سندھ: تارکین وطن پرندوں اور محنت کشوں کا مسکن


سندھ کے محکمہ جنگلی حیات نے سائبریا اور دیگر سرد ممالک سے انڈس فلائے وے زون کے راستے صوبے میں آنے والے پرندوں کی مردم شماری پر مبنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ 2021 کے پہلے دو ماہ کے دوران صرف سندھ صوبے میں چھ لاکھ 12 ہزار 397 تارکین وطن پرندے ریکارڈ کیے گئے۔ ان میں دریائے سندھ کے ڈیلٹا میں پہلی بار 15 سال بعد 60 ہزار پیلیکن نظر آئے، جو ایک نیا ریکارڈ ہے۔

محکمے کی چار رکنی ٹیم نے دو ہفتے تک سروے کرنے کے بعد یہ رپورٹ جاری کی، جس کے دوران ٹیم کو سندھ کے مختلف علاقوں میں کونج، نیل ہنس، چینا بطخ، پیلیکن یا پین، چیکلا، تلور، ڈگوش، آڑی، قاز، لاکھا جانی اور دیگر اقسام کے پرندے نظر آئے۔

رپورٹ کے مطابق 30 سال سے زائد عرصے کے بعد پہلی بار گلابی ہنس بھی سندھ میں دیکھا گیا جبکہ ان دو ماہ کے دوران صوبے میں مرغابیوں سمیت 86 اقسام کے مہمان آبی پرندے ریکارڈ کیے گئے۔ اسی طرح پانی سے دور خشک زمین پر اترنے والے پرندوں کی 41 اقسام ریکارڈ ہوئیں۔

محکمہ جنگلی حیات سندھ کے مطابق محکمہ جنگلی حیات سندھ 1972 سے ہر سال مردم شماری کرتا ہے، جس کے لیے محکماجاتی ٹیم مہمان پرندوں کے اترنے کے مقام پر جاتی ہے۔

سروے کے دوران وہاں لکڑی کے بنے گول اور چوکور فریم کے اندر سے نظر آنے والے پرندوں کو گنا جاتا ہے، اگر اس فریم میں 100 پرندے نظر آ رہے ہوں تو اس تعداد کو خاص رجسٹر میں درج کرنے کے بعد فریموں کا تعداد کو گنا جاتا ہے، پھر ایک فریم میں نظر آنے والے پرندوں سے ضرب دے کر کل تعداد نکالی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی مختلف ترکیبیں استعمال ہوتی ہیں۔ مہمان پرندوں کے وسیع پیمانے پر غیر قانونی شکار کے باعث ماضی میں ان کی تعداد کم ہو گئی تھی، مگر گزشتہ ایک سال کے دوران غیر قانونی شکار کے خلاف آپریشن کے بعد اس تعداد میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا۔

اس مرتبہ پرندوں کی تعداد میں اضافے کے علاوہ مختلف اقسام کے پرندے کئی دہائیوں کے بعد پہلی بار نظر آئے۔ مقامی پرندوں کے غیر قانونی شکار کے خلاف آپریشن کے بعد مقامی پرندوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے بھی مہمان پرندے زیادہ تعداد میں سندھ میں اترے۔

اس کے علاوہ گزشتہ سال سندھ میں اچھی بارشوں کے بعد کئی سالوں سے صوبے کی خشک آبگاہوں میں صاف پانی میں اضافہ ہوا، جو مہمان پرندوں کی تعداد میں اضافے کی ایک اور وجہ ہے۔

ماہرین کے مطابق سندھ صوبہ صحرا، پہاڑ، سمندر، دریا کے ساتھ آب گاہوں کی بہتات کے باعث ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت جنگلی حیات کے حیاتی تنوع کے لحاظ سے ایک امیر خطہ سمجھا جاتا ہے۔ جس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ رامسر کنونشن کے تحت پاکستان میں عالمی اہمیت رکھنے والی 19 آب گاہوں کو ’رامسر سائٹ‘ قرار دیا گیا ہے، جن میں نو صرف سندھ صوبے میں ہیں۔

ان میں کینجھر جھیل، ہالیجی جھیل، انڈس ڈیلٹا، انڈس ڈولفن ریزرو، دیہہ اکڑو، ڈرگ جھیل، جبو لگون، نرڑی لگون اور رن آف کچھ شامل ہیں جبکہ رامسر سائیٹ حب ڈیم کا آدھا حصہ سندھ اور آدھا بلوچستان میں ہے۔

پنجاب میں صرف تین، بلوچستان میں پانچ اور خیبر پختونخوا میں دو آب گاہوں کو رامسر سائٹ قرار دیا گیا ہے۔ ایران کے شہر رامسر میں ’کنونشن آن ویٹ لینڈ‘ یعنیٰ آب گاہوں کے تحفظ کا یہ عالمی معاہدہ دو فروری، 1971 کو طے پانے کے بعد 1975 میں نافذ ہوا۔

اس معاہدے کے تحت ایسی آب گاہیں جہاں کثیر تعداد میں پودوں، پرندوں اور مچھلیوں کی درجنوں اقسام پرورش پاتی ہیں اور یہ آب گاہیں ملکی معیشت میں کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ لاکھوں افراد کے روزگار کا بھی ذریعہ ہوں تو انہیں رامسر سائٹ قرار دیا جاتا ہے۔

انڈس فلائے وے زون، جاڑوں میں وسطی ایشیا کی جانب نقل مکانی کرنے والے پرندوں کے راستے میں واقع ہے اور سرد ممالک سے پرندے دو درجن سے زائد ممالک سے ہوتے ہوئے یہاں پہنچتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق جاڑوں میں پاکستان میں موجود کل پرندوں کا 30 فیصد ان مہمان پرندوں پر مشتمل ہوتا ہے۔

یہ رپورٹ پڑھنے کے بعد ویسے ذہن میں ایک خیال کروٹ لینے لگا کہ یہ تو صرف تارکین وطن پرندوں کا مسئلہ نہیں یہ تو سندھ میں آنے والوں تارکین وطن کارندوں (محنت کشوں) کا بھی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں متعلقہ محکمہ پرندوں کا اعداد و شمار رکھتا ہے اور کارندوں (محنت کشوں) کا متعلقہ محکمہ اس جانب زیادہ مائل شاید نہیں یا پھر جیسے کہ ہوتا رہا ہے سیاست کا شکار ہو گیا ہو۔ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔ جو بات میں نے اس رپورٹ سے اخذ کی ہے، وہ یہ کہ، کیا عجیب اتفاق ہے کہ سندھ کی زمیں خواہ وہ پرندے ہو یا کارندے (محنت کش) کے لئے سر چھپانے، شکم سیری مالی منفعت اور نسل انسانی کی اجراء وبقا کے لئے ہمیشہ سازگار رہی ہے۔

سندھ کے حالات خصوصاً ً کراچی کے حالات درست ہوں تو تارکین وطن کے ساتھ ساتھ اندرون ملک کے چپے چپے اور کونے کونے سے لوگ ادھر آتے ہیں۔ لیکن جیسے اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس بار اس لئے عادی پرندوں کی آمد کے ساتھ ساتھ نئی اقسام کے پرندے بھی دیکھے گئے ہیں۔ کیونکہ پہلے شکار کی ڈر کی وجہ سے پرندوں کی آمد کم تھی اور شکا ہونے کی وجہ سے ان پرندوں کی افزائش نسل اور واپسی میں مزید کمی واقعہ ہوجاتی تھی۔ چونکہ پرندوں اور محنت کشوں میں ایک مماثلت پائی جاتی ہے اور وہ یہ کہ دونوں سویرے سویرے اٹھتے ہیں اور دونوں روزانہ دانا دنکنے اور روزانہ اجرت پر پلتے ہیں۔

جمع پونجی دونوں کی شکم سیری تک ہی محدود رہتی ہے شاید اس میں پرندوں کو ذرا ایج حاصل ہو، سر چھپانے کے لئے پرندوں کو گھونسلہ اور محنت کشوں کے لئے جھگی یا جونپڑا میسر ہوتا ہے جو دونوں تنکوں سے بنے ہوتے ہیں۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ حالات اچھے ہوں پھر یہ اپنا پیٹ پوجے کے لئے کسی پر انحصار نہیں کرتے لیکن اگر حالات سازگار نہ ہو اور شکاری ان پرندوں کی شکار کے لئے دندناتے پھر رہے ہوں تو پھر یہ پرندے دوسروں کی شکم سیری کا وسیلہ تو بنتے ہیں پر نسل پرند و نقل مکانی کی فقدان کا شکار ہوجاتی ہیں جبکہ محنت کش براہ راست تو پرندوں کی طرح شکاریوں کی شکم سیری کا باعث نہیں بنتے پر ناسازگارئی حالات سے پرندوں کی طرح بڑی اسانی سے شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ پرندوں کی طرح محنت کش روزانہ اجرت کی وجہ سے اپنے جھگیوں میں بیٹھ نہیں سکتے اور اڑھتا پرندہ اور متحرک محنت کش کسی بھی وقت شکار ہوسکتے ہیں اور ناسازگائی حالات کی وجہ سے بڑی آسانی سے پرندوں کے گونسلے اور کارندوں (محنت کشوں) کے جھگیاں جلاؤ گراؤ کے لپیٹ میں آسکتے ہیں۔ حالات سازگار ہوں تو پرندے فضائی ماحولیاتی آلودگی کو پاک صاف اور کارندے (محنت کش) ملک کے زمینی آلودگی کو سماجی اور اقتصادی لحاظ سے معتدل رکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments