کپاس کی مطلوبہ پیداوار میں ناکامی کی وجہ


آج مخلتف فورمز پر کپاس کی ناکامی کا جگہ جگہ رونا رویا جا رہا ہے جتنے منہ اتنی بات کے مصداق ہر کوئی اپنی اپنی بندوقوں کا رخ کسی نہ کسی پر تانے کھڑا ہے، کوئی کہتا ہے کپاس کی مطلوبہ پیداوار میں ناکامی کی وجہ اچھے اور معیاری سیڈ کا نہ ہونا ہے، کسی کا کہنا ہے زرعی زہریں اور کھادیں غیر معیاری ہیں، کوئی کہتا ہے ریسرچ ادارے ناکام ہو چکے، کچھ کا کہنا ہے کپاس کی پیداواری لاگت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اب اس فصل میں منافع نہیں رہا، اور کوئی ناکامی کی وجہ موسمیاتی تبدیلیوں، نئی سیڈ ٹیکنالوجی کو اختیار نہ کرنا اور سفید مکھی اور گلابی سنڈی کو قرار دے رہا ہے۔

مختلف فورمز پر مذکورہ بالا باتوں اور کپاس سے مایوسی اور بد دلی پھیلانے کے پروپیگنڈے کے علاوہ کپاس کی مطلوبہ پیداوار میں ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کے لئے ایک بھی عملی کام نظر نہیں آتا مگر یہ ایک عارضی فیز ہے جو بہت جلد ختم ہو جائے گا۔

یاد رکھیے کپاس کی بربادی و ناکامی کی اصل وجہ یہاں کراپ زوننگ اور سیڈ زوننگ کے قوانین پر سختی سے عملدرآمد کا نہ ہونا ہے، ہر بیج ہر علاقے اور آب و ہوا کے موافق نہیں ہوتا۔ ایک اچھا اور معیاری بیج کو اس کی سیڈ زوننگ کے لحاظ سے ہی کاشت کرنا چاہیے تاکہ وہ اچھی پیداوار دے سکے، مگر ہمارے بریڈرز حضرات چند پیسوں کے لالچ میں ہر بیج کو ہر علاقے کے کاشت کار کو فروخت کر دیتے ہیں اور جب اس اچھے بیج سے اچھی پیداوار نہیں آتی تو کسان بیج کو غیر معیاری اور ناقص جعلی قرار دے دیتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے ایک ہی قسم کا بیج اچھے و موافق علاقہ و آب و ہوا میں بہترین پیداوار دیتا ہے جبکہ وہی بیج ناموافق علاقے اور آب و ہوا میں بہت تھوڑی پیداوار دیتا ہے ، اس لئے بیج کی زوننگ کا انتخاب بہت ضروری ہے۔

جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کپاس ایک صحرائی پودا ہے اور جہاں یہ کاشت ہوتا ہے ، اس کے ارد گرد اطراف میں اگر آبی فصلات گنا، چاول، مکئی اور دیگر فصلات کاشت کی جائیں تو ان آبی فصلات کی وجہ سے اس علاقے میں نمی بڑھ جاتی ہے جس کے باعث کپاس کی فصل پر کیڑے مکوڑوں کا حملہ بڑھ جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے سفید مکھی میں زرعی زہروں کے خلاف مزاحمت بڑھ گئی ہے مگر کاشت کار سمجھتا ہے کہ زہریں جعلی ہیں حالانکہ زہریں جعلی نہیں بلکہ کاٹن زون میں آبی فصلات کی وجہ سے پیسٹ پریشر بڑھ جانے سے اور ان کے خلاف بار بارسپرے کے استعمال سے زہریں بے اثر ہو کر رہ گئی ہی۔

اگر کراپ زوننگ صحیح معنوں میں کی جائے تو اچھی پیداوار حاصل ہو سکتی ہے اور سفید مکھی کے خلاف زہریں بھی اچھا رزلٹ دے سکتی ہیں، اسی وجہ سے ماہرین کافی سالوں سے کراپ زوننگ اور سیڈ زوننگ کا پرزور مطالبہ کرتے آئے ہیں، امید ہے یہ بات کسان بھائیوں کو سمجھ آ گئی ہو گی۔ مگر افسوس کہ کراپ زوننگ کے قوانین تو موجود ہیں لیکن اس پرعمل درآمد میں ایک طاقتور مافیا رکاوٹ ہے جو کاٹن زون میں گنے کی کاشت کا حامی ہے اور کاٹن زون میں شوگر ملوں کے قیام پر پابندی کے باوجود ملیں لگائے جا رہا ہے۔

کاٹن زون میں آبی فصلات کے آ جانے سے نہ صرف کپاس کا بہت سا رقبہ کم ہوا ہے بلکہ اس کی پیداوار میں نمایاں کمی آئی ہے۔ اس وقت کپاس کے خلاف ایک مخصوص لابی کپاس کے ریسرچ اداروں کو خاص ٹارگٹ کر رہی ہے تاکہ کسانوں کا اعتماد ان اداروں سے اٹھ جائے تاکہ کسانوں کو اچھا سیڈ دستیاب نہ ہونے کا پروپیگنڈا کر کے کپاس کے کاشت کاروں کو مایوس اور بد دل کر دیا جائے اور وہ کاٹن زون میں اپنی مرضی کی فصلات لگا سکیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بیج کی کوالٹی سے متعلق ایشوز موجود ہیں لیکن یہ اتنا بڑا ایشو نہیں جتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ سیزن میں کچھ کپاس کے کاشتکار ایسے بھی ہیں جنہوں نے انہی ریسرچ اداروں کے بیجوں کے ساتھ بہت اچھی پیداوار لی ہے اور بہت سے کسان اچھی پیداوار لینے میں ناکام بھی ہوئے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمیں اس وقت نئی جین ٹیکنالوجی کی بھی ضرورت ہے جو ہماری مقامی کپاس کی اقسام میں استعمال ہو کر مزید اچھی پیداوار دے سکے ، یہ کام حکومتی سطح پر ہونے کا ہے ، کسی ریسرچ ادارے کا نہیں۔

کپاس کی اچھی پیداوار لینے کے لئے اس کی کاشت سے پہلے زمین کا تجزیہ نہایت ضروری ہے تاکہ زمین کی ساخت کو مدنظر رکھتے ہوئے اچھے کاشت کاری امور انجام دیے جا سکیں۔ ایک اور بات کرتا چلوں کپاس کے ریسرچ اداروں کے پاس محدود مقدار میں سیڈ موجود ہوتا ہے مگر باہر اس ادارے کے نام پر ہزاروں لوگوں کو لاکھوں ایکڑ کا ناقص اور جعلی سیڈ بیچا جا رہا ہوتا ہے جس سے نہ صرف ادارے کی مفت میں بدنامی ہوتی ہے بلکہ کاشت کار کا ادارے پر اعتماد بھی اٹھ جاتا ہے ، اس لئے کاشتکار ہمیشہ با اعتماد افراد سے یا ادارے سے خود جا کر صرف منظورشدہ اقسام ہی خریدیں اور کاشت کریں۔

کپاس کی منظورشدہ اقسام کی بجائے کپاس کی نئی لائنوں کی کاشت کی وجہ سے بھی کپاس کی پیداوار کا ستیاناس ہوا ہے اور اس جرم میں سیڈ مافیا تو ذمہ دار ہے ہی لیکن اس میں وہ کسان بھی ذمہ دار ہے جو لالچ میں آ کر سیڈ مافیا کا حصہ بن جاتے ہیں۔ کپاس کی ناکامی کی ایک وجہ مل مالکان بھی ہیں ، مل مالکان ایک طرف تو کاٹن امپورٹ کر کے ملکی کپاس کا نقصان کر رہے ہیں اور دوسری طرف ریسرچ اداروں کے کئی سالوں سے اڑھائی ارب روپے ہڑپ کیے بیٹھے ہیں ، جس سے ریسرچ اداروں میں تحقیقی کام جمود کا شکار ہو کر رہ گیا ہے۔

اس سے بڑا المیہ کیا ہو سکتا ہے ہے کہ پوری دنیا میں زرعی تحقیق پر اربوں ڈالرز خرچ کیے جا رہے ہیں اور پاکستان میں تحقیقاتی اداروں کے زرعی سائنسدان گزشتہ چھ ماہ سے تنخواہوں اور پینشنز تک سے محروم ہیں۔ چولہے پر رکھا ہوا گرم سرخ توا پانی کے چھینٹوں سے اس وقت تک ٹھنڈا نہیں ہو گا جب تک چولہے کے نیچے جلتی آگ کو نہ بجھایا جائے۔ اسی طرح آپ کپاس کے مسائل کے جتنے بھی حل ڈھونڈتے رہیں ، یہ اس وقت تک بارآور ثابت نہ ہوں گے جب تک کپاس کے تحقیقی اداروں اور ان میں کام کرنے والے محققین کے بنیادی مسائل کا حل تلاش نہیں کیا جاتا۔

افسوس تو اس بات کا ہے ریسرچ پر ایک روپیہ تک خرچ نہیں کیا جا رہا ہے مگر نتائج اعلیٰ معیار کے مانگے جا رہے ہیں، حیرت ہے۔ کوئی ایک بندہ بھی یہ بات نہیں کر رہا ہے کہ ریسرچ اداروں کے فنڈز کو بحال کیا جائے اور زرعی ماہرین کو تنخواہیں دی جائیں مگر سب ادھر ادھر کی زبانی جمع خرچ میں مصروف ہیں۔

کپاس کی بحالی و ترقی کے لئے اس وقت ارباب اختیار کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر کپاس کی امدادی قیمت کم از کم 5500 روپے فی من مقرر کرے، کراپ زوننگ قوانین پر سختی سے عمل کروائے، کاٹن زون میں آبی فصلات کی کاشت کو رکوائے، شوگر ملوں کو کاٹن زون سے نکالا جائے، نئی سیڈ/ جین ٹیکنالوجی کے لئے غیرملکی معروف کمپنیوں سے فوری طور پر معاہدہ کر کے انہیں ریسرچ اداروں کو مہیا کیا جائے تاکہ تحقیقاتی ادارے جین ٹیکنالوجی کو اپنی تیار کردہ مقامی اقسام کے ساتھ استعمال میں لا کر کاشت کاروں کو بہتر سے بہتر اقسام مہیا کر سکیں۔

ایسا بالکل نہیں ہے کہ ہماری موجودہ کپاس کی اقسام میں پیداواری پوٹینشل نہیں ہے یا یہ اقسام پیداواری صلاحیت کھو بیٹھی ہیں۔ ایسی ہرگز کوئی بات نہیں ہے۔ یہ محض کپاس اور ریسرچ اداروں کو بدنام کرنے کے لئے مافیا کا ایک پروپیگنڈا ہے۔ اگر ارباب اختیار صرف کراپ زوننگ اور سیڈ زوننگ پر ہی ٹھیک نیت کے ساتھ مکمل عمل درآمد کروا دیں تو موجودہ حالات میں بھی ہم بمپر کراپ حاصل کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments