انقلاب اسلامی کا تاریخی پس منظر


تاریخ انسانی کے اندر رونما ہونے والی اجتماعی و سماجی تبدیلیاں کئی پہلوؤں سے اہمیت کی حامل ہیں۔ ان تاریخی حادثات و واقعات سے درست استفادہ کرنے کے لیے لازمی ہے کہ ان کا تجزیہ و تحلیل علمی بنیادوں پر کیا جائے۔ بصورت دیگر یہ سبق آموز واقعات ایک کہانی سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔

اب تک قارئین محترم کی خدمت میں انقلاب کی تعریف، انقلاب کی خصوصیات، اور انقلاب کے بارے میں پائے جانے والے معروف نظریات پیش کیے جا چکے ہیں۔ اگلے مرحلے میں انقلاب اسلامی ایران کے اوپر ان تمام مراحل و خصوصیات انقلاب کو تطبیق کیا جائے گا تاکہ انہی علمی بنیادوں کی روشنی میں انقلاب اسلامی کے درست اسباب و عوامل کو سمجھا جا سکے۔

اس سے قبل کہ ہم اگلے مرحلے میں داخل ہوں، ضروری ہے کہ سرزمین ایران کا کلی طور پر ایک تاریخی پس منظر پیش کیا جائے تاکہ انقلاب اسلامی کی بحث کو سمجھنے میں یہ پس منظر مددگار ثابت ہو سکے۔

دوسری خلافت راشدہ کے زمانے میں، سعد بن ابی وقاص کی سپہ سالاری میں ایران فتح ہوا اور طویل مدت تک نظام خلافت کے تحت چلتا رہا۔ خلافت راشدہ، کے بعد بنو امیہ اور بنو عباس کی حکومتیں برسر اقتدار رہیں۔ کیونکہ بنو امیہ سے اقتدار لے کر بنو عباس کو منتقل کرنے میں ایرانیوں کا بہت اہم کردار رہا تھا ، اس لیے ایران کو بنو عباس کے زمانہ حکومت میں خاص توجہ حاصل رہی، حتی مامون الرشید نے خلافت کا مرکز بھی ایران کو بنائے رکھا۔

بنو عباس کے دور حکومت میں ہی ایران کے اندر صفوی خاندان مضبوط ہونا شروع ہوا جو کہ عثمانی دور خلافت تک بھرپور طاقت و قدرت حاصل کر چکا تھا۔ صفوی حکمران مذہبی رجحان رکھتے تھے اس لیے اس زمانے میں علماء کو تبلیغ دین کا بھرپور موقع ملا اور اسی وجہ سے حکومت اور عوام کے درمیان رابطہ قریبی اور مضبوط رہا۔ صفوی بھی ترک زبان لوگ تھے اس کے باوجود انہوں نے عثمانی حکومت کو قبول نہ کیا بلکہ ان کے مقابلے میں الگ سے ایران کے اندر حکومت قائم کی اور عثمانی حکومت سے علیحدگی کا اعلان کیا۔ اس زمانے میں دونوں طاقتوں کے درمیان مختلف مواقع پر سرد و گرم جنگ بھی جاری رہی۔

بعد میں برطانوی استعمار کی سازشوں سے عثمانی خلافت کا خاتمہ ہوا جس کے اندر برصغیر کے ہندو، سکھ، اور مسلمان افراد نے برطانوی فوج کے طور پر کام کیا۔ برطانوی استعمار کی سازشوں سے ہی صفوی حکومت بھی اختتام کو پہنچی اور ان کے بعد قلیل مدت کے لیے زندی حاکم رہے۔

زندی حکومت کو ختم کر کے قاچاری قبائل نے حکومت پر قبضہ حاصل کیا، قاچاری خانہ بدوش ہونے کی وجہ سے سخت جان اور جنگجو لوگ تھے۔ ان کو ایران کی جغرافیائی اہمیت کا بھی بخوبی اندازہ تھا اس لیے اس وقت کی دونوں عالمی طاقتوں یعنی برطانیہ اور روس کے ساتھ تعلقات قائم رکھے ہوئے تھے، کچھ معاہدے برطانیہ کے ساتھ طے کیے اور کچھ روس کے ساتھ۔ قاچاری مذہبی لوگ نہیں تھے، حد درجہ عیاش اور فاسد بھی تھے اس لیے عوام کے اوپر صرف طاقت کے بل بوتے پر قابض تھے۔

ایک تجارتی معاہدے کے تحت برطانیہ اور قاچاری حکومت کے مابین یہ طے پایا کہ ایران کے اندر تمباکو کی کاشت اور کاروبار کا مکمل حق برطانیہ کو حاصل ہو گا۔ چونکہ قاچاری عیاش لوگ تھے اس لیے اس معاہدے کے اندر نہات بے بصیرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہندوستان کی طرح (ایسٹ انڈیا کمپنی کی داستان) ایران کو فروخت کرنے کی طرف قدم بڑھایا۔ حالانکہ اس معاہدے کو خفیہ رکھا گیا تھا لیکن سید جمال الدین افغانی نے اس معاہدے کو بے نقاب کیا اور عراق میں موجود ایرانی مرجع تقلید مرزائے شیرازی کے پاس جا کر ان سے کہا کہ وہ تمباکو کی حرمت پر فتویٰ صادر کریں۔

مرزائے شیرازی نے اس مسئلے کی سیاسی اہمیت کو سمجھتے ہوئے فتویٰ جاری کیا جس کے مطابق تمباکو کی کاشت، استعمال، کاروبار، حتی تمباکو کو مطلقاً حرام قرار دے دیا گیا۔ اس فتوے کے بعد عوام نے اس معاہدے اور قاچاری حکومت کے خلاف قیام کیا جس سے برطانوی نفوذ کو بھی شکست ہوئی۔ یہ واقعہ نہضت تمباکو یا قیام تمباکو کے نام سے معروف ہے۔

اسی طرح قاچاری حکومت نے ایران کا شمالی حصہ روس کے سپرد کیا ہوا تھا اور جنوبی حصہ برطانیہ کے زیر اثر تھا۔ دونوں ممالک کی افواج ایرانی عوام پر ظلم و ستم ڈھاتیں اور قاچاری حکومت کو طول دینے کے لیے کسی بھی ظلم سے دریغ نہ کرتیں۔ صفوی حکمرانوں کے برعکس قاچاریوں نے علماء کو یکسر نظر انداز کیا ہوا تھا جس کی وجہ سے ہر سطح پر قاچاری حکومت منفور ہو چکی تھی۔ قاچاری دور حکومت میں مغرب پرستی عروج پر تھی، مغربی ثقافت کو ملک میں پروان چڑھایا جا رہا تھا۔ دوسری طرف عوام کے ساتھ بے رحمانہ سلوک عوام کے اندر بغاوت کا باعث بن رہا تھا۔

حکومت نے کچھ تاجروں کو ٹیکس نہ دینے کے جرم میں سر عام پھانسی پر لٹکا دیا، جس کے بعد عوام حکومت کے خلاف میدان میں آ گئے اور مطلق العنان بادشاہت کی بجائے مشروطیت کا مطالبہ کیا۔ 1905 سے 1907 کا یہ زمانہ قیام مشروطیت کا زمانہ کہلاتا ہے جس میں علما بھی شامل تھے۔ علماء کی طرف سے اسلامی حکومت کا مطالبہ نہیں تھا بلکہ ان کا مطالبہ یہ تھا کہ بادشاہ قانون سے بالاتر نہ ہو بلکہ دستورکا پابند ہو۔ ناصرالدین قاچاری جو اس وقت کا بادشاہ تھا اس نے اس عوامی دباؤ کے سامنے ظاہراً ہار مان لی اور مشروطیت کے نفاذ کا مطالبہ قبول کر لیا لیکن پس پردہ روسی حکومت سے اس مسئلے سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے منصوبہ بندی بھی کرتا رہا۔ کچھ عرصہ تک نام نہاد پارلیمنٹ اور قانون سازی چلتی رہی۔

نہضت مشروطیت کے افراد کے اندر پھوٹ پڑنا شروع ہوئی، علماء کی دلچسپی بھی آہستہ آہستہ کم ہوتی گئی جس کے نتیجے تحریک مشروطیت اپنے حقیقی اہداف حاصل نہ کر سکی۔ اسی دوران احمد خان قاچاری وہ آخری بادشاہ تھا جو اپنی بزدلی اور نا اہلی کی وجہ سے حکومت کھو بیٹھا۔ رضا خان پہلوی جو کہ روس کا تربیت یافتہ فوجی کمانڈر تھا اور اس کے ذمہ شمالی ایران کا کنٹرول تھا، اس نے احمد خان قاچاری کی نا اہلی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تہران پر قبضہ جما لیا اور یوں پہلوی سلسلے کی پہلی حکومت ایران میں برسر اقتدار آئی۔ مشروطیت کے لیے شروع کی جانے والی تحریک پہلوی حکومت پر اختتام پذیر ہو گئی۔

(قاچاری زمانہ حکومت کے اندر اٹھنے والی تحریکوں کے اندر کچھ شخصیات کا کردار بہت اہم رہا ہے، جس کو تفصیلی تجزیہ و تحلیل کی ضرورت ہے )۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments