سینیٹ انتخابات سے صدارتی ریفرنس، ‘پارلیمان کا اختیار اپنے ہاتھ میں نہیں لیں گے’


پاکستان کے چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ سینیٹ انتخابات خفیہ ووٹنگ کے ذریعے ہونے چاہیئں یا نہیں اس کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی۔ اگر آئین کہتا ہے کہ یہ خفیہ ووٹنگ سے ہوں گے تو یہ معاملہ وہیں ختم ہو جاتا ہے۔

بدھ کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں سینیٹ انتخابات کے طریقۂ کار سے متعلق عدالتِ عظمیٰ کی رائے طلب کرنے کے لیے بھیجے گئے صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی۔

دورانِ سماعت جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ جو سوال ریفرنس میں پوچھے گئے ہیں اس پر ہی جواب دیں گے۔

سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت ریفرنس پر رائے دینے سے اجتناب کرے۔ عدالتی رائے سے سیاسی تنازع جنم لے سکتا ہے، لہذٰا احتیاط کی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ سے رائے تب لی جاتی ہے جب کوئی اور راستہ نہ ہو آج تک دائر ہونے والے تمام ریفرنسز آئینی بحران پر تھے۔ موجودہ حالات میں کوئی آئینی بحران نہیں ہے۔

سماعت کے دوران سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے اپنے دلائل مکمل کر لیے۔ انہوں نے کہا کہ کسی کو ووٹ ظاہر کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ سینیٹ کے لیے خفیہ ووٹنگ نہیں ہو گی آئین یہ بھی نہیں کہتا کہ سینیٹ الیکشن قانون کے مطابق ہوں گے۔ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سینیٹ کے لیے آئین میں فری ووٹ کا لفظ استعمال نہیں ہوا۔

رضا ربانی نے کہا کہ سینٹ الیکشن سیاسی معاملہ ہے ریاضی کا سوال نہیں، سیاسی معاملات میں سمجھوتے ہوتے رہتے ہیں۔ کئی بار مختلف ایم پی ایز کسی ایشو پر متحد ہو کر سینیٹ امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں۔

سینیٹ انتخابات تین مارچ کو شیڈول ہیں۔
سینیٹ انتخابات تین مارچ کو شیڈول ہیں۔

صدارتی آرڈیننس کے بارے میں رضا ربانی نے کہا کہ آرڈیننس کے خلاف کسی ایوان میں قرارداد منظور ہوئی تو وہ ختم ہو جائے گا۔ پارلیمان نے توثیق نہ کی تو آرڈیننس 120 دن بعد ختم ہو جائے گا۔ عارضی قانون سازی کے ذریعے سینیٹ الیکشن نہیں ہو سکتا۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آرڈیننس کا سوال عدالت کے سامنے نہیں ہے۔ ہم آرڈیننس جاری ہونے پر کوئی رائے نہیں دیں گے۔

پیپلز پارٹی کے فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پارلیمنٹ میں ہر روز مختلف بلوں پر ووٹنگ ہوتی ہے۔ کبھی اپوزیشن حکومت کو اور کبھی حکومت اپوزیشن کو ووٹ دیتی ہیں۔ سینیٹ الیکشن آئین کے تحت ہوتے ہیں قانون پر نہیں۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال کیا کہ کیا ہر ایم پی اے ووٹ دینے کے لیے آزاد ہوتا ہے؟ اس پر فاروق نائیک نے کہا کہ پارٹی لائن پر عمل کرنا سینیٹ الیکشن کے لیے لازمی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ خفیہ ووٹنگ میں مداخلت بھی قانون کے مطابق جرم ہے۔ ووٹ کاسٹ ہونے کے بعد بھی خفیہ ہی رہتا ہے۔

مسلم لیگ (ن) لیگ کے بیرسٹر ظفر اللہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن ایکٹ کی تیاری کے دوران خفیہ ووٹنگ پر بحث ہوئی تھی اور تحریک انصاف سمیت ہر سیاسی جماعت نے اس وقت خفیہ ووٹنگ کی حمایت کی تھی۔ بیرسٹر ظفر اللہ نے کہا کہ سینیٹ الیکشن کے بعد صوبائی اسمبلیاں تحلیل بھی ہو سکتی ہیں۔ صوبائی اسمبلیوں کے دوبارہ انتخابات میں کوئی اور جماعت بھی حکومت میں آ سکتی ہے۔

پاکستان کی اپوزیشن جماعتیں سینیٹ الیکشن خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہی کرانے پر اصرار کر رہی ہیں۔
پاکستان کی اپوزیشن جماعتیں سینیٹ الیکشن خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہی کرانے پر اصرار کر رہی ہیں۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے وکیل جہانگیر جدون نے دلائل میں کہا کہ دو چار لوگوں کی وجہ سے سب کے ووٹ اوپن نہیں ہو سکتے۔ سیاسی جماعتیں چاہیں تو کرپشن کو روک سکتی ہیں، عدالت آرٹیکل 226 کا معاملہ پارلیمنٹ پر چھوڑ دے۔

سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ دو حکومتوں کے درمیان تنازع پر ریفرنس دائر کیا جا سکتا ہے۔ عدالت کو جائزہ لینا ہو گا کہ ریفرنس پر فوری جواب دینا لازمی ہے یا نہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ریفرنس آ چکا ہے اس پر رائے ہر صورت دیں گے۔

بیرسٹر صلاح الدین نے دلائل دیے کہ سپریم کورٹ سے رائے تب لی جاتی ہے جب کوئی اور راستہ نہ ہو، آج تک دائر ہونے والے تمام ریفرنسز آئینی بحران پر تھے۔ موجودہ حالات میں کوئی آئینی بحران نہیں ہے۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ ماضی میں حکومت نے اپنی سیاسی ذمہ داری عدالت پر ڈالنے کی کوشش کی۔ عدالت نے قرار دیا تھا کہ بنگلہ دیش کو تسلیم کرنا یا نہ کرنا پارلیمان کا اختیار ہے۔ ماضی میں بھارتی حکومت نے سپریم کورٹ سے بابری مسجد پر رائے مانگی تھی۔ لیکن بھارتی سپریم کورٹ نے ریفرنس پر رائے دینے سے انکار کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے یہ نہیں بتایا کہ قانون کیا کہتا ہے؟ اٹارنی جنرل نے دلائل میں بتایا کہ قانون کیا ہونا چاہیے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جو سوال ریفرنس میں پوچھے گئے ہیں اس پر ہی جواب دیں گے۔ خفیہ ووٹنگ ہونی چاہیے یا نہیں فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی۔ اگر آئین کہتا ہے خفیہ ووٹنگ ہو گی۔ تو ہو گی بات ختم۔ عدالت نے تعین کرنا ہے کہ سینیٹ الیکشن پر آرٹیکل 226 لاگو ہوتا ہے یا نہیں۔ سپریم کورٹ پارلیمان کا متبادل نہیں۔ ریاست کے ہر ادارے نے اپنا کام حدود میں رہ کر کرنا ہے۔ پارلیمان کا اختیار اپنے ہاتھ میں نہیں لیں گے۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ سیکرٹ اور اوپن بیلٹ کے لیے عدالتی تشریح کی ضرورت ہی نہیں۔ ووٹرز کو ووٹ کی معلومات عام ہونے کا خوف ہی کافی ہے۔ اگر رکنِ اسمبلی کو اپنی رائے پر ووٹ دینے کا حق نہیں تو 800 اراکین پر مشتمل اسمبلیوں کی کیا ضرورت ہے۔

عدالت نے کیس کی مزید سماعت جمعرات تک ملتوی کر دی۔

صدارتی ریفرنس

سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کروانے کے معاملے پر سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک صدارتی ریفرنس بھجوایا گیا تھا جس میں سپریم کورٹ سے آئین کی تشریح کرنے کی درخواست کی گئی تھی کہ آیا سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے ہوسکتے ہیں یا صرف سیکرٹ بیلٹ کے ذریعے ہی انتخاب ہو سکتا ہے۔

کیس کے دوران الیکشن کمیشن آف پاکستان نے واضح طور پر عدالت کو آگاہ کیا ہے کہ سینیٹ انتخابات صرف سیکرٹ بیلٹ کے ذریعے ہی ہو سکتے ہیں اور اس بارے میں آئین واضح ہے۔ اگر اوپن بیلٹ کے ذریعے انتخاب کروانا ہے تو اس کے لیے الگ سے قانون سازی ضروری ہے۔ سندھ حکومت کے وکیل نے بھی الیکشن کمیشن کے مؤقف کی حمایت کی ہے اور الیکشن سیکرٹ بیلٹ کے ذریعے کروانے پر زور دیا ہے۔

سماعت کے دوران عدالت نے مختلف آرٹیکلز کا حوالہ دیتے ہوئے اوپن بیلٹ سے الیکشن کروانے کے معاملہ پر وضاحت مانگی ہے۔

کیس میں سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ مختلف امیدوار نوٹوں کے بیگ لے کر گھوم رہے ہیں اور عدالتی فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments