کسان موومنٹ


چیف منسٹر کا پی اے شرما بہت دیر سے ان کی خواب گاہ کے باہر ٹہل رہا تھا مگر گیارہ بجنے کو آئے تھے وہ اب تک سو کر نہ اٹھے تھے۔

مجبوراً پی اے شرما نے ان کا دروازہ کھٹکھٹایا اور انہیں اٹھایا، اٹھتے ہی ہمیشہ کی طرح انہیں سب سے پہلے تازہ سنگتروں کا جوس پیش کیا گیا اور  تین انڈوں کا آملیٹ، خستہ تازہ تیار ہوئی ڈبل روٹی کا ناشتہ کروایا گیا۔ ناشتے کے فوراً بعد انہیں خالص دودھ سے بنی ملا ئی والی چا ئے پینے کی عادت تھی وہ دی گئی۔

سب چیزوں سے فارغ ہو کر وہ پہلی دفعہ سی ایم پی اے کی طرف متوجہ ہوئے اور اکتاہٹ سے پوچھا شرما کیا افتاد آن پڑی تھی جو صبح صبح مجھے پریشان کرنا شروع کر دیا؟

پی اے شرما کے چہرے پر کھسیانی مسکراہٹ پھیل گئی اور وہ شرمندگی سے بولا سر وہ جو وہ لوگ ہیں ناں۔۔۔ سر جو بہت دن سے۔

کیا بڑ بڑ کر رہے ہو۔ کون لوگ؟
مکھ منتری نے درمیان میں ہی ٹوکا
سر وہ جو بہت دن سے دھرنا دیے بیٹھے ہیں سر ان میں وہ جو ایک تھا ناں۔
کرتار سنگھ۔
ابے کیا وہ وہ وہ لوگ کی تکرار کر رہے ہو۔ کون کرتار سنگھ؟
مکھ منتری نے پھر غصے سے پی اے کو ٹوکا
سر وہ جو لوگ تھے بھوک ہڑتال دھر نے والے، ان میں سے دو بھوک ہڑتال کرنے سے کل رات مر گئے۔
کرتار سنگھ اور بھشن لال۔
تو اس میں میں کیا کروں؟
مم میرا کیا قصور ہے؟
مکھ منتری نے ٹیبل پر پڑے سنگ مر مر کے سیب کو زور سے لٹو کی طرح تیزی گھماتے ہوئے خفت سے کہا۔
لیکن سر وہ۔
پھر وہ وہ وہ شروع کر دی تم نے۔
صبح صبح میرا موڈ خراب نہیں کرو

جاؤ ابھی، آج مجھے کچھ دیر میں گالف کی لیے بھی نکلنا ہے ڈرائیور سے کہو میرا گالف کا سامان سب تیار کرے۔

جی سر،  پی اے بولا اور جلدی سے باہر نکلنے لگا۔

اور ہاں باورچی موتی لال مہاراج سے کہو کہ آج دو بجے ہم بھوجن کریں گے لنچ میں، تازہ سرسوں کا ساگ اور تازہ مکئی کے آٹے کی رو ٹیاں بنوائے اور ہاں بھنڈی اور کر یلے کی ترکاری بھی ضرور بنائے مگر صرف ناریل کے اصلی تیل میں،  آج میرا ایک پرانا دوست جج گپتا بھی ساتھ لنچ کرے گا ۔ دو بجے تک سب تیار رہے سب۔

جی سر مگر سر آپ پچھلے گیٹ سے باہر نکلیے گا، وہ سب کسان دو لاشیں لیے مین گیٹ کے باہر پہنچ چکے ہیں۔
ہیں۔ کیا بکواس کر رہے ہو تم
یہ راتوں رات کیسے یہاں پہنچ گئے؟
راتوں رات نہیں سر! صبح آٹھ بجے آ گئے تھے سب لوگ اب تو ساڑ ھے گیارہ بج رہے ہیں سر!
اسی لیے میں صبح سے آپ کے کمرے کے باہر آپ کے اٹھنے کا انتظار کر رہا تھا۔
پی اے شرما نے ڈر تے ڈر تے کہا
ذرا ایس پی کو کال کرو
ابھی فوراً
بلکہ رہنے دو اس جاہل کو آئی جی سے ہی بات کرواؤ۔
زندگی نرک بنا دی ان مورکھوں نے۔

صبح صبح دن خراب کر دیا تم لوگوں  نے میرا، اوپر سے کل رات گئے غزلوں کے پروگرام میں دیر ہو گئی، نیند بھی پوری نہیں ہوئی میری، جسم اب تک تھکا ہوا ہے۔

سر آئی جی صاحب لائن پر ہیں، بات کریں۔
ہاں فون دو
ہیلو ہاں جوگندر یہ سب کیا ہو رہا ہے بھئی؟
یہ کیا چک چک ہے یار؟

سر صورت حال آپ کے سامنے ہی ہے، میں نے تو پردھان منتری سے ملاقات کے دوران آپ کو بھی اور انہیں بھی بتا دیا تھا کہ حالات کافی گمبھیر ہوتے جا رہے ہیں، کسان برادری بہت واویلا کر رہی ہے ہر ماہ خود کشیاں بڑھ رہی ہیں اگر انہیں کنٹرول نہ کیا تو سرحد پار کا دشمن ملک اس کا فائدہ اٹھائے گا اور ان مورکھوں کو ساتھ ملا کر ہمیں ٹف ٹائم دے گا، مگر آپ کو یاد ہو گا پی ایم نے ہنستے ہوئے کہا تھا سرحد پار والوں کا پہلے ہی سب کام ٹھپ پڑا ہے، ان کا اپنا بیڑہ غرق ہے اور ویسے بھی ان کی اتنی پسلی ہی نہیں کہ ہم سے ٹکر لیں۔آئی جی نے کہا

لیکن جوگندر کیا تمھیں اب بھی لگتا ہے کے یہ گیم باہر سے کنٹرول ہو رہی ہے؟
مکھ منتری دوبے نے منہ میں ٹوتھ پک گھسا کر کہا
سر کرنٹ صورت تو اب انٹیلجنس والے ہی بتا سکتے ہیں، میں گردھاری سے بات کرتا ہوں۔
آئی جی جوگندر بولا

اچھا ٹھیک ہے ٹھیک ہے دیکھا جائے گا لیکن جوگندر فی الحال تم ذرا اپنے کاہل ایس پی کو کہو وہ ان جاہلوں پر آنسو گیس اور تھوڑا لاٹھی چارج وغیرہ کرے تاکہ میں باہر آ جا تو سکوں۔

بلکہ تیز دھار پانی پھینکو فائر بریگیڈ والوں کو بول کے تاکہ ان گنواروں کے چودہ طبق روشن ہوں۔
جی سر جی سر میں کہتا ہوں آپ بالکل فکر نہ کریں سر۔

اور ہاں جوگندر رکو، یاد آیا پچھلے سال جو باسمتی چاول تم نے بھیجے تھے وہی اعلیٰ قسم کے سیم دوبارہ بیس پچیس بوری بجھوا دو، پھر آج کل مہمان داری، ظہرا نے، عصرا نے، عشایے بہت زیادہ کرنے پڑ رہے ہیں ہمیں۔ اپنی اس ٹینیور میں کلچر کو پروموٹ کرنے کا بیڑہ بھی میں نے اٹھا رکھا ہے، چاہتا ہوں ہماری ثقافت پھلے پھولے۔

جی سر! ہو جائے گا ۔ کوئی مسئلہ نہیں، اسی ہفتے پہنچ جا ئیں گے سر سیم چاول۔
تھینکس جوگندر
مینشن ناٹ سر!

سر وہ۔ میرے تبادلے والی فائل کا ذرا دیکھ لیجیے گا۔ میں یہیں آپ کی چھتر چھایہ میں ہی کام کرنا چا ہتا ہوں سر۔

آئی جی جوگندر نے خو شامدانہ لہجے میں کہا
ہاں ہاں فکر نہیں کرو، میں سب سنبھال لوں گا۔
تھینکس یو ویری مچ سر!
سو نائس آف یو!

مکھ منتری دوبے اٹس اوکے کہہ کر لائن کاٹ دیتا ہے سامنے پڑے ڈرائی فروٹ کی ایک مٹھی ہاتھ میں پکڑ کر ایک ایک دانہ چبا نے لگتا ہے۔

شرما یہ پکڑو فون
مکھ منتری دوبے نے شرما کو فون تھمایا
پی اے شرما بھاگ کر فون پکڑتا ہے

آدھ گھنٹہ خراب کر دیا میرا، آج کی میری گالف کے سارے پروگرام کا ستیا ناس کر دیا۔ لگتا ہے شوگر بھی ڈاؤن ہو رہی ہے میری۔

شرما فریش جوس دو مجھے ذرا
جی سر جی سر!
سر تازہ گنے کا جوس پلاؤں آپ کو؟
پی اے شرما نے مکھ منتری کا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے کہا
ہاں لاؤ اور تھوڑی تازہ بیریز اور فریش انگور بھی لاؤ تاکہ میری توانائی واپس آ سکے۔
جی سر! ابھی منگواتا ہوں سر۔ ابھی فوراً منگواتا ہوں۔ ایک منٹ میں ابھی سب آتا ہے۔
دیال، پردیپ، موتی لال مہاراج، شیوانی علی کہاں مر گئے سب؟
پی اے شرما نے سب ملازموں کو آوازیں دینی شروع کیں۔

سارے ملازم ملزموں کی طرح لائن بنا کر ایک جگہ اکٹھے ہو گئے، پی اے شرما نے سب کو ڈانٹا اور کہا کہ صاحب کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، ان کے دوست جج گپتا جی بھی دو بجے لنچ کے لیے آ رہے ہیں، تازہ مکئی کی روٹیاں اور تازہ سرسوں کا ساگ بنانا ہے اور کریلے اور تازہ توڑی ہوئی بھنڈی کی ترکاری بھی بنانی ہے۔

جی شرما جی سب سامان تازہ فریش سبزیاں ساگ مچھی مرغ گوشت منگوا نے کے لیے جگدیپ صبح سویرے ہی جا چکا ہے اور ہم دل لگا کر بھوجن تیار کریں گے، کلدیپ جی کی پسند کا اصلی گھی میں۔

لیکن کلدیپ جی تو نہیں آ رہے۔ گپتا جی بولا ہے میں نے۔ گپتا جی۔ کان بند ہیں کیا تم لوگوں کے ؟
کان کھول کر سن لو انہیں صرف اصلی ناریل کے تیل میں پکا ویگن بھوجن پسند ہے۔

اور ماس مچھی گوشت انڈہ ونڈہ کچھ نہیں لیتے وہ، پرنتو اپنے صاحب کو ڈنر میں یہ سب دے دینا۔ ان کا ٹوٹل ویج بوجھن ہو نان ویج کوئی چیز ٹیبل پر نہیں پروسنی۔

کوئی غلطی نہیں چاہیے آج!
ٹھیک ہے شرما جی میں سمجھ گئی شیوانی نے یک دم درمیان میں ہی جلدی سے کہا۔
اچھا ٹھیک ہے ٹھیک ہے، جلدی سب کام پر جاؤ بس اب۔

اس دوران باہر ہلا، ہو ہا و ہو کی اونچی اونچی آ وازیں پھر سنائی دینے لگتی ہیں۔ کوئی کسان سپیکر پر تقریر کر رہا تھا۔

اس ملک میں اگر ہم زمین میں ہل نہ جوتیں، بیجائی نہ کریں تو اس ملک کے محلوں میں رہنے والے سب امراء بھوکے مر جائیں۔ تب انہیں پتہ لگے گا کھیتی باڑی کے بغیر یہ دیش دس دن بھی نہیں چل سکتا، صرف کمپیوٹر پروگرام بیچ بیچ کر اپنے بچوں کو برگر کتنے دن کھلا لو گے؟ اناج تو ہم اگاتے ہیں ہم۔ ہم

مجمع میں پھر شور و غوغا نعرے بازی شروع ہو گئی۔

مکھ منتری نے گنے کے جوس کا ایک گھونٹ پی کر ہنستے ہوئے کہا سن رہے ہو شرما! ان مورکھوں اجڈوں کی باتیں بندہ پوچھے جاہلو بے وقوفو! اندھو مر تو تم خود رہے ہو اس ملک سے غدار ری کر کے دشمن ملک کی کٹھ پتلی بن کرخود بھوک کاٹ رہے ہو، آئے دن خودکشیاں کرتے ہو کام چورو اور قصور دوسروں کو دے رہے ہو۔

جاہل مورکھ بے وقوف دیش دروہی کہیں کے۔
مکھ منتری نے بلغم تھوک کر کہا

پی اے شرما مکھ منتری کی طرف دیکھتے ہوئے زبردستی اپنے پورے دانت نکال کر زور سے ہنسا اور بولا بالکل ٹھیک بات کی سر آپ نے سولہ آنے ٹھیک بات ہے آپ کی۔

بس سر کیا کریں، تعلیم کی کمی ہے بہت ہمارے ملک کے اس حصے میں سر ورنہ اگر ان جاہلوں میں عقل ہوتی تو کھیتوں میں کام کرتے اور اپنے اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالنے کی فکر کرتے نہ کہ یہاں بیٹھ کر بھوک ہڑتال کی ایکٹنگ۔

ایکٹنگ؟
مکھ منتری دوبے  نے ایک انگور منہ میں ڈالتے ہوئے حیرت سے کہا۔
جی ہاں سر جی ہاں!
پی اے شرما جھٹ سے بولا

مجھے ایک اندر کے بندے سے پتہ لگا وہ جو دو کسان بھوک سے مرے ہیں ناں سر، وہ پہلے سے ہی بیمار تھے سر، بلکہ ان میں سے ایک انوپم تو بیماری سے تنگ آ کر ایک بار خودکشی کی بھی کوشش کر چکا تھا سر۔ وہ تو رسی ٹوٹ گئی اور وہ سالہ بچ گیا۔

سر میں نے یہ بات ان سب رپورٹرز کو بتا دی ہے جن کو آپ کی طرف سے ماہانہ خرچ ملتا ہے۔ سب کل اس جھوٹ کا پردہ فاش کر دیں گے کہ یہ کسان کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں دشمن دیش کی اور ان کو کوئی ایسا ویسا مسئلہ نہیں ہے سر، سب بھلا چنگا ہے اور وہ دونوں بندے بھی بھوک سے نہیں طبعی موت مرے ہیں اپنی

پی اے شرما نے رازدارانہ لہجے میں مکھ منتری کو بتایا۔
ہمم ہوں ہممم
تو یہ ڈرامے چل رہے ہیں
گڈ گڈ شرما! ٹھیک کیا تم نے بالکل ٹھیک ہے۔ گڈ ویری گڈ

ان دیش دروہوں، ان اپنی دھرتی کے دشمن جاہلوں مورکھوں سے ایسی ہی توقع کی جا سکتی ہے کہ طبعی موت مرے ہوں کو بھی شہید بنا لیں۔

پی اے شرما پھر دونوں باچھیں کھول کر زبر دستی دانت نکال کر ہنسنے کی کوشش کرنے لگا۔
اس دوران پھر لاؤڈ سپیکر سے ایک نئی تقریر شروع ہوئی

بھائیو جاگو اور آج سے وچن لو، جب تک ہمارے جائز مطالبات پورے نہیں ہوتے نہ ہم ان منتریوں کی شوگر ملوں کو اپنا محنت سے اگایا گنا دیں گے نہ ان کی آ ٹے کی ملوں کو گندم نہ کپڑے کی فیکٹریوں میں کپاس اور نہ ان آڑھتیوں کی سبزی منڈی میں کوئی تازہ سبزی اور نہ ہی کوئی پھل اتارا جائے گا۔

منتری جی نے پی اے شرما کی طرف دیکھا اور زور سے قہقہہ لگایا سنا شرما تم نے۔ مجھے یہ رنویر کی آواز لگ رہی ہے وہی ہے ناں یہ جو پچھلے سال اپنی سائیکل پر میری پرا ڈو کے نیچے آتے آتے بچا تھا، وہی جاہل ہے ناں یہ؟

کتنے دن یہ مہاشہ میرے پاس نوکری دے دیں بولنے آتا رہا مگر کون ان ان پڑھو ں کو کام دے سکتا ہے، نقل کر کے پاس ہو جاتے ہیں بس۔

مکھ منتری نے کان میں انگلی ڈال کر زور سے گھماتے ہوئے کہا۔

جی ہاں سر! مجھے بھی یہ وہی لگ رہا ہے جب سے اس کے باپ نے حالات سے تنگ آ کر خود کشی کی ہے ناں سر اس کی ذہنی حالات ٹھیک نہیں ہے سر، بالکل جھلا سا ہو گیا سر، پاگل ہے سر پاگل، دفعہ کریں اس کو سر۔

ہاں شرما بندہ پوچھے ان مورکھو ں سے اگر یہ فصل نہیں اگائیں گے تو خود کیا ان کے لیے من و سلویٰ اترے گا سورگ سے۔

ان پاگلوں کو یہ بھی نہیں پتہ جتنی گندم یہ سال میں پیدا کرتے ہیں اتنی تو امیر ملک ہر چھ ماہ بعد سمندر میں پھینک دیتے ہیں۔

ہم اُن سے امداد میں لے لیں گے، اگر یہ نہیں اگائیں گے ۔چاول باسمتی تو اور کہیں سے لے لیں گے،  برابر ملک سے سمگل کا چاول بھی آ سکتا ہے اور نہ بھی کھایا تو کیا ۔ دوسرے چاول باہر سے منگا لیں گے۔

مجھے تو جاپانی چاول بہت پسند ہیں، پچھلی دفعہ ٹوکیو گیا تو کھائے تھے۔

کپاس بھی دوسرے ملکوں میں ٹکہ ٹوکری ملتی ہے، کوئی محتاجی تھوڑی ہے ہمیں ان کی، دوسرے صوبے کے کسان تو ان کی طرح پاگل نہیں ہیں۔

ویسے بھی آج کل ٹیکنالو جی کا دور ہے۔
ٹیکنالوجی کا!
جی بالکل سر سولہ آنے ٹھیک بات کی سر آپ نے۔

سر کیا خیال ہے بہتر نہیں ہو گا آپ آج گالف کی بجائے ایک دو گھنٹے آرام کر لیں، جب گپتا جی آ ئیں گے تو میں آپ کو اٹھا دوں گا سر۔

شرما نے مؤدبا نہ انداز میں بات کا رخ موڑ تے ہوئے کہا

ہاں ٹھیک ہے شرما میں تھوڑا آرام کرتا ہوں،رات شراب زیادہ پی لی تھی، تھکاوٹ بھی ٹھیک سے نہیں اتری ۔ مجھے ایک بجے تک اٹھا دینا۔ اور ہاں اگر آئی جی کی کال آئے تو اسے کہنا کے ایک بجے تک گیٹ کلیئر دکھائی دے تاکہ گپتا جی کو کوئی پریشانی نہ ہو۔

ٹھیک ہے سر آپ بالکل فکر نہ کریں میں سب سنبھال لوں گا سر۔
آپ ریسٹ کریں سر ریسٹ۔
میں سب دیکھتا ہوں
مکھ منتری دوبے اپنی آرام گاہ کی طرف چل پڑ تے ہیں۔
اتنے میں شیوانی بوکھلائی ہوئی پی اے شرما کے پاس آتی ہے

شرما جی جگدیب کی کال آئی ہے وہ مین گیٹ سے اندر داخل نہیں ہو پا رہا ہے، باہر کسانوں نے اس سے سارا سامان لے کر اسے بھگا دیا ہے۔

ہیں کیا بک رہی ہو
اس کے ساتھ تو گارڈ ہوتے ہیں ہمیشہ
شرما جی وہ بتا رہا ہے کسانوں نے گارڈز کو بھی بھگا دیا ہے۔ وہ بہت زیادہ ہیں

گپتا جی نے دو بجے تک آنا ہے تب تک بھوجن تیار رکھنا تھا سر! مگر نہ تازہ ساگ ہے نہ تازہ چھلیاں بھٹے ہیں رسوئی میں۔ میں کیا کروں سر؟

شوانی نے پریشان لہجے میں پے اے شرما سے کہا۔
شرما نے بوکھلائی ہوئی آواز میں کہا
میں ابھی منحوس ایس پی کو کال کرتا ہوں
شرما کال ملاتا ہے۔

ہیلو مکیش جی میں شرما بول رہا ہوں مکھ منتری جی کا پی اے ۔۔۔ بھئی! مین گیٹ تو کلیئر کرو گپتا جی نے آ نا ہے ملنے مکھ منتری جی سے دو بجے لنچ پر۔ آئی جی صاحب نے بتایا ہو گا؟

مکیش: شرما جی ہم سے جو بن پڑ رہا ہے اس کا پریوگ کر رہے ہیں مگر ابھی تک کسان ہماری بات سننے کو تیار ہی نہیں۔ آئی جی صاحب اور جنرل پرشاد نے گرو سوامی رام داس جی کو ان اجڈوں سے مذا کرات کے لیے بھیجا ہے، وہ آشرم سے نکل چکے ہیں کچھ دیر میں پہنچنے ہی والے ہیں ۔ امید ہے سوامی جی کی ودیا کا پالن کریں گے اور گیٹ کلیئر کر دیں گے۔ مگر تھوڑا ٹائم لگے گا آپ تھوڑا شانت رہیں۔ ہمیں اپنا کرتب کرنے دیں۔

اچھا ٹھیک ہے ٹھیک ہے ہم شانت ہی ہیں ہمیں کیا ہوا ہے شرما نے تھوک نگلتے ہوئے کہا۔
اتنے میں رسویا مہاراج اندر آتا ہے
شرما جی نمستے
شرما جی ہم سے اب اور نہیں ہو پائے گا
کیا نہیں ہو پائے گا مہاراج؟
نہ سبجی ہے نہ دال نہ چھلی بھٹہ، اب آپ ہی بتائیں کہاں سے بنائیں شد بھوجن۔

رام رام رام یہ ساری نحوست ماس مچھی کے کارن ہے، اسی لیے ہم نے علی کو صاف بول دیا آج رسوئی میں پاؤں نہیں ڈالنے کا، آج عرصے بعد شد بھوجن بننا تھا مگر آج جب اتنے عرصے بعد گپتا جی کے لیے شد بھوجن بنانے کا تھا تو سامان بھی تو ایک دو دن پہلے منگانے کا تھا ناں۔

سب گڑ بڑ گوٹالہ ہو گیا ہے ۔

دو بجنے کو ہیں مگر نہ تاجہ ساگ ہے نہ بھٹے، اب ہم کیا بنا پائیں گے شد بھوجن بغیر شد تاجہ سامان کے۔

مہاراج نے روہانسی آواز میں کہا
اچھا اچھا ٹھیک ہے مہا راج آپ جو بن سکتا ہے وہ بنا دو بجے تک۔
مجھے اور بھی بہت کچھ کرنا ہے
مہاراج رونی شکل بنائے چندیا کھجاتا رسوئی کی طرف چل نکلتا ہے۔
رسوئی کے فریزر میں زمانوں سے پڑے فروزن مکئی کے دانے نکالتا ہے اور پانی میں بھگو دیتا ہے۔

پاس ہی ایک فروزن الو کا پیکٹ پڑا ہوتا ہے جس کی معیاد بھی کب کی گزر چکی ہوتی ہے اور آلو کے قتلوں کی رنگت بھی کالی ہو چکی ہوتی ہے، انہیں پانی میں بھگو دیتا ہے۔

اس دوران دو بج جاتے ہیں اور پی اے شرما مکھ منتری جی کو اٹھا دیتا ہے۔
اٹھتے ہی وہ پو چھتے ہیں گپتا جی آ گئے؟

نہیں سر باہر ابھی حالات ٹھیک نہیں، سوامی جی کسانوں کو مات دینے کے لیے باہر آ چکے ہیں کچھ دیر میں گیٹ کی جگہ خالی ہو گی تو ہی کوئی اندر باہر آ جا سکے گا۔

اس دوران پھر ایک بندہ لاؤڈ سپیکر پر تقریر شروع کرتا ہے بھائیو! کیوں نہ ہم مکھ منتری دوبے جی کے راج دھون کا گیٹ توڑ کر اندر جائیں اور دیکھیں کہ ان کے رسوئی گھر میں کون کون سی ایسی خورا ک اور بھوجن ہے جو ہماری محنت اور ہاتھوں کے بل بوتے پر اگائی گئی ہے ۔ کیوں نہ وہ سب خورا ک ہم وہاں سے چھین کر اپنے قبضے میں کریں تاکہ انہیں پتہ لگے سمارٹ فونوں اور کمپیوٹروں سے پیٹ کی آگ نہیں بجھتی۔ کیا خیال ہے بھائیو؟

مکھ منتر ی دوبے اور پی اے شرما کے ماتھے پر پہلی دفعہ پسینے کی قطرے نمو دار ہوئے۔
شرما فون دینا ذرا، ایس پی جاہل ابھی تک آیا کیوں نہیں، ذرا آئی جی کو کال کرو۔ جلدی کرو۔ ابھی فوراً!
یہ لیں سر آئی جی صاحب لا ین پر ہیں

ہیلو جوگندر ابھی تک کوئی آیا نہیں، یہ جاہل تو اندر آنے کے پر تول رہے ہیں۔ یہ تم لوگ کیا کر رہے ہو،  گرو سوامی جی کہاں ہیں؟

سر باہر حالات بہت خراب ہیں، آپ کہیں محفوظ کمرے میں رہیں دو کلومیٹر تک سب کسان ہی کسان ہیں پولیس سب بے بس ہے، ہم آپ کے دروازے تک کم سے کم بھی تین گھنٹے سے پہلے تک نہیں پہنچ سکتے، گرو سوامی جی ان مورکھوں کو سمجھا رہے ہیں مگر ان کو شاید گولی کی زبان ہی سمجھ آتی ہے۔

ہیں یہ کیا کہہ رہے ہو تم جوگندر؟

سوری سر میں نے جنرل پرشاد کو بھی ہیلپ کے لیے بول دیا ہے، وہ دو گھنٹے میں ہیلی کاپٹر پر کسی کو آپ کی مدد کے لیے بھیج رہے ہیں۔ مجمع بہت زیادہ غصے میں ہے سر،  انہیں روکنا آسان نہیں ہو گا سر۔

سر آپ اپنی سیفٹی پر فوکس کریں سر۔
جوگندر آئی جی نے ہانپتے ہوئے کہا
ہیں یہ یکا یک کیا ہو رہا ہے کل تک تو سب نارمل تھا۔ یہ کیا بکواس ہے۔
مکھ منتری نے کپکپاتی آواز میں پوچھا۔

جی سر بس آج صبح پانچ بجے سے یہ سب نہ جانے کیسے ریڈ ایریا کراس کر کے آگے آپ کے راج دھون تک پہنچ گئے،اب انہیں پیچھے دھکیلنے کے لیے فوج ہی کچھ کرے تو کرے، ہمارے بس میں اب کچھ نہیں رہا سر۔ کچھ بھی نہیں۔

آواز نہیں آ رہی آپ کی سر ہیلو ہیلو ہیلو
جوگندر جوگندر جوگندر۔۔۔۔ لائن ڈرا پ ہو جاتی ہے۔

شرما مجھے جلدی سے میرے کمرے میں کہیں چھپا دو اگر یہ اجڈ سب اندر آ گئے تو ہم سب کی خیر نہیں۔ جلدی چلو۔

سر آپ فکر نہیں کریں میں نے تینوں گارڈز کو کہہ دیا ہے، وہ اپنی سیون ایم ایم بندوقیں تیل دے کر لوڈ کر کے رکھیں۔ اگر کوئی گیٹ کراس کرنے کی کوشش کرے تو فائر کھول دیں۔

شرما ان کی پرانی گھوڑے والی بندوقیں پندرہ سال پرانی زنگ آلود صرف ڈرا نے والی ہیں بس، ان سے کچھ نہیں رکنے والا تم بس مجھے کہیں چھپاؤ جلدی۔

اندر چلو بس۔

پی اے شرما کو اپنی بھی فکر لگ جاتی ہے اور ہنسی ونسی سب رفو چکر ہو کر اس کی جگہ ہوائیاں چہرے پر نمودار ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔

پی اے شرما مکھ منتری دوبے کو ایک کمرے کی الماری میں چھپا کر خود مالی کے حلیے میں باغ کو پانی دینے لگتا ہے۔

تھوڑی دیر میں آئی جی کی کال آتی ہے کہ کسانوں سے مذاکرات کا میاب ہو گئے ہیں، سوا می جی کا لالی پاپ اپنا کام کر گیا۔سارے بے وقوف واپس اپنے اپنے گاؤں کی طرف جا رہے ہیں۔

پاگل سمجھ رہے ہیں ساری مانگیں پوری ہو گئیں۔

شرما فوراً یہ خوش خبری مکھ منتری جی کو سنانے کے لیے ان کی آرام گاہ میں گھستا ہے، مکھ منتری جی ایک الماری میں دبکے بیٹھے ہوتے ہیں۔

سر آپ کہاں ہیں
سر خطرہ ٹل گیا سر
کسانوں کو بھگا دیا سر ہمارے جوانوں نے سب کو بھگا دیا سر باہر نکل آئیں سر۔
مکھ منتری دوبے ڈرتا ڈرتا الماری سے باہر نکلتا ہے
ہکلائی زبان کے ساتھ کہتا ہے
یہ سب بھ۔۔۔ بھگوان  کی ک ۔۔۔کرپا ہے، جیت ہمیشہ س۔۔۔ سچ کی ہی ہوتی ہے۔
جی ٹھیک کہا سر اپ نے۔
اتنے میں پتہ لگتا ہے گپتا جی پہنچ چکے ہیں۔

گپتا جی اور مکھ منتری ڈ ائیننگ ٹیبل پر بیٹھے گپ شرو ع کرتے ہیں۔ ٹیبل کے بیچ ہاتھی دانت کا بنا سیب اور انگور پڑے ہیں۔

بات چیت کا مرکز کسانوں کی حماقت، کام چوری اور جہالت ہوتی ہے۔
اتنے میں ویٹر ڈرتے ڈرتے آج کا بنا کھانا ٹیبل پر پروستا ہے جس کا پہلا لقمہ لیتے ہی گپتا جی اسے تھوک دیتے ہیں مکھ منتری گلا پھاڑ تے ہوئے آواز لگا تے ہیں یہ کیا باسی بدمزہ ترکاری آج بنائی ہے تم لوگوں نے۔

مکھ منتری شرما سے پوچھتے ہیں
جج گپتا کی طرف دیکھ کر
شما کیجیے گا گپتا جی
اور
پی اے شرما بھاگا بھاگا رسوئی کی طرف دوڑ  لگا دیتا ہے۔

سلمان بخاری، جاپان
Latest posts by سلمان بخاری، جاپان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments