوں۔

اب بات یہ ہے کہ آمدنی کیسے بڑھائی جائے؟ آپ خود تو آمدنی بڑھا سکتے نہیں جب تک کے روزگار کے مواقع میسر نہ ہوں، روزگار اس وقت تک میسر نہیں ہوسکتا جب تک ملک میں سرمایہ کاری نہ کی جائے، سرمایہ کاری پیسے کی مد میں اور صنعتوں، ہسپتالوں، بینکوں، مدرسوں، کالج و یونیوسٹی کے قیام، برآمدات میں اضافہ، سیاحت کا فروغ، قدرتی وسائل کو بروکار لاکر ملک میں پیدا ہونے والی معدنیات کو قابل استعمال بنانا، صنعتی ترقی کو فروغ دینا، زراعت کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنا سب شامل ہیں۔

اب جب آپ کی خواہشیں ایسی ہوں کی ہر خواہش پر دن نکلے تو کیا کیجیے اور پھر بچوں کی بھر مار، ہر سال نئے مہمان کی آمد، عورت کو مشین سمجھنا۔ نہ صحت نہ خوراک، نہ تعلیم نہ روزگار پھر بھی زیادہ بچوں کی خواہش؟ کیا کرے گی ہمارا حال؟

کہنے کا مقصد اتنا ہے کہ اگر آمدنی کے حساب سے اخراجات کو پورا کیا جائے تو معاملات کافی حد تک سلجھ سکتے ہیں۔

آمدنی ہو نہیں اور اخراجات بڑھ رہے ہوں یا یہ کہہ لیجیے کہ کم آمدنی میں ذیادہ اخراجات کو پورا نہین کیا جاسکتا۔ جب آبادی بڑھتی ہے تو ملک کو بھی زیادہ سرمایہ کاری کرنی پڑتی ہے، سرمایہ کاری ملک اس وقت کرسکے گا، جب اس کے پاسے اتنے وسائل ہوں یا پھر درست معاشی منصوبہ بندی کرنے کی صلاحیت، جب دونوں کا فقدان ہو تو پستی ہے عوام، غربت میں اضافہ ہوتا ہے، بے روزگاری عام ہوتی ہے، جرائم بڑھتے ہیں، اشتعال پھیلتا ہے، برداشت کا مادہ ختم ہوجاتا ہے۔ قانون کی بالادستی ختم ہوجاتی ہے، عوام میں انتشار پھیل جاتا ہے، بغاوت پر تولتی ہے۔

میڈیا عوام کی خدمت کے لئے ہی ہے اور یہی اس کا کام بھی ہونا چاہیے۔ عوامی مسائل سے حکومت کو آگاہ کرنا، اور معاشرے میں پائی جانے والی ناہموایوں کو دور کرنا سب میڈیا کی ذمے داری ہے، مگر خاندانی منصوبہ بندی بھی معاشرے کی اہم ضرورت ہے۔

یونیسکو کے مطابق پاکستان کا شمار شرح خواندگی میں ایک سو ساٹھ ویں 160 نمبر پر دنیا کے ممالک میں ہے جو کہ نچلی ترین سطح میں سے ہے۔ تعلیم کی کمی عقل و شعور کے سارے دروازے بند کردیتی ہے، پہلی درس گاہ ماں کی گود ہوتی ہے۔ جب ماں ہی پڑھی لکھی نہیں ہوگی تو بچے کی تربیت کا معیار بھی پست ہوگا اور وہ ایک باعزت شہری بننے میں ناکام رہے گا۔ روزگار کی کمی اور اولاد کی کثرت، معاشی استحصالی کا باعث بنتی ہے، لہذا بچے ضرور پیدا کریں لیکن ان کے مستقبل کے لئے روزگار میں اضافہ کیجیے، علم حاصل کیجیے، کوئی ہنر سیکھیے اور اتنے ہی بچے پیدا کریں جن کو پالنے کی سکت ہے تاکہ ملک کی معاشی ترقی کو فروغ دے سکیں نہ کہ معاشرے پر بوجھ بنیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments