27فروری 2019: وقتی جذبات اور حقیقت پسندانہ سوچ


اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حالات میں بارڈر کے دونوں طرف رہنے والے لوگ اپنے اپنے ملک کے ساتھ محبت ظاہر کر رہے ہیں اور ہر طرف سے یہ مطالبہ ہے کہ ایک دوسرے سے بدلہ لیا جائے اور ایک کے بدلے دس مارے جائیں۔لیکن ان حملوں سے کیا نکلے گا، ایک دن ایک حملہ کرے گا اور دوسرے دن دوسرا اور ہر طرف لاشوں کے ڈھیر، خون ہی خون، طیارے، گھن گرج، بم اور چیخ پکار۔

لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سلسلہ کب تک چلے گا، تب تک جب تک دونوں ملک مکمل طور پر ختم نہیں ہو جاتے؟ یا کوئی اور بھی اختتام ہو گا۔ اگر کوئی اور اختتام ہو گا تو اس کے بعد کیا ہو گا،  آخر بات ہی کریں گے ناں ایک دوسرے سے ، تو کیا وہ بات چیت، کیا وہ مذاکرات اس حد تک جانے سے پہلے نہیں ہو سکتے؟

پاکستان اور بھارت 4 جنگیں لڑ چکے لیکن ان جنگوں سے کیا نتیجہ نکلا؟
کیا پاکستان ختم ہو گیا یا بھارت ختم ہو گیا؟

دونوں ملک اپنی اپنی جگہ موجود ہیں لیکن غربت، بے روزگاری، خود کشیوں، جہالت اور دکھ و الم میں دونوں یکساں ہیں۔ دونوں ممالک کی اکثریت غربت کی لائن سے نیچے ہے۔

دونوں ملکوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ دونوں ایک حقیقت ہیں اور بجائے کسی ملک کو تباہ کرنے کہ آپ اپنے ملک کو کیوں نہیں سنوارتے؟

وہ سارے وسائل جو محض آپ دشمنی میں خرچ کرتے ہیں وہ دوستی و بھلائی کے لیے کیوں نہیں خرچ ہوتے؟

دنیا میں جتنی بھی جنگیں ہوئی آخر ایک دن ختم ہوئی اور پھر بات مذاکرات پر ہی آئی،یورپ کے ممالک کی دشمنی ہمارے سامنے جیتی جاگتی مثال ہے، وہ ایک دوسرے کے ہم سے زیادہ شدید دشمن تھے، ایک دوسرے کے علاقوں پر قبضہ کرتے تھے لیکں آخر کار انہوں نے سمجھ لیا کہ جنگ سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا بلکہ مزید مسائل جنم لیتے ہیں۔

آج ہم لوگ باقی دنیا کی ترقی کی جو بات کرتے ہیں کیا وہ انہوں نے جنگ کر کے کی ہے یا امن کے ذریعے؟ انہوں نے یہ ترقی اپنے لوگوں کو تعلیم دے کر، صحت دے کر اور آزادی سے جینے کا ماحول دے کر کی ہے۔

ہمارا بھی یہی کہنا ہے کہ ہم نے بھی ترقی کرنی ہے تو ہم بھی کیوں ناں وہی کام کریں جو باقی دنیا نے کیے؟

کیا ایک دوسرے کو مارنا ہی انسان کا کام ہے؟ نہیں ناں۔

انسان تو کائنات کو مسخر کرنے کے لیے آیا تھا  اپنے علم سے، محنت سے، کوشش سے۔ اور اسی علم کی بنیاد پر تو اسے فرشتوں پر فضیلت ہے ، تو ہم دونوں ملک اپنے وسائل جنگ کے بجائے تعلیم پر کیوں نہ خرچ کریں اور ایک دوسرے کو حقیقت مانتے ہوئے اپنے اپنے عوام کی ترقی کا سوچیں۔

ہماری قوم کا اس وقت جذبہ انتہائی عروج پر ہے اور ساری قوم میرے سمیت کٹنے مرنے کے لیے تیار ہے تاکہ دشمن کو سبق سکھایا جا سکے، لیکن اس موقع پر کچھ سوالات ہیں۔

حب الوطنی ہمیں صرف جنگ میں ہی کیوں یاد آتی ہے ہمیں؟
کیا اپنے ملک کے قوانین پر عمل کرنا حب الوطنی نہیں ہے؟
کیا اپنے ملک کے ایک بھوکے کو روٹی کھلانا حب الوطنی نہیں؟

کیا ایک ان پڑھ کے لیے تعلیم کا بندوبست کرنا حب الوطنی نہیں؟
کیا موت و زندگی کی کشمکش میں پھنسے انسان کے لیے علاج کا بندوبست کرنا حب الوطنی نہیں؟
کیا اپنی سڑکوں، گلیوں، محلوں اور گھروں کو صاف ستھرا رکھنا حب الوطنی نہیں؟

کیا اپنے ہم وطنوں کو ملاوٹ کے بغیر خوراک، دودھ تیار کرنا حب الوطنی نہیں؟
کیا ایک غریب و بے بس کو ناجائز مقدمہ بازی سے نجات دلانا حب الوطنی نہیں؟
کیا استاد کا اپنے فرائض صحیح ذمہ داری کے ساتھ ادا کرنا حب الوطنی نہیں؟

کیا ایک راہ چلتے کو سیدھا راستہ دکھانا حب الوطنی نہیں؟
کیا رشوت، کرپشن، میرٹ کی پامالی، سفارش کے کلچر کو ختم کرنا حب الوطنی نہیں؟

کیا اپنے ملک کی باگ ڈور صالح، صادق، امین اور اہل شخص کے سپرد کرنا اور اپنے ووٹ کا صحیح استعمال حب الوطنی نہیں؟

 (27 فروری 2019 کے دن تحریر کی گئی)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments