سمیع چوہدری کا کالم: اب شاید یہ پہاڑ بھی سر ہو جائے


کرکٹ
دو طرفہ مقابلوں کے نتائج سے بھلے دو ٹیموں کے سوا کسی کو کوئی سروکار نہ ہو مگر جب کوئی عالمی مقابلہ قریب ہو تو نتائج کو جانچنے کے لیے ایک نیا نقطۂ نظر مل جاتا ہے۔

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کو پچھلے سال آسٹریلیا میں منعقد ہونا تھا مگر کورونا وائرس کے پیشِ نظر اسے ملتوی کر دیا گیا۔ لیکن اس سال یہ ٹورنامنٹ انڈیا میں منعقد ہونے جا رہا ہے۔

گو ابھی ایونٹ میں آٹھ ماہ باقی ہیں مگر اس وقت تمام ٹیموں کا دھیان اپنا بہترین کمبینیشن بنانے پر ہے۔ پاکستانی کیمپ پہ تو پی ایس ایل کا اضافی جوش بھی طاری ہو گا۔

پاکستان بھلے دو سال پہلے تک نمبرون ٹیم تھی مگر پچھلے دو سال میں پاکستان کی ٹی ٹوئنٹی فتوحات کی تعداد ناکامیوں سے کہیں کم ہے اور نئے کپتان بابر اعظم ابھی تک اپنا بہترین کمبینیشن نہیں بنا پائے۔

یہ بھی پڑھیے

بابر اعظم سا کپتان بھی خوش نصیبی ہو گی؟

یہ کلین سویپ کسی ’لیجنڈ‘ سے کم نہیں

پی سی بی کا ‘بچہ’ کماؤ پُوت بن گیا

کرکٹ

پاکستان کو ٹی ٹوئنٹی کی نمبر ون رینکنگ تک پہنچانے میں بنیادی کردار ادا کرنے والوں میں سے صرف بابر اعظم اور حسن علی ہی ہیں جو پاکستان کو اس سیریز میں دستیاب ہوں گے۔

فخر زمان، شاداب خان، عماد وسیم، محمد عامر اور وہاب ریاض، سبھی الگ الگ وجوہات کی وجہ سے اس سکواڈ کا حصہ نہیں ہیں۔

دوسری جانب جنوبی افریقی ٹیم بالکل ایک نئے حلیے کے ساتھ اس سیریز میں اترے گی۔

سینیئر کھلاڑیوں کی غیر موجودگی میں بہت سے نئے چہرے دیکھنے کو ملیں گے۔ اور ان میں سے ڈیوڈ ملر اور پیلکوائیو کے سوا کسی کا بھی انٹرنیشنل کرکٹ کا تجربہ قابلِ ذکر نہیں ہے۔

ہینرچ کلاسن کی کپتانی میں اس نو آموز ٹیم کو ہرانا بظاہر بابر اعظم کی ٹیم کے لیے آسان ہدف ہونا چاہیے مگر ڈیڑھ سال پہلے جب سری لنکا کی بالکل نئی نویلی ٹیم مدِ مقابل آئی تھی تو بھی سبھی کا یہی خیال تھا مگر اس نوآموز ٹیم نے جب پاکستان کو چاروں خانے چت کیا تھا تو سبھی اندازے اور تجزیے گڑبڑا گئے تھے۔

کیا کلاسن کی نوآموز ٹیم بھی کوئی ایسا جادو پھونکنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟

پاکستان کو یہ طے کرنا ہے کہ بابر اعظم کے ساتھ اوپن کون کرے۔ نیوزی لینڈ کے دورے پہ محمد رضوان نے اس پوزیشن پہ اچھا کردار ادا کیا مگر اب تھنک ٹینک کو یہ طے کرنا باقی ہے کہ رضوان اوپن ہی کریں یا پھر حیدر علی سے اوپن کروائیں اور رضوان کو چوتھے نمبر پہ کھلایا جائے۔

بابر اعظم

جنوبی افریقہ کی ٹیم بظاہر اس سیریز میں بغیر کسی اندیشۂ زیاں کے اتر رہی ہے اور اگر پاکستان ڈیوڈ ملر کو جلد آؤٹ نہ کر پایا تو ان کی کارکردگی کے اردگرد ٹیم ایک مسابقتی مجموعہ تشکیل دے سکے گی اور مقابلہ جاندار ہو جائے گا۔

دونوں ٹیموں کی ممکنہ الیون یہ ہو سکتی ہے۔

پاکستان: بابر اعظم (کپتان) ، محمد رضوان، حیدر علی، خوشدل شاہ، آصف علی، حسین طلعت، فہیم اشرف، حسن علی، محمد نواز، حارث رؤف، عثمان قادر

جنوبی افریقہ: جانیمن میلان، ریضا ہینڈرکس، جان جان سمٹس، ڈیوڈ ملر، ہینرک کلاسن، آندیلے پیلکوائیو، ڈوین پریٹوریس، جارج لنڈہ، لوتھو سمپالا، تبریز شمسی، گلینٹن سٹرمن

موسم کی صورتِ حال دیکھی جائے تو مطلع صاف رہنے کا امکان ہے اور قذافی سٹیڈیم لاہور کی وکٹ چونکہ ہمیشہ دھیمے معتدل باؤنس کا مظاہرہ کرتی ہے، حالات بلے بازوں کے لیے زیادہ موافق رہنے کا امکان ہے، جس کا مطلب ہے مقابلے ہائی سکورنگ ہوں گے۔

تاریخ پہ نظر ڈالی جائے تو پاکستان آج تک جنوبی افریقہ کو کوئی ٹی ٹوئنٹی سیریز ہرانے میں کامیاب نہیں ہوا۔ مگر اس بار حریف ٹیم کی ناتجربہ کاری اور ہوم کنڈیشنز کا فائدہ شاید اس ریکارڈ کو بھی بدل ڈالے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32286 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp