امریکہ نے حملہ کیا تو اس بار طالبان اکیلے نہیں ہوں گے


امریکی صدر جو بائیڈن نے 20 جنوری کو اپنی حلف برداری کے وقت افغانستان میں طالبان کے ساتھ امریکی معاہدے پر نظرثانی کے بارے میں جو الفاظ کہے تھے وہ ان کی فوج سے ہوتے ہوئے افغان حکومت کی زبانوں پر بھی آچکے ہیں جس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ جو سابق امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ کی جانب سے طالبان کے ساتھ معاہدے پر ناخوش تھے وہ سب اب ہم خیال اور ہم آواز ہو چکے ہیں۔ اس امن معاہدے کے افغان طالبان کے ساتھ کیے جانے کے مخالفین میں امریکی اسٹیبلشمنٹ اور موجودہ افغان حکومت نمایاں تر تھے یہی وجہ ہے کہ صدر ٹرمپ کے جاتے ہی ان کی زبانیں بھی کھل گئی ہیں اور وہ کھلے عام طالبان کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں کہ گزشتہ سال 29 فروری کو امن معاہدے کا حصہ بننے والے طالبان نے جن باتوں کا وعدہ کیا تھا ان میں سے بہت پر انہوں نے عمل ہی نہیں کیا اور یہ کہ وہ القاعدہ کے ساتھ اپنے رابطے بھی ختم نہیں کرسکے ہیں۔

طالبان سے یہ شکوہ کرنے والے امریکی اور موجودہ افغان حکام شاید زمینی حقائق اور طالبان کی بدلی حیثیت کا ویسے ادراک نہیں رکھتے جیسا کہ رکھنا چاہیے تھا۔

اس خطے میں موجود قوتوں چین اور روس کے ساتھ اکثر دیگر ممالک بھی جس انداز میں طالبان کا سواگت کر رہے ہیں یعنی انہیں ہاتھوں ہاتھ لے رہے ہیں اس سے ایک بات تو بالکل واضح ہے کہ طالبان اب وہ تنہا اور آسان شکار نہیں رہے جو سال 2002 میں تھے اور ناں ہی امریکہ کو ان اتحادیوں کا پورا ساتھ حاصل ہے جنہوں نے نائن الیون کے بعد اس کے ساتھ مل کر افغانستان پر چڑھائی کی تھی اس لئے اس بات میں اب کوئی باک نہیں رہا کہ افغانستان پر کسی بھی نئے حملے سے پہلے خود امریکہ کے لئے بدلے حالات کا بھرپور جائزہ ضرور لینا ہوگا۔

افغانستان کے بارے میں اس بدلی امریکی پالیسی نے ان بہت سارے لوگوں کو حیران ہونے کے ساتھ ساتھ پریشان بھی کر دیا ہے جو اس کے نتائج سے واقف ہیں ان میں وہ بھی شامل ہیں جو کسی نئی امریکی جنگ یا افغانستان میں رہنے کے ذریعے خطے میں ممکنہ بدامنی نہیں چاہتے اور وہ بھی ہیں جو افغانستان میں اپنے پنپتے مفادات کے مستقبل کے بارے میں بھی فکرمند ہیں۔

نئے امریکی صدر کے رویے سے تو یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ شاید وہ رواں مہینے کے کسی وقت افغانستان میں طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے خاتمے کا اعلان کردیں گے اور یہ بات افغانستان اور پاکستان میں لوگوں کے لئے بے چینی کا باعث ہے خصوصاً وہ لوگ جو یہ جانتے ہوں کہ ان دونوں ہمسایہ ممالک نے افغانستان میں جنگوں کے دوران کتنا کچھ نقصان سہا ہے۔ اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں کہ افغانستان میں بدامنی نے اس کے بعد سب سے زیادہ اگر کسی کو متاثر کیا ہے تووہ پاکستان ہے جو ابھی پرانی جنگوں کے اثرات سے پچاس فی صد بھی واپس نہیں سنبھلا ہے۔ ان دونوں ملکوں کی پریشانی کی بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ جنگ کی صورت میں ان کے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں گی۔

دنیا اور اس خطے کے رہنے والے اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ حالات بدل چکے ہیں اور اب کی بار کسی جنگ کی صورت میں جہاں عام لوگ زیادہ متاثر ہوں گے وہیں پر جنگ کے فریقین اور خصوصاً امریکہ بری طرح متاثر ہوسکتے ہیں وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اب کی بار کسی نئی جنگ کے لئے بین الاقوامی برادری اور خود اپنے شہریوں کو تیار کر کے ان کی حمایت حاصل کرنا امریکہ کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہوگا جبکہ اب کی بار افغانستان پر حملے کے لئے اسے نائن الیون جیسا کوئی بڑا جواز بھی دستیاب نہیں ہوگا۔

نہ صرف نائن الیون جیسا کوئی جواز حاصل نہیں بلکہ دنیا کے سامنے اپنے کیس کو مضبوط بنانے کے لئے امریکہ کے پاس یہ جواز بھی نہیں رہا کہ طالبان ایک بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم ہیں جن کو ٹھیک کرنے کے لئے اس کی افغانستان دوبارہ آمد اور یہاں پر رہنا ضروری تھا۔ خطے کے اہم ممالک اور امریکہ کے ساتھ کسی بھی وجہ سے مخاصمت رکھنے والوں کے ہاں طالبان کا والہانہ استقبال اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ ممالک طالبان ہی کو افغانستان کی بالاتر اور قانونی قوت تسلیم کر کے ان سے توقعات وابستہ کرچکے ہیں۔ ان ممالک میں روس، چین، پاکستان، ایران اور ترکی وہ ہیں جنہوں نے طالبان سے افغانستان میں امن کے قیام کے ذریعے یہاں پر تجارت کے فروغ کے حوالے سے بہت ساری توقعات وابستہ کرلی ہیں جو نہیں چاہیں گے کہ کسی بیرونی قوت کی خاطر اس خطے کا امن ایک بار پھر داؤ پر لگے۔

ان میں وہ جو چین کے شروع کیے ہوئے بڑے پراجیکٹ سی پیک سے کسی بھی طرح فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں وہ کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ وہ امریکہ کی خاطر اپنے مفاد سے دستبردار ہوجائیں۔

یہ تو اندھے کو بھی نظر آ رہا ہے کہ وہ جنگ جو کبھی امریکہ کے ساتھ طالبان نے اکیلے لڑی تھی اگر دوبارہ شروع ہوئی تو نہ صرف یہ اب صرف طالبان اور امریکہ تک محدود نہیں رہے گی بلکہ یہ صرف افغانستان تک بھی شاید محدود نہ ہو اس لئے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ افغانستان سے اپنے وابستہ مفاد اور سی پیک کے منصوبے پر نظریں جمانے والے دیگر ممالک بھی شاید کسی نئی جنگ میں خاموش تماشائی کا کردار ادا نہ کریں اور اپنے مفاد کو محفوظ بنانے کے لئے وہ شاید زیادہ سرگرم کردار ادا کرنے پر تیار ہوں۔

افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد کم ہوتے ہوتے پچیس سو تک رہ گئی ہے اور رواں سال کے مئی کے مہینے تک امریکی فوجوں کا مکمل انخلا ہونا باقی ہے تاہم اگر امریکہ سابق صدر ٹرمپ کے وقت میں کیے ہوئے معاہدے کو ختم کرتا ہے تو پھر اسے ناں صرف مزید فوجی واپس لانے ہوں گے بلکہ پورے جنگی سامان سے لیس ہونا ہوگا۔ تاہم وہ لوگ جو طالبان وفود کے روس، چین اور وسطی ایشیا کے ممالک میں استقبال سے واقف ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ اگر افغانستان میں اب کی بار طالبان نے اپنی حکومت بنائی تو شاید یہ ہمسایہ قوتیں انہیں زیادہ اخلاقی اور قانونی حمایت فراہم کرے اور اسے تسلیم کرنے میں بھی دیر نہ کریں۔

وہ جو جانتے ہیں کہ اب کی بار جنگ ہوئی تو افغانستان میں سب سے زیادہ نقصان ہونے کا اندیشہ خود امریکہ، اس کے اتحادی بھارت اور افغان حکومت کو ہے۔ ایرانی بندرگاہ چابہار سے محروم ہونے والے بھارت کی حالت اور مستقبل بھی کچھ زیادہ محفوظ نہیں نظر آ رہا جسے خود بھی اس بات کا احساس ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام سے اس کی سرمایہ کاری کو سب سے زیادہ نقصان کا اندیشہ ہے۔

نائن الیون کے وقتوں کے مقابلے میں پہلے سے معاشی اور عسکری لحاظ سے زیادہ مضبوط چین اور روس بھی امریکی جارحیت کے آگے بڑی رکاوٹ بن سکتے ہیں یہ دو ممالک امریکہ کے ساتھ تعلقات کی خرابی کے بھی حامل ہیں۔ ایسے میں نئے امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کے روسی ہم منصب کے مابین حال ہی میں امریکی صدارتی انتخابات میں ممکنہ روسی مداخلت کے معاملے پر سخت الفاظ کا تبادلہ بھی اہم پیش رفت ہے جبکہ روس کے اندر اپوزیشن لیڈر کی حالیہ گرفتاری کے بعد شہر شہر ہونے والے مظاہروں نے بھی روس اور امریکہ کو ایک دوسرے سے کافی دور کر دیا ہے روس کو شکایت ہے کہ اس کی اپوزیشن کو مظاہروں کے لئے سڑکوں پر لانے والا بھی امریکہ ہے جبکہ ایران اور ترکی تو پہلے سے ہی امریکہ سے کافی دوری پر ہیں۔

ان حقائق کو جاننے والے یہ بھی جانتے ہیں کہ افغانستان میں کسی بھی قسم کی نئی جارحیت یا فورسز کی دوبارہ تعیناتی شاید کسی کو کوئی فائدہ نہ دے سکے اس لئے دنیا کی خوشحالی کا راستہ اب بھی امن ہے جسے ہر قیمت پر بحال ہونا چاہیے اور کسی بھی قوت کو اپنے سٹریٹجک یا معاشی مفادات کے لئے ایک اور جنگ کی شروعات سے ہر صورت گریز کرنا چاہیے کیونکہ ایک فریق کی شروع کی ہوئی جنگ کا پھیلاؤ اب صرف خود اس تک یا اس کے مخالف تک محدود نہیں رہ پائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).