کتاب کو پھر سے دوست بنائیں


یہ فقرہ زبان زد عام ہے کہ جب سے موبائل فون اور لیپ ٹاپ کی ایجاد ہوئی ہے کتاب کون خرید کر پڑھتا ہے۔ اب تو پی ڈی ایف میں آسانی سے کتب دستیاب ہوتی ہیں۔ چھوٹے سے فون میں ہزاروں کتابیں رکھی جا سکتی ہیں اور لیپ ٹاپ میں لاکھوں۔

پی ڈی ایف کتابیں تو مفت میں مل رہی ہیں۔ کون مہنگے داموں کتاب خریدے اور گھر میں کاغذ کا ذخیرہ جمع کرے۔ کتابیں رکھنے کے لیے گھر میں معقول جگہ بھی چاہیے جہاں پر کتابوں کو قرینے سے رکھا جا سکے تاکہ کمرے کا حسن بھی دوچند ہو۔

کتاب گھر میں رکھنے سے ایک اور پریشانی کا سامنا رہتا ہے کہ کاغذ میں دیمک لگتی ہے جو کتاب کو کتر کتر کر خراب کرتی ہے۔ پھر ایسی کتاب پڑھنے کا من نہیں کرتا جس کا ورق ورق جالی کا منظر پیش کر رہا ہو۔ دیمک سے بچانے کے لیے ان کتابوں میں عطر رکھنی پڑتی ہے۔ ان کو ترتیب اور سلیقے سے رکھنا پڑتا ہے۔ غرض کتابوں کو گھر میں رکھنا بڑا مشکل کام ہے۔ جس بندے کے پاس کتابوں کا اچھا خاصا ذخیرہ جمع ہو ، وہ روزی روٹی کی فکر کرے یا گھر میں دن بھر کتابیں جھاڑتا رہے۔ محنت کش تھک ہار کر آرام کرے یا کتابوں کی ترتیب درست کرے۔ اس سبک خرام دور میں کون ہر ماہ ان کتابوں کو جھاڑ سنبھال کر رکھے۔

اکثر کہتے ہیں کہ فون کی ایجاد کے بعد کوئی کتاب خرید کر نہیں پڑھتا، یہ ایک غلط فہمی ہے۔ کاغذ کی مہک اور خوشبو اور وہ لطف جو کتاب زانو پہ رکھا کر آتا ہے فون کی سکرین اور لیپ ٹاپ کے پردے میں کہاں؟ آپ کے فون اور لیپ ٹاپ میں بھلے ہی لاکھوں کتابیں ہوں ، ان کتابوں سے آپ کے فون اور لیپ ٹاپ کی رونق نہیں بڑھ جاتی۔ ہاں گھر میں ہزاروں نہیں اگر دو تین سو ہی کتابیں ہوں تو کمرہ جاذب نظر لگتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہر نئی ایجاد سے پرانی شے کا استعمال کم ہوتا ہے اور لوگ پرانی چیز پر نئی ایجاد کو ترجیح دیتے ہیں۔

لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ چیزوں کا متبادل نئی ایجاد کردہ چیز نہیں ہوتی۔ میری ذاتی رائے ہے کہ کتاب کا متبادل پی ڈی ایف نہیں حالانکہ وہ بھی کتاب ہی ہے۔ ہاں یہ ہے کہ اس سے سہولت آئی کہ ایک چھوٹے سے فون میں ہزاروں کی تعداد میں کتابیں آسانی سے ہر جگہ ساتھ رکھی جا سکتی ہے اور بہ وقت ضرورت ان کا مفید استعمال کیا جا سکتا ہے۔ انسان سو کتابیں بھی اپنے ساتھ نہیں اٹھا سکتا لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہمیں کتابیں پڑھنا چھوڑ دینی چاہیے اور پی ڈی ایف یا ڈیجٹل لائبریوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔

یہ بات بھی طے ہے کہ کتابیں گھر میں ہوں تو کسی بھی وقت ان کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ فون گر گیا یا لیپ ٹاپ خراب ہوا تو پی ڈی ایف میں جمع کیا ہوا خزانہ ضائع ہو جاتا ہے۔ ہاں یہ ہے کہ ایسی سائٹس ہیں جن میں کتابیں محفوظ کی جا سکتی ہیں لیکن میرا ذاتی تجربہ ہے کہ پی ڈی ایف کتاب کے دو تین صحفے پڑھنے کے بعد ہی آنکھوں میں سوئیاں چھبنے لگتی ہیں اور سر گھومنا شروع ہو جاتا ہے جبکہ مطبوعہ کتاب کو آپ دن بھر پڑھتے رہیں،  نہ آنکھیں دکھیں گی اور نہ سر درد ہو گا۔

پہلے زمانے میں کتاب خریدنے اور کتب خانہ بنانے کا شوق اور مطالعہ کا ذوق عام تھا۔ ایسے بھی لوگ گزرے ہیں جہنوں نے کتاب خریدنے کے لیے اپنے گھر بار کو بیچ دیا اور ان کتابوں کے مطالعے کی ہی برکت ہے کہ تاریخ میں ان کا نام سنہرے حروف میں درج ہے۔ بعص حضرات کو مطالعے کا اتنا شوق تھا کہ ایک طرف بیٹا فوت ہوا ہے ، اس کی میت کو کفنانے دفنانے کے لیے کسی اور کو منتخب کرتے ہیں اور خود مطالعہ میں غرق ہیں۔ ایسے بھی افراد گزرے ہیں جو سفر میں، اٹھتے بیٹھے، چلتے یہاں تک کہ بیت الخلاء میں بھی کتاب کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔

ایسا بھی ہوا کہ بیوی اپنے شوہر سے فقط اس لیے ناراض رہتی تھی کہ اس کی طرف توجہ نہیں کرتا، بچوں کی طرف دھیان نہیں دیتا، گھر کی پروا نہیں کرتا بلکہ کتاب کو ہی اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔ ان کتابوں کے مطالعے کی ہی برکت ہے ، ایسے لوگوں کے نام تاریخ میں درج ہیں۔ آج بھی ایسے لوگ ہیں جن کو جنوں کی حد تک شوق ہوتا ہے کہ وہ کتابیں خرید کر جمع کرتے رہیں۔ علم کا خزانہ جمع کرنے کا شوق برا بھی نہیں لیکن ان کتابوں کا مطالعہ کرنے کا وقت اس کے پاس نہیں ہوتا۔ لیکن وہ بے شمار کتابیں خرید کر لاتے ہیں۔ یہ اچھی عادت بہترین عادتوں میں شمار تب ہو گی جب وقت نکال کر ان کتابوں کا مطالعہ بھی کیا جائے۔

کتاب سے دوری کا ایک سبب انٹرنیٹ، فیس بک واٹس ایپ اور اس جیسی دیگر سوشل سائٹس ہیں۔ اب تو تفریح کا معنی اور مفہوم ہی بدل گیا ہے۔ پہلے کتاب بہترین دوست اور رفیق ہوا کرتی تھی۔ کتاب ہی زندگی گزارنے اور جینے کا سبق دیتی تھی۔ کتاب نہ صرف ذہین و فطین لوگوں کی ساتھی تھی بلکہ شائقین کتاب کو محبوب کے چہرے سے تشبیہہ دیتے تھے۔ زمانے نے کروٹ لی اور اس تیزی سے بدل رہی دنیا میں لوگوں کے پاس وقت ہی نہیں کہ وہ کتب فروش کی دکان پہ جا کر کتاب خریدیں اور اس کا مطالعہ بھی کریں۔ اب تو پورا پورا دن سوشل میڈیا پر گزرتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پھر سے کتابوں کو اپنا دوست بنایا جائے تاکہ پھر سے ہمیں ایک بہترین دوست اور رفیق کا ساتھ میسر آئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments