بچوں پر تشدد روکنے کا بل منظور، کیا عمل درآمد ممکن ہو گا؟


پاکستان کی قومی اسمبلی نے بچوں کو جسمانی سزائیں دینے کی ممانعت کے قانونی بل کی منظوری دی ہے جس کے بعد ماہرین پرامید ہیں کہ تشدد کے خوف سے اسکول چھوڑنے والے بچوں کی واپسی کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے۔

اس بل کے مطابق بچوں پر ہر قسم کے جسمانی تشدد کی ممانعت ہو گی اور اس کے مرتکب افراد کو سزا دی جا سکے گی تاہم یہ قانون گھروں میں والدین پر لاگو نہیں ہو گا۔

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں اس قانون سازی کا خیر مقدم کر رہے ہیں اور اس اُمید کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ بچوں پر تشدد کے تدارک کا یہ قانون بہتر اور غیر متشدد معاشرے کی تشکیل کی راہ ہموار کرے گا۔

اس سے قبل پاکستان میں بچوں پر تشدد کی روک تھام کا کوئی قانون موجود نہیں تھا۔ البتہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ سال تعزیرات پاکستان کے سیکشن 89 کو معطل کر کے تعلیمی اداروں میں بچوں پر تشدد کو ممنوع قرار دیا تھا۔

حزبِ اختلاف کی رکن مہناز اکبر عزیز کی جانب سے پیش کردہ اس بل کی وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے حمایت کی جس کے بعد یہ قانون سازی متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔

بل کے متن میں کہا گیا کہ سرکاری و غیر سرکاری کام کرنے کی جگہوں، مدارس و دیگر تعلیمی اداروں میں بچوں پر جسمانی تشدد کی ممانعت ہو گی اور بچوں کے خلاف کسی قسم کی تادیبی کارروائی میں جسمانی تشدد شامل نہیں ہو گا۔

بل کے متن کے مطابق بچوں پر جسمانی تشدد کے خلاف شکایات کے لیے وفاقی حکومت طریقہ کار بنائے گی۔

بل میں کہا گیا ہے کہ بچوں پر تشدد کے مرتکب افراد کو نوکری میں تنزلی، تنخواہ میں کٹوتی اور جبری ریٹائر کرنے کی انتہائی سزا دی جاسکے گی۔

قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد یہ بل اب سینیٹ میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا جس کے بعد بچوں پر جسمانی تشدد کی ممانعت کے قانون کا اطلاق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی حد تک شروع ہو جائے گا۔

اس قانونی بل کی محرک قومی اسمبلی کی رکن مہناز اکبر عزیز نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ معاشرے میں کمسن بچوں کے خلاف تشدد میں گزشتہ چند برسوں میں تشویش ناک حد تک اضافہ دیکھا گیا ہے چوںکہ بچے کمزور ہوتے ہیں اور طاقت ور کمزور کو ہمیشہ زدوکوب کرتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ اب چوںکہ قانون آ گیا ہے اور ریاست نے اس اس عمل کو منفی قرار دیا ہے تو یہ بچوں پر تشدد کے خلاف ایک رکاوٹ ثابت ہو گا۔

مہناز عزیز کہتی ہیں کہ پاکستان میں دو کروڑ سے سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور بچوں کے اسکول سے بھاگ جانے کی سب سے بڑی وجہ تعلیمی اداروں میں تشدد ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات خوش آئند ہے کہ پارلیمنٹ میں موجود مذہبی رہنماؤں نے اس قانون کی حمایت کی اور اسلامی نظریاتی کونسل نے اس بل کی توثیق کی ہے جو کہ دینی مدارس میں اس کے نفاذ کی راہ ہموار کرے گا۔

مہناز عزیز سمجھتی ہیں کہ یہ مسئلہ صرف قانون لانے سے نہیں بلکہ قواعد و ضوابط بنا کر عملدرآمد اور والدین، اساتذہ و اداروں کی تربیت سے حل ہو سکے گا۔

ماہر نفسیات ڈاکٹر رضوان تاج کہتے ہیں کہ بچے پر تشدد اس کی نشوونما، رویے، شخصیت اور کامیابی پہ بہت اثر انداز ہوتا ہے جس کے نتیجے میں اس کا مستقبل بھی متاثر ہوتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ تشدد کے نتیجے میں بچے اپنے تعلقات میں ناکام اور زندگی گزارنے کا برا طریقہ اپنا لیتے ہیں اور انتہائی سطح کی صورت میں وہ معاشرے کا بہتر شہری بننے کے بجائے جرائم اور تشدد کی طرف جا سکتے ہیں۔

وہ سمجھتے ہیں کہ معاشرے میں بچوں پر تشدد کے منفی اثرات سے متعلق لوگوں میں آگاہی نہیں ہے جس کے لیے شعور اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر رضوان تاج کے بقول اگر پاکستان کی نوجوان نسل سے بہتر کردار کی توقع ہے تو اس کے لیے ان کے بچپن میں تشدد کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔

بچوں کے حقوق کے قانونی ماہر سید مقداد مہدی کہتے ہیں کہ بچوں پر تشدد کا جواز تعزیرات پاکستان کے سیکشن 89 میں ملتا ہے جو کہتا ہے کہ 12 سال تک کے بچے کو بہتری کے لیے مارا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے بچوں کے حقوق کے قوانین لانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہم اقوام متحدہ کے چائلڈ رائٹس کنونشن جو بچوں کو ہر قسم کے تشدد سے اور استحصال سے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے کے دستخط کنندہ ہیں۔

مقداد مہدی کہتے ہیں کہ انہوں نے اسکولوں میں جسمانی سزاؤں کے خاتمے کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے جس پر تین سال سے سماعت جاری ہے جب کہ اسلام آباد ہائی کورٹ سیکشن 89 کو پہلے ہی غیر قانونی اور آئین سے متصادم قرار دے چکی ہے۔

ان کے بقول ملک میں بچوں کے اسکول چھوڑنے کی شرح بہت زیادہ ہے جس کی وجہ اساتذہ کی جانب سے تشدد ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے جائزے اور اندازے موجود ہیں کہ بچوں کا اسکول کی تعلیم مکمل نہ کرنے میں سب سے بڑا عنصر جسمانی تشدد ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس کی مثال آئے روز مدارس میں بچوں پر جسمانی سزاؤں کی ویڈیوز ہیں۔

گزشتہ سال اسلام آباد ہائی کورٹ نے تعزیرات پاکستان کے سیکشن 89 کو معطل کرتے ہوئے اسکولوں میں بچوں پر مار پیٹ اور تشدد پر پابندی عائد کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments