نوشتۂ دیوار


روزنامہ جسارت میں شائع ہونے والی ایک خبر بنا کسی ترمیم و تحریف نقل کر رہا ہوں تاکہ ”نوشتۂ دیوار“ کا مطلب اور مفہوم قارئین کو اچھی طرح سمجھ میں آ جائے۔ شائع ہونے والی خبر کچھ یوں ہے کہ ”وزیر اعظم عمران خان خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور پہنچے جہاں انہوں نے کئی اجلاسوں کی صدارت کی۔ دورے میں ان سے خیبرپختونخوا کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی نے ملاقات کی تاہم اب اس اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی ہے۔

ذرائع کے مطابق اجلاس میں وزیردفاع پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ نوشہرہ انتخابات میں ہمارے ساتھ دھاندلی کی گئی، جتنے بیلٹ پیپرز جاری ہوئے ووٹ اس سے زیادہ نکلے۔ ان کا کہنا تھا کہ دھاندلی کے ٹھوس ثبوت ہیں اور نتیجے کے خلاف عدالت جائیں گے، ریٹرنگ افسران نے دھاندلی کروائی۔ رکن اسمبلی شوکت علی کا کہنا تھا کہ سینیٹ انتخابات کے لیے مؤثر حکمت عملی بنائی جائے، ایسا نہ ہو کہ کوئی ووٹ نہ بیچے اور اس پر غلط الزام عائد کر دیا جائے، ارکان پیسے بھی لے لیتے ہیں اور پھر جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ سینیٹ الیکشن میں پارٹی امیدواروں کو ووٹ دیں جو رکن ووٹ بیچنا چاہتا ہے تو پارٹی سے نکل جائے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم سے ملاقات میں 14 ارکان قومی اسمبلی اور 6 ارکان صوبائی اسمبلی غیرحاضر رہے۔ ذرائع نے بتایا کہ غیرحاضرارکان مختلف وجوہات اورمصروفیات کے باعث شریک نہ ہو سکے“

یہ وہ خوش قسمت سویلین حکومت ہے جس کے ساتھ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سارے ادارے تا حال ایک پیج پر نظر آ رہے ہیں حتیٰ کہ وہ ادارے جن کے اعلیٰ افسران اس سے قبل کسی بھی سویلین حکومت کے سربراہ کے سامنے اپنے سر پر کیپ بھی محض اس لئے نہیں رکھا کرتے تھے کہ کہیں انھیں سلوٹ نہ کرنا پڑ جائے ، وہ موجودہ وزیراعظم کو سلوٹ بھی کرتے نظر آ رہے ہیں، اپنے بڑے گھر میں خوش آمدید بھی کرتے ہیں حتیٰ کہ صاحب کی ذاتی رہائش گاہ کے طواف در طواف کرنے میں بھی انھیں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔

ایک ایسی حکومت جسے مرکز میں بھی اقتدار حاصل ہو، تین صوبے، بشمول خیبر پختونخوا، ایک مضبوط حکومت ہو، اس صوبے میں موجود اسی پارٹی کا ایک وزیر دفاع ”صاحب“ سے یہ شکایت کرتا نظر آئے کہ الیکشن میں ان کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے تو پھر سوال کرنے والے کیا یہ نہیں پوچھیں گے کہ آپ یہ گلہ شکوہ اپنے ہی آپ سے کیوں کر رہے ہیں۔ ایک ایسی حکومت جو اپنے ہی وزیراعظم سے یہ کہہ رہی ہو کہ صاحب بڑی دھاندلی ہو گئی ہے، ہمارے پاس دھاندلی کے ثبوت بھی موجود ہیں تو پھر یہ سوال تو بنتا ہے کہ صوبائی اور مرکزی حکومت خود کہاں کھڑی ہوئی تھی اور اب جب سانپ گزر چکا ہے تو لکیر کیوں پیٹی جا رہی ہے۔

پرویز خٹک جس حلقے میں دھاندلی کی شکایت کر رہے ہیں ، وہاں یقیناً دھاندلی ہوئی ہو گی اس لئے کہ اس حلقے میں پی ٹی آئی کا ہار جانا صوبائی حکومت کے لئے ہی نہیں، مرکزی حکومت کے لئے بھی ایک گالی سے کم نہیں لہٰذا یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ وہاں حکومتی سطح پر کسی بھی قسم کا دباؤ الیکشن کمیشن کے عملے اور ووٹر پر نہ رہا ہو۔ یہ وہ حلقہ ہے جہاں سے اپوزیشن کا جیت جانا شیر کے منہ سے نوالہ چھین لینے جیسا ہی ہے۔

قابل غور بات یہ ہے کہ اپوزیشن کی دھاندلی کو کیا اپوزیشن کو روکنا چاہیے تھا یا ہر قسم کی غیر قانونی اقدامات کو روکنا حکومت کے دائرہ اختیار میں آیا کرتا ہے۔

وزیراعظم سے فرمایا جا رہا ہے کہ سینیٹ الیکشن میں بہت ہی توجہ کی ضرورت ہے۔ مرکزی حکومت کی تشکیل ہو یا وزیراعظم اور صدر کا چناؤ، اس میں ہمیشہ اسی سیاسی پارٹی کو تخت و تاج ملتا ہے جو ایوان میں اپنی اکثریت ثابت کرنے میں کامیاب رہے۔ اب تک ہونے والے ایسے تمام چناؤ میں پی ٹی آئی اپنی اکثریت ثابت کرتی چلی آئی ہے تو کیا وجہ ہے کہ سینیٹروں کے چناؤ میں پی ٹی آئی اتنی پراعتماد کیوں نظر نہیں آ رہی جیسا آج سے 32 ماہ قبل ہر آزمائشی مرحلوں میں دکھائی دیتی رہی ہے۔

اس بات کا جواب بھی وزیراعظم کے سامنے خود ان کے وزراء ہی دیتے رہے ہیں۔ ایک وزیر باتدبیر کا فرمانا تھا کہ ممبران پیسہ بھی پکڑ لیتے ہیں اور جب ان سے پوچھا جائے تو وہ صاف مکر بھی جاتے ہیں۔ وہی حکومت جو معاملات میں لین دین کا سارا الزام اپوزیشن پر دھرتی چلی آ رہی ہے اس کا ایک وزیر اگر خود اس بات پر شکوہ سنج ہو کہ اس قسم کے الیکشن میں خود اس کی پارٹی کے افراد پیسہ بٹورنے سے باز نہیں آتے تو پھر وہ کسی چور ڈاکو کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کیسے کر سکتے ہیں۔

ضمنی الیکشن میں ایک دو نشستوں پر نہیں، ہر نشست پر حکومتی پارٹی کی بری طرح شکست اور خاص طور سے ان نشستوں پر جو ان کی جیتی ہوئی تھیں، ہار کو معمولی سمجھنا کسی بھی طور مناسب نہیں۔ ایک جانب ہر نشست پر ہار کا طوق تو دوسری جانب اپنی ہی اسمبلی کے قومی و صوبائی اسبلی کے ایک دو نہیں پورے 20 ارکان کا وزیراعظم سے ملاقات کرنا تک گوارا نہ کرنا بہت ہی واضح اشارے ہیں کہ پاؤں کے نیچے سے ریت سرکنا شروع ہو چکی ہے اور عمران خان کو سمجھ لینا چاہیے کہ سینیٹروں کے چناؤ کے لئے اب الیکشن خفیہ ہوں یا علانیہ، ارکان قومی و صوبائی اسمبلیوں کا رویہ کچھ اور کہانی سنا رہا ہے اور گمان یہی ہے کہ عمران خان کی حکومتی کار کردگی، ٹیکسوں کے سیدھے ہوتے تیر اور مہنگائی کے بے قابو جنوں نے پی ٹی آئی سے عوام کی محبتوں کو نفرتوں میں اس بری طرح بدل کر رکھ دیا ہے کہ اس کا اثر مقتدر ایوانوں میں بیٹھے نو دولتیوں کے اذہان کو بھی موجودہ حکومت کے خلاف بنا کر رکھ دیا ہے ، لہٰذا عمران خان اپوزیشن کی جان چھوڑ کر اپنے ارکان کی جانب توجہ دیں۔ ممکن ہے کہ ان کی ”خاص“ توجہ ہڈی کا کام کر جائے اور بے ہنگم شور قابو میں آ جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments