طاقت کے جلوے اور اس کی ریشہ دوانیاں


طاقت اور زورآوری کا عمل دخل ہماری زندگی میں ایک ایسے ساز کی طرح ہے جس کی بظاہر کوئی آواز نہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا کہ کہیں عقب میں یہ اونچی آواز سے بج رہا ہے۔

ذرا غور کریں تو زندگی اور طاقت کا آپس میں کیا خوب رشتہ ہے، ہماری اکثریت کو طاقت اور دھونس کا استعمال اس وقت اچھا نہیں لگتا، جب ہم خود عتاب زدہ ہوں۔ لیکن اس کے برخلاف جب ہم خود طاقت کی مسند پر براجمان ہوتے ہیں تو یہی طاقت کے کرشمے اور اس کی گھن گرج ہمارے کانوں کو بری لگتی ہے اور نہ ہی اس کا غرور ہمیں پریشان کرتا ہے۔

یہ طاقت کی کشش ہے یا اس کا سحر جو سب کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ بلوچی میں ایک کہاوت ہے کہ ”چیونٹیاں چربی پر لپکتی ہیں“ ۔ پتہ نہیں چیونٹیوں کی بناوٹ ایسی ہے یا چربی کا جادو ہے۔

طاقت کی یہ پری زندگی کی کہانی کا مرکزی کردار ہے، جو باقی تمام کرداروں پر بھاری ہے۔ انسانوں کی دنیا ہو یا حیوانوں کی، طاقت کا یہ سحر ہر جگہ طاری محسوس ہوتا ہے۔ البتہ حیوانوں کی زندگی میں یہ قدرتی ضرورتوں کی ایک مناسب حد تک ہے۔ لیکن انسانوں کی دنیا میں اس کی ساخت خوف اور دھونس کے نظر نہ آنے والے الفاظ سے عبارت ہے اور اس کے کاریگر اس کو مینیوپولیشن، جوڑ توڑ اور لابنگ کی اجزاء کے ساتھ ملا کر پیش کرتے ہیں۔

طاقت کی اور کیا برائی کریں، یہ تو توانائی بھی ہے ۔ اس کے بغیر شاید ہمارا اپنا وجود ہی ممکن نہ ہو۔ کائنات کا قائم رہنا ایک قسم کی توانائی ہے اور اس کا ہمہ وقت پھیلنا بھی۔ ہم زمین پر چلتے پھرتے ہیں ، یہ زمین کی کشش کی ۤ( طاقت) کی وجہ سے ہے، نہیں تو زمین پر چلنے کا رواج ہی ختم ہو جاتا۔

طاقت اگر دولت ہے تو اس کی کمی سے غریب کی صحت کا برا حال ہے اور اس کی زیادتی سے امیر کی صحت کا حال کچھ بہتر نہیں۔ یہ کیسی شے ہے ، کہیں خواہشوں اور ارمانوں کی درد نما ٹیس کا نمونہ ہے اور کہیں یہ خوف اور اینگزائیٹی ہے کہ اگر طاقت اور رتبہ چھن گیا تو کیا ہو گا۔

ہماری ساری زندگی اسی کے گرد گھومتی، چکر لگاتی اور ناچتی نظر آتی ہے۔ کہتے ہیں زر، زن، زمین فساد کی جڑ ہیں لیکن اب ان کے مجموعے میں کارپوریٹ سیکٹر، عالمی اداروں، ٹیکنالوجی، اور ڈیجیٹل دنیا کو بھی شامل کرنا چاہیے۔

ہم شاید غلط ہوں اگر یہ کہیں کہ تمام لوگوں کے پاس پیسہ ہی طاقت ہے، ہو سکتا ہے کہ کسی کے پاس تعلیم طاقت ہو، کسی کے پاس امن ہی طاقت ہو، کسی کے پاس رواداری، برادشت اور آپس میں تعاون ایک طاقت ہو۔ لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے۔ بہت ساروں کے پاس بندوق اور غنڈووں کے ٹولے طاقت ہوں۔

الغرض طاقت کی شکلیں سب کے پاس ایک جیسی نہیں ہیں اور نہ ہی اس کا ترجمہ سب کے لیے ایک جیسا ہے۔ لیکن طاقت ور کو سب معلوم ہے کہ کس طرح نئے نعروں کے ساتھ نمودار ہونا ہے اور لوگوں کو کچھ نئے پیغامات تھما کر ان سے اطاعت لینی ہے۔

طاقتور کی ادائیں ایسی ہیں کہ وہ زمین کے ہر کونے میں اپنی موجودگی کا ڈنکا بجاتا ہے۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس کی طاقت بنی رہے۔ بلوچی کی ایک کہاوت ہے کہ ”سر اور پتھر لڑانے کی چیزیں نہیں ہوتیں“ ایک اور کہاوت ہے کہ ”رسی وہاں سے ٹوٹتی ہے جہاں سے کمزور ہو“ ان میں کمزوروں کے لیے محتاط رہنے کے پیغام تو ہیں ہی لیکن طاقت ور کی طاقت کو بھی منوانے کا بندوبست خوب نظر آتا ہے۔

یہ ہو سکتا ہے کوئی اتفاق نہ کرے لیکن یہ حقیقت ہے کہ طاقت کے اونچے چبوترے سے کبھی کوئی نیچے اترنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ طاقت کی کرسی میں کیا کشش ہے کہ ہر آدمی اس پر بیٹھنا چاہتا ہے۔

اکتوبر انقلاب کے بارے میں ماہرین کے ہاں یہ خیال بھی پایا جاتا ہے کہ وہ جو کل مزدور تھے، طاقت کے ایوانوں میں پہنچ کر وہ بدلے اور انہوں نے وہی کیا جو ان کے پیش روؤں نے کیا تھا۔ اس لیے سوشلسٹ انقلاب ایک اچھی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت نہ ہو سکا۔

یہ ہماری زمین اگر خود ایک مؤرخ ہوتی تو شاید زمین پر طاقت کی کہانیوں کے قصے جا بہ جا نظر آتے اور ان کے ساتھ کہیں اس کا بھی امکان ہوتا کہ کسی غریب یا پسی ہوئی قوم کا بھی ایک قصہ کہیں نظر آ جاتا کیونکہ امیر اور بالا دست کو اس میں کبھی کوئی مشکل پیش نہیں آتی کہ وہ اپنی تاریخ کس رنگ کی سیاہی سے اور کیسی لکھوائے۔

ٹیکنالوجی بدلی تو جنگوں کی شکل بھی بدل گئیں۔ کل نوآبادیات بنانے کی ضرورت تھی دوسروں کی دولت لوٹ کر لے جانے کے لیے، اب ملٹی نیشنل کمپنیوں سے یہی کام لیا جاتا ہے۔

انسان بہتری کی کوششوں میں ہر وقت مصروف نظر آتا ہے لیکن اس کی توانائی کہاں صرف ہو رہی ہے یہ پتا نہیں اور جس تنوع کی خوبصورتی کو ہم مانتے ہیں ، اگر اس کے برخلاف ہمارا سفر جاری ہے تو سوچیے کہ ہم کہاں پہنچیں گے؟

فطرت کی بقاء کے ماہرین کے ہاں یہ خیال بھی پایا جاتا ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا استعمال جب تک اپنی سبقت منوانے کے لیے کیا جاتا رہے گا، اس وقت تک دنیا میں امن صرف ایک خواب ہی رہے گا۔ اس لحاظ سے بالکل صحیح کہتی ہیں محترمہ ارون دھتی رائے کہ ”جنگیں ہوتی رہیں گے، جب تک ہتھیاروں کا کاروبار ہے“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments