کھوکھا لائبریری، ہمارا بچپن اور خورشید صاحب


عہد رفتہ کے متروک لمحوں میں اوچ شریف کی درگاہ حضرت محبوب سبحانی کی ہمسائیگی میں ایک لکڑی کا کھوکھا بوسیدگی کی ردا اوڑھے ہمیں عمرو و عیار، ٹارزن، چلوسک ملوسک، چھن چھنگلو، ہرکولیس اور فیصل شہزاد، ایکسٹو اور پاکیشیا سیکرٹ سروس کی تحیر آمیز کہانیاں سناتا تھا، ہمارا ہاتھ پکڑ کر ہمیں طلسمی جہانوں کی سیر اور پراسرار کرداروں سے ہماری ملاقات کراتا تھا۔ اس کھوکھے کو ہم جیسے ”کتابی کیڑے“ ”عمران دی گریٹ لائبریری“ کے نام سے جانتے تھے۔

تیسری جماعت سے ہمیں ان کہانیوں کا ایسا چسکا لگا کہ ابو کی طرف سے ملنے والی پانچ روپے کی جیب خرچی جمع کرتے جاتے اور جمعہ کی چھٹی کے دن جب اماں ہمیں درگاہ پر حاضری دینے کے لئے بھیجتیں تو ہم اس بہانے ”عمران دی گریٹ لائبریری“ سے جمع شدہ جیب خرچی سے بچوں کی تین چار کہانیاں خرید لیتے۔ بچوں کے ایک ناول کی کم سے کم قیمت 3 روپے ہوتی تھی جو عموماً ہمارے پسندیدہ مصنف جناب مظہر کلیم ایم اے کا لکھا ہوتا۔

لکڑی کے اسی بوسیدہ کھوکھے پر مشتمل ”عمران دی گریٹ لائبریری“ کے ایک کونے میں ”لائبریرین“ خورشید صاحب لکڑی کی دیوار کے ساتھ ٹیکے لگائے اپنے مخصوص انداز میں بیٹھے ہوتے۔ کبھی کبھی تو وہ ہمیں خود بھی طلسم ہوش ربا کا ایک پراسرار کردار نظر آتے۔ اپنے آپ میں گم، چپ چاپ، سپاٹ چہرہ، اگر اس دور میں ہم نے عمران سیریز پڑھا ہوتا تو ہم خورشید صاحب کو ”ایکسٹو“ کا نام دے دیتے۔

ہم جب بھی ان کے پاس گئے وہ ہمیں ہمیشہ عمران سیریز کا ناول پڑھتے نظر آئے۔ ان کے ساتھ دھرے ان گنت ناولوں سے ہم اپنے پیسوں کے مطابق کہانیاں منتخب کرتے۔ پھر ان کو دکھاتے، وہ بغیر کوئی لفظ منہ سے نکالے ان کہانیوں کی قیمت دیکھتے اور ٹوٹل حساب بنا کر سپاٹ لہجے میں صرف کل پیسوں کا ہندسہ بتا دیتے۔ کوئی اضافی لفظ نہ کوئی رعایت۔ ہم جمع کی گئی ریزگاری انہیں تھماتے اور ناول اٹھائے شاداں و فرحاں گھر کی اور چلتے بنتے۔ اس وقت ہماری دلی خواہش ہوتی کہ ہم ان سے ڈھیر ساری باتیں کریں۔ ہم ان کو مسکراتے ہوئے دیکھیں لیکن ”اے بسا آرزو کہ خاک شد“ ۔

وقت نے پلٹا کھایا، 90 کی دہائی کا فسوں تمام ہوا، بچپن، لڑکپن اور جوانی پر لگا کر اڑ گئے۔ اس دوران آثار قدیمہ کے تحفظ کے نام پر درگاہ کے اردگرد موجود دکانوں اور دیگر تجاوزات کو ختم کر دیا گیا۔ مقبرۂ حضرت موسیٰ پاک شہید یعنی ”کپ“ کے عقب میں ایستادہ لکڑی کا وہ بوسیدہ کھوکھا ہمارے بچپن کی طرح نگاہوں سے معدوم ہو گیا۔ جگہیں کشادہ ہوئیں تو لوگوں کے دماغ بھی تنگ اور جذبے سیمنٹڈ ہوتے گئے۔ کہانیاں پڑھنے والا کوئی نہ رہا تو قصے کہانیوں کے طلسمی کردار کی طرح خورشید صاحب بھی ’غائب‘ ہو گئے۔ ان کے 37 روپے البتہ ہمیں یاد رہے جو عمران سیریز کے کرائے کی مد میں ہم نے ان کے دینے تھے۔

اس دوران نام نہاد ترقی کی بے ہنگم دوڑ اور بے ذوق معاشرے کے بیچ جب ہم کتاب سے بے گانہ ڈیجیٹل نئی نسل کے ’نمونوں’ کو دیکھتے تو دل ہی دل میں خورشید صاحب کا ضرور شکریہ ادا کرتے کہ اگر ان کی ”عمران دی گریٹ لائبریری“ نہ ہوتی تو ہمارا بچپن کس کرب اور بے رنگی سے گزرتا۔ یہ عمران دی گریٹ لائبریری ہی ہے جس نے ہمارے مطالعاتی ذوق کو اجیارا اور لفظوں سے محبت کرنا سکھائی۔ عرصہ گزرنے کے باوجود خورشید صاحب اور ان کا کھوکھا ہمارے قلب و ذہن میں جگنو کی طرح دمکتے اور خوشبو کی طرح ہمکتے رہے۔

چند روز قبل ہاتھی گیٹ بازار میں خریداری کے دوران شمیم بھائی نے ان کو دیکھ لیا تو مارے خوشی کے ان سے لپٹ گئے اور وارفتگی و محبت کے ساتھ ان کو ’اغواء‘ کر کے ہم سے ملوانے ساتھ لے آئے۔ سمے کی جولانیوں نے ’خورشید‘ کی تپش کو ماند کر دیا تھا۔ غم روزگار، عیال داری اور بچوں کے مستقبل نے خورشید صاحب کے قویٰ مضمحل کر دیے تھے۔ ان سے مل کر سرخوشی کا ایسا احساس ہوا جسے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اس ملاقات میں ہم نے انہیں یہ یاد دلانا ضروری سمجھا کہ ہم ان کے 37 روپے کے مقروض ہیں۔ ہم بہت پہلے ہی ان کا یہ ادھار چکا دیتے لیکن ہماری خوشی اسی میں ہے کہ ہم اعتبار اور افتخار کے ساتھ ان کے مقروض رہیں۔

خورشید صاحب! آپ ہمارے نوسٹیلجیا میں ہمکتے ہیں۔ دل میں بستے ہیں اور جذبوں میں سانس لیتے ہیں۔ ہم آپ کے مقروض ہیں اور آپ سے محبت کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments