منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے


ملک کی موجودہ سیاسی، سماجی اور معاشی صورت حال کے تناظر میں نہ جانے کیوں اداس رتوں کے پراسرار لیکن خوب صورت شاعر منیر نیازی کا یہ لازوال شعر یاد آتا ہے۔

منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

جانے پاک سرزمین پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے کہ تخت نشین ہونے والا ہر حکمران ملک و قوم کو بحرانوں سے باہر نکالنے کے وعدے پر آتا ہے لیکن جاتے جاتے اس بدنصیب قوم کو مزید بحرانوں میں دھکیل جاتا ہے۔ اس حقیقت سے تو اب کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ راج سنگھاسن پر براجمان ”لاڈلے“ اپنے اس دور اقتدار میں نہ تو اچھی حکمرانی دے سکے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس ملکی معیشت کو بحران سے نکالنے کا کوئی نقش راہ ہے۔ عوام کے مسائل بھی جوں کے توں ہیں بلکہ اور بڑھ چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ گزشتہ انتخابات کی ساکھ بھی بری طرح مجروح ہو چکی ہے۔

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ موجودہ سیاسی و معاشی بحران کی ایک وجہ خود وزیراعظم عمران خان کا غیر مفاہمانہ رویہ اور وزرا کی غیر ذمہ دارانہ و بے جا بیان بازی بھی ہے۔ موجودہ حالات میں وزیراعظم عمران خان کے پاس بہترین راستہ یہ ہو گا کہ وہ مفاہمت کی طرف بڑھیں اور حزب اختلاف کی جماعتوں کو اہم قومی معاملات پر اعتماد میں لیں۔

آئن سٹائن نے کہا تھا کہ ”ایک چیز کو یہ سوچ کر بار بار کرنا کہ اس سے مختلف نتائج سامنے آئیں گے، پاگل پن کی نشانی ہے“ ۔ حزب اختلاف کے رہنماؤں کے خلاف احتساب کے نام پر حکمران جماعت کے وزراء کی چیخ پکار، غم و غصہ، تلملاہٹ اور ان کے سیخ پا ہونے کو تھوڑی دیر کے لئے جائز اور درست بھی مان لیا جائے لیکن کیا اگر وہ وزیروں مشیروں کی فوج ظفر موج میں شامل نہ ہوتے اور 22 کروڑ عام آدمیوں میں سے ایک بے بس، لاچار اور بے اختیار عام آدمی ہوتے، اور اگر مولانا فضل الرحمن صدر پاکستان اور میاں محمد شہباز شریف وزیراعظم پاکستان ہوتے تو کیا وہ پھر بھی اپنے حالات زندگی کی تبدیلی کے لئے کوشش کرنے کے عمل کو درست اور جائز سمجھتے یا پھر بھی اسے غلط عمل سمجھتے؟

جناب اعلیٰ! گستاخی معاف۔ آپ عالی مرتبت بارگاہوں میں بیٹھے ہیں۔ اس لیے آپ زمین پر رہنے اور بسنے والوں کی مصیبتوں، تکالیف اور پریشانیوں سے واقف نہیں ہیں۔ ہوش ربا مہنگائی کے ہاتھوں تنگ آج ہر عام آدمی آہ و بکا کر رہا ہے۔ درندگی اور شرمندگی کے درمیان پھنسی زندگی جھیلنے والی یہ حرماں نصیب قوم کسی دیواریہ گریہ کی تلاش میں ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہے جہاں وہ اپنا سر پھوڑ سکے۔

سانحہ ساہیوال سے سانحہ اسلام آباد اور سانحہ مچھ تک ہر طرف گریہ ہی گریہ ہے۔لوگ بلک رہے ہیں، سسک رہے ہیں۔ پورے ملک پر فاقوں، ناکوں، ڈاکوں اور خودکشیوں کا راج قائم ہے۔ موت دندناتی پھر رہی ہے، لوگ صرف ایک روٹی کے لئے جسم کے اعضاء فروخت کر رہے ہیں، لیکن آپ کو ان کی تکلیفوں، مصیبتوں اور کرب و الم کا احساس کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ احساس تو اسے ہو سکتا ہے جس نے فاقوں کا سامنا کیا ہو، بھوک سے ہونے والی اموات خود دیکھی ہوں، جسم کے اعضاء بکتے اور بم دھماکوں میں بکھرتے دیکھے ہوں۔

کسی نے کنفیوشس سے پوچھا کہ کسی ملک کی سلامتی و فلاح اور اصلاح کے لئے کن چیزوں کی ضرورت ہے، اس نے جواب میں کہا کہ کسی ملک کی بقاء و فلاح کے لئے تین چیزیں اہم ہیں ( 1 ) طاقت ور فوج ( 2 ) خوراک کی افراط ( 3 ) عوام کی باہمی یکجہتی اور ہم آہنگی۔ سوال کرنے والے نے پھر پوچھا کہ اگر یہ تینوں بیک وقت میسر نہ آ سکیں تو پھر؟ کنفیوشس نے جواب میں کہا اگر طاقت ور فوج نہیں ہو گی تو کوئی بات نہیں، کسی ملک کی سب سے بڑی فوج اس کے عوام ہوتے ہیں، عوام خود اپنا دفاع کر لیں گے۔

سوال کرنے والے پھر پوچھا کہ ان باقی دو چیزوں میں سے وہ کون سی چیز ہے کہ جس کے بغیر گزارا ہو سکتا ہے، کنفیوشس نے جواب میں کہا کہ اگر خوراک کی قلت ہو گی تو کوئی بات نہیں، کسی نہ کسی طرح گزارا ہو ہی جائے گا، عوام باہم مل کر اس کمی کا مقابلہ کر لیں گے لیکن اگر عوام میں ہم آہنگی اور یکجہتی نہیں ہو گی تو ملک کی بربادی اور تباہی یقینی ہے۔ پاکستان کے عوام میں اسی ہم آہنگی اور یکجہتی کی شدید کمی ہے۔

آپ سب کو شیکسپیئر کے یہ الفاظ تو یاد ہی ہوں گے کہ ”وہ لوگ جو بلند مقام پر کھڑے ہوتے ہیں، انہیں بہت سی گرانے والی تیز و تند ہواؤں کاسامنا ہوتا ہے اور اگر وہ گر جائیں تو وہ ٹکڑوں میں بکھر جاتے ہیں۔“ تاریخ کا پہلا سبق یہ ہے کہ ہم کبھی تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرتے۔ جب سبق حاصل کرتے ہیں تو خود تاریخ بن چکے ہوتے ہیں اور بات پھر وہیں آ پہنچتی ہے جہاں سے شروع ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).