این اے 75 کا ضمنی انتخاب: ’صاف شفاف، منصفانہ انتخاب‘ نہ ہونے پر این اے 75 ڈسکہ کا ضمنی انتخاب کالعدم قرار، الیکشن کمیشن کا دوبارہ پولنگ کا حکم


الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 19 فروری کو سیالکوٹ کے حلقہ این اے 75 کے ضمنی انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے حوالے سے کی جانے والی سماعت کے بعد جمعرات کو اپنے مختصر فیصلے میں 'صاف شفاف، منصفانہ انتخاب' نہ ہونے پر ان انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے حکم دیا کہ پورے حلقے میں 18 مارچ کو دوبارہ انتخابات کروائے جائیں۔

الیکشن کمیشن میں مذکورہ حلقے میں ضمنی انتخاب کے دوران مبینہ دھاندلی کے خلاف دائر کردہ درخواست میں مسلم لیگ (ن)کی امیدوار نوشین افتخار نے پورے حلقے میں دوبارہ انتخاب کا مطالبہ کیا تھا جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے ان 20 پولنگ سٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کی درخواست دی تھی جن کے نتائج روکے گئے تھے۔

الیکشن کمیشن نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ’ 19 فروری کو ضمنی انتخاب میں لڑائی جھگڑے اور تشدد ہوا، سیاسی فریقین کی جانب سے فائرنگ سے ماحول خراب ہوا، اور ووٹر کو حق رائے دہی کے لیے آزادنہ ماحول فراہم نہیں کیا گیا۔‘

الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ کی شق نو کے تحت الیکشن کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ سنایا ہے۔‘ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’حلقے میں صاف، شفاف، منصفانہ انتخاب نہیں ہو سکا، فائرنگ کے واقعات سے ووٹرز کو ڈرایا دھمکایا گیا۔‘

یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے ہونے والے انتخابات میں مبینہ دھاندلی اور بد نظمی کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا تھا جس میں فائرنگ سے دو افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ ’23 لاپتہ پریزائیڈنگ افسران سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا اور پھر ‘کئی گھنٹوں کے بعد‘ تقریباً صبح چھ بجے پریزایئڈنگ افسران پولنگ بیگز کے ہمراہ حاضر ہوئے۔‘

اس پر الیکشن کمیشن نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ انھیں ’20 پولنگ سٹیشنز کے نتائج پر شبہ ہے لہذا مکمل انکوائری کے بغیر غیر حتمی نیتجہ جاری کرنا ممکن نہیں ہے اور یہ معاملہ انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کمزوری لگتی ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

پریزائڈنگ افسران کے ’لاپتہ‘ ہونے کا معاملہ، ای سی پی کا انتظامیہ کی کارکردگی پر سوال

ڈسکہ ضمنی الیکشن: آر او نے الیکشن کمیشن کو کیا بتایا؟

مریم نواز: ’پتلی گلی سے نہیں نکلنے دوں گی، اب یہ میرا دوسرا روپ دیکھیں گے‘

عاصمہ شیرازی کا کالم: اب کی بار نیوٹرل امپائر؟

الیکشن کمیشن کی جانب سے این اے 75 میں دوبارہ انتخاب کروائے جانے کا فیصلہ آنے کے بعد مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز نے ٹوئٹر پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ ’ڈسکہ کی عوام کو ان کا حق واپس مل گیا۔‘

https://twitter.com/MaryamNSharif/status/1364888657379794945

جمعرات کی سماعت میں کیا ہوا؟

پاکستان مسلم لیگ کی امیدوار نوشین افتخار کی جانب سے دائر کی گئی درخواست کے بعد چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے این اے 75 مبینہ انتخابی دھاندلی کیس کی سماعت کی۔

ای سی پی کی جانب سے الیکشن میں ووٹر ٹرن آؤٹ کے سوال پر لیگی رہنما کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ 2018 کے عام انتخابات میں ٹرن آؤٹ 58 فیصد تھا۔ جبکہ جن پولنگ سٹیشنز کے نتائج بعد میں ظاہر کیے گئے ان میں ٹرن آؤٹ 88 فیصد تھا۔

پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار علی اسجد ملہی کے وکیل کا اس پر موقف تھا کہ ٹرن آؤٹ ہر جگہ ایک نہیں رہتا۔ انھوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے بھی 20 پولنگ سٹیشنز پر دوبارہ انتخابات کرانے پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا ہے۔

منگل کی سماعت میں کیا ہوا تھا؟

منگل 23 فروری کو ہونے والی سماعت میں الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے کہا تھا کہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 75 (ڈسکہ) میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں کوئی بے قاعدگی نہ پائی گئی تو جلد نتائج جاری کر دیے جائیں گے، ورنہ دوبارہ پولنگ کا حکم دیا جائے گا۔

منگل کے روز قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 75 میں ہونے والی مبینہ بدعنوانی کے خلاف چیف کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں الیکشن کمشن کے پانچ رکنی بنچ نے اس حلقے سے پاکستان مسلم لیگ نواز کی امیدوار نوشین افتخار کی درخواست پر سماعت کی تھی۔

درخواست گزار کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس حلقے میں 19 فروری کو ہونے والے پولنگ کے دن اور پھر نتائج سے متعلق خود الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری ہونی والی پریس ریلیز ایک اہم دستاویز ہے، جس میں ساری کہانی عیاں کر دی گئی ہے۔

عدالت نے اس حلقے کے ریٹرننگ افسر (آر او) کو طلب کیا جس نے بتایا کہ اس حلقے میں قائم 360 پولنگ سٹیشنز میں سے 337 پولنگ سٹیشنز کے نتائج رات گئے یعنی ساڑھے تین بجے کے قریب موصول ہو چکے تھے۔

’20 پریزائڈنگ افسران سے رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا، ایک پریزائڈنگ افسر کے علاوہ کسی کا فون نہیں مل رہا تھا۔’

انھوں نے کہا کہ تمام پولنگ سٹیشنز 30 سے 40 کلومیٹر کی حدود کے اندر واقع تھے۔ انھوں نے کہا کہ ان افسران کو گاڑیاں بھی فراہم کی گئی تھیں اور یہ ممکن نہیں تھا کہ یہ افسران اکیلے ہوں۔ ان کے ساتھ پولیس اہلکار بھی تھے۔

ریٹرننگ افسر کا کہنا تھا کہ اس رات موسم بھی خراب تھا جس پر چیف الیکشن کمیشنر نے آر او سے استفسار کیا کہ کیا انھوں نے وائرلیس کے ذریعے رابطہ کرنے کی کوشش کی؟ اس پر ریٹرننگ افسر کا کہنا تھا کہ ‘پولیس والوں سے بھی رابطہ نہیں ہو سکا تھا۔’

آر او کا کہنا تھا کہ ’20 مشتبہ پولنگ سٹیشنز میں سے چار کلئیر ہیں، جو نتیجہ ایجنٹس کو دیا گیا وہی نتیجہ درست نکلا۔’

انھوں نے کہا کہ جب پولیس کو کہا کہ ان افسران سے رابطہ کریں تو پولیس والوں نے بھی جواب دیا کہ ان سے رابطہ نہیں ہو رہا۔

بینچ کے ایک رکن نے ریٹرننگ افسر سے استفسار کیا کہ اگلی صبح جب پولنگ سٹیشنز کے پریزائڈنگ افسران تاخیر سے پہنچے تو کیا انھوں نے ان افسران سے پوچھ گچھ کی جس پر ریٹرننگ افسر کا کہنا تھا کہ ان میں سے کسی نے موسم کی خرابی اور کسی نے گاڑی کے خراب ہونے کی وجوہات بتائیں۔

این اے 75 میں انتخاب والے روز کیا ہوا تھا؟

ای سی پی کے مطابق این اے 75 کے نتائج اور پولنگ عملہ ‘لاپتہ’ ہونے کے معاملے پر چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ معاملے کی اطلاع ملتے ہی رات گئے مسلسل آئی جی پنجاب ،کمشنر گجرانوالہ اور ڈی سی گجرانوالہ سے رابطے کی کوشش کرتے رہے لیکن رابطہ نہ ہوا۔

ای سی پی نے کہا کہ انتظامیہ کی جانب سے کوتاہی برتنے پر اور پولنگ میٹریل میں ردوبدل کی صورت میں متعلقہ افسران کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔

پاکستان مسلم لیگ نون کے سینئیر رہنما احسن اقبال نے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ڈسکہ سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 75 میں ’23 لاپتہ پریزائیڈنگ افسران کے اغوا’ کی تحقیقات سامنے آنے تک نتیجہ روکیں۔

احسن اقبال نے بی بی سی کے شہزاد ملک سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ پہلے تو اس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہیے کہ 23 پولنگ سٹیشنز کا عملہ پولنگ مکمل ہونے کے بعد نتائج لے کر ‘کہاں غائب ہو گیا تھا۔’

مسلم لیگ کے رہنما نے الیکن کمیشن سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بات کی بھی تحقیقات کرے کہ متعدد پولنگ سٹیشنز پر چار گھنٹے تک پولنگ رکوائی گئی جس سے ان کے بقول ہزاروں نون لیگ کے ووٹرز ووٹ ڈالنے سے محروم رہے۔

رہنما نون لیگ نے مطالبہ کیا کہ جہاں پولنگ بند تھی اور جن پولنگ سٹیشنز کے پریزائڈنگ افسران ‘لاپتہ’ تھے وہاں پر دوبارہ پولنگ کرائی جائے۔

اس حلقے کے کل 360 میں سے 337 پولنگ سٹیشنوں کے غیر حتمی و غیر سرکاری نتائج کے مطابق مسلم لیگ نون کی سیدہ نوشین افتخار 97 ہزار 588 ووٹ لے کر آگے تھیں جبکہ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدوار علی اسجد ملہی 94 ہزار 541 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر تھے۔

این اے 75 کا حلقہ پی ایم ایل نون کے رکن صاحبزادہ سید افتخارالحسن شاہ کے انتقال سے خالی ہوا تھا۔

لیگی رہنما مریم نواز کا انتخاب کے بعد رد عمل

مریم نواز

پاکستان مسلم لیگ نون کی نائب صدر نے 20 فروری کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ضمنی انتخابات میں الیکشن کمیشن کے عملے کے اغوا اور مبینہ دھاندلی پر الیکشن کمیشن کی اس پریس ریلیز کو سراہا تھا جس میں کمیشن نے اپنے عملے کے لاپتہ ہونے اور 20 پولنگ سٹیشن کے نتائج میں ردوبدل کے امکانات کو تسلیم کیا ہے۔

مریم نواز نے کہا کہ انھیں خوشگوار حیرت ہوئی ہے کہ الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے حلقہ 75 کے ضمنی انتخابات میں ہونے والی بدانتظامیوں اور مبینہ دھاندلی کے خلاف سٹینڈ لیا ہے۔

مریم نواز کے مطابق الیکشن کمیشن بھی چیخ پڑا کہ دھاندلی ہوئی ہے۔ کمیشن نے بتایا کہ ان کا اپنا عملہ بھی یرغمال بنا لیا گیا اور انتظامیہ بھی غائب تھی۔ انھوں نے کہا کہ اب ہمارا مطالبہ ہے کہ پورے حلقے میں ری الیکشن ہوں۔

مریم نواز نے الیکشن کمیشن کے اصولی مؤقف کی تعریف کرتے ہوئے کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ اب وہ ہونے والی مبینہ دھاندلی کے خلاف اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داریاں پوری کرے اور ذمہ داران کے خلاف سخت سے سخت کارروائی عمل میں لائے۔ انھوں نے کہا کسی اور کے لیے نہیں تو اس کے لیے ہی کمیشن کو اس مافیا کے خلاف کھڑے ہو جانا چائیے جو ان کی بے توقیری ہوئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp