وہ راسپوٹین تھا


دروازے کے پاس مٹیوں کا ایک ملبہ پڑا ہے۔ میں اندر داخل ہوتاہوں تو جابجا مکڑیوں کے جالے نظر آتے ہیں۔ اور اندر جاتا ہوں تو مجھے وہ چائے خانہ نظر آتا ہے جہاں پرنے زمانے کی کرسیوں پر آٹھ دس افراد بیٹھے تھے اور ایک جگہ بوسیدہ دیوارسے ٹیک لگائے وہ اجنبی کھڑا تھا، جس نے پادریوں جیسا لباس پہن رکھا تھا۔ اس کی داڑھی کسی پہونچے ہوئے ولی کی یاد دلاتی تھی۔ اس کے بال سیاہ اور گھنگریالے تھے اور اس کے چہرے سے نور پھوٹ رہا تھا۔

اس نے پوچھا۔ چائے؟ مجھے اس کی آواز کسی گہری سرنگ سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔ میں نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا جو ہرقسم کے جدبات سے عاری تھا۔ دیواروں کے پیچھے نگاڑے بج رہے تھے اور یہ شور مجھے گراں گزر رہا تھا۔ اجنبی نے بتایا کہ پریشان ہونے کی ضرور ہے۔ یہ فوجی ہیں جو کبھی نگاڑے بجاتے ہیں، کبھی آپس میں لڑتے ہیں اور کبھی جنگ کی مشق کرتے ہیں۔ میں نے چائے خانہ کا جائزہ لیا۔ چائے پینے والوں کے چہرے پر ایک عجیب سی اداسی تھی۔ کچھ نے ہیٹ پہن رکھے تھے۔ اور جنھوں نے ہیٹ نہیں پہنے تھے، ان کے بالوں کے رنگ سرخ تھے۔ اور چہرہ سفید تھا۔ انہوں نے سردیوں کے کپڑے پہن رکھے تھے اور میز پر رکھی چائے ٹھنڈی ہو رہی تھی۔

یہاں موت جیسا سناٹا ہے۔ ؟

ہاں۔ اس نے میری طرف دیکھ کر کہا۔ صدیوں پرانی خانقاہ۔ ہم میں سے ہر شخص اجنبی ہے اور تعارف سے کوئی دوست نہیں بنتا۔ ہم دونوں کرسیوں میں سمٹ کر بیٹھ گئے۔ اس کے چہرے پر سنجیدگی تھی اور وہ آہستہ آہستہ اپنی داڑھی کو سہلا رہا تھا۔ اس کی داڑھی نہ صرف بڑی تھی بلکہ اس کے چہرے کو پر کشش بنانے میں نمایاں کردار ادا کر رہی تھی۔ اس نے دوبارہ میری طرف دیکھا اور کہا۔ مجھے کچھ باتیں پسند تھیں۔ تارکول کی چکنی سڑک پر پھسلنا۔

برف اور آگ سے کھیلنا۔ مٹی کے تاج وتخت بنانا اور انہیں پاؤں سے روند دینا۔ میں بچپن سے ہی گناہوں سے محبت کرنے والی تنظیم سے وابستہ ہو گیا۔ اور اس تنظیم نے مجھے بتایا کہ مقدس گناہ ہمیں خدا سے قریب کرتے ہیں۔ اور خدا چاہتا ہے کہ ہم گناہ کریں۔ ذرا سوچو کہ سائبیریا کے ٹھنڈے موسم میں جہاں میری پیدائش ہوئی۔ اور پیدائش کے چند برس بعد ہی میں معجزوں سے کھیلنے لگا۔ مجھے احساس ہوا کہ مقدس گناہ کے خدا نے میرے اندر کچھ مخفی اور پراسرار طاقتیں رکھ دی ہیں، جن کا مجھے سیر حاصل فائدہ اٹھانا ہے۔

اور یہ کوئی بری بات نہیں تھی۔ سب سے پہلے میں نے تارکول کی چکنی سڑک پر ایک حسین دوشیزہ کو دیکھا، جو سرتا پا لباس کی گٹھری بنی ہوئی تھی اور میں نے خیال کیا کہ کاش اس کے لباس کھل جاتے۔ میرا سوچنا تھا کہ اس کے لباس کھل گئے۔ دوشیزہ کی چیخ گونجی۔ وہ سرتا پا برہنہ تھی۔ اور اپنے ہاتھوں سے بھرے بھرے پستانوں کو چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ ہنسا۔ عورت کو برہنہ کرنا بھی فن ہے۔ عورت اس کائنات کی اسفل ترین مخلوق ہے، جس پر مرد کو حکومت کرنے کا حق دیا گیا ہے۔

میں چھوٹا تھا اور بحری کنارے پر کھڑے ہو کر میں نے جہازراں سے کہا کہ مجھے اپنے جہاز پر لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کرے۔ اس نے انکار کیا۔ میں نے غصے سے کہا، تمہارا جہاز پلٹ جائے گا اور غرقاب ہو جائے گا۔ میں نے دیکھا، سمندر کی تیز لہریں اٹھیں۔ میں نے جہاز راں اور مسافروں کی چیخ سنی۔ یہ اذیت کا پہلا ذائقہ تھا، جس نے مجھے مقدس گناہ کی وادیوں سے قریب تر کر دیا تھا۔

لیکن تم مجھے یہ سب کیوں سنا رہے ہو؟ میں نے آہستہ سے پوچھا۔

کیونکہ۔ اہ۔ وہ میری طرف مڑا اور اس نے کہا، مٹی کے جزائر سمندر میں مل رہے ہیں۔ اور سلطنتیں تباہ ہو رہی ہیں۔ کوئی ہے جس نے میرا چہرہ پہن لیا ہے۔ اور میں نے بھی کبھی کسی کا چہرہ پہنا تھا۔ اورتم اسی لیے اس خانقاہ میں بھیجے گئے ہو کہ تمہیں مجھے جاننا ہے۔ مقدس گناہوں نے تمہیں میری طرف بھیجا ہے۔ اور یہاں آنے میں تمہاری کوئی غلطی نہیں ہے۔ اور غور کرو۔ یہ شہنائی کی آوازیں۔ کوئی دف بجا رہا ہے۔

ہاں۔

اجنبی ہنسا۔ یہ زار نکولس کی سواری ہے۔ زار اول، دوم۔ سوم۔ اس سے فرق نہیں پڑتا۔ سارے زار اور بادشاہ ایک جیسے ہوتے ہیں۔ میں سینٹ پیٹرز برگ میں تھا اور میرے ہاتھ میں چینی کا ایک گلدستہ تھا۔ اور میں نے دیکھا کہ گلدستہ سے سرخ خون جاری ہو رہا ہے۔ جو گرتے گرتے میز اور پھر زمین تک پھیل گیا۔ مجھے علم ہوا کہ زار نکولس بیمار ہے اور خون بہنے کی بیماری میں گرفتار ہے۔ اور ایک چاندنی رات میں نے محل سے باہر اسے پیشاب کرتے ہوئے دیکھا۔

پانی کی دھار کی جگہ سرخ رنگ۔ میں اس کے قریب آیا اورکہا۔ تمہیں سو کنواری لڑکیوں کے شباب سے جو حقیقت میں کنواری ہوں، غسل کرنا ہوگا۔ تم جیسے ہی غسل کروگے، راحت محسوس کروگے اور خون کا گرنا بند ہو جائے گا۔ اور سو میں ایک لڑکی بھی اگر کنواری نہیں ہوئی تو پھر خون بہنے کے عمل میں اضافہ ہو جائے گا۔ اور تم مرجاؤ گے۔ میں نے اسی وقت محل سے نکل کر تیزی سے دوڑ کر زار کی طرف آنے والی زارینہ کو دیکھا، جس نے مبہوت نظروں سے میری طرف دیکھا اور میرے کانوں کے قریب آ کر کہا، تم میں خداؤں جیسی طاقت ہے اور میں تمہارے ساتھ آج کی رات ہم بستر ہونا چاہتی ہوں۔

یہ میرے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی۔ میں زارینہ کے ساتھ ہم بستر ہوا اور میں نے محسوس کیا کہ میں کسی سو برس کی بڑھیا کے ساتھ جسمانی غسل کر رہا ہوں مگرمجھے پہلے زار نکولس کو درد سے آزاد کرنا ہے۔ میں نے کپڑے بدلتے ہوئے زارینہ سے جھوٹ کہا کہ تمہارے جسم میں چاندنی کی لپٹیں ہیں اور اس چاندنی نے میرے خون کی حرارت میں اضافہ کیا ہے۔ عورتیں بہت جلد جھوٹ پر بھروسا کرلیتی ہیں۔ یہ بھی مقدس گناہوں کے خدا کا انصاف ہے کہ اس نے عورتوں میں کچے کان لگائے ہیں۔

تم عورتوں کے کان کو چھوؤگے تو مٹی کے برادے جھڑتے ہوئے نظر آئیں گے۔ کچے کان۔ مگر مجھے یقین تھا کہ میں نے زارینہ اور زار نکولس کو جیت لیا تو میرے پاس عظیم سلطنت کی بنیاد ہوگی اور میں مقدس گناہوں کے خدا کو پہلے سے کہیں زیادہ خوش کرسکوں گا۔ میں زارینہ کے پاس سے ہو کر جانے لگا تو ملکہ نے زور سے کہا، ٹھہرو۔ اور سنو۔ میرا شہزادہ بھی بیمار ہے۔ اور اب اس سلطنت کا وارث وہی ہے۔ میں زور سے ہنسا اور کہا۔ دراصل تم تینوں بیمار ہو اور مجھے تم تینوں کا علاج کرنا پڑے گا۔ میں نے ملکہ سے دوبارہ کہا، شہزادے کو کسی خوبصورت کنواری لڑکی کی اندام نہانی کو اس وقت تک چوسنا ہوگا جب تک خون نہ نکل آئے۔ ملکہ کے کہنے پر شہزادے نے ایساہی کیا اور خون کا ذائقہ لگتے ہی اس کی بیماری ٹھیک ہو گئی۔ اب زارینہ اور زار کا اعتماد مجھ پر بحال ہو چکا تھا۔

اجنبی نے میری طرف دیکھا۔ یہ اعتماد کا بحال ہونا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ اعتماد میں ہمیشہ فریب کا ذائقہ چھپا ہوا ہوتا ہے۔ اعتماد نے ہمیشہ بادشاہوں اور زاروں کو نقصان پہنچایا ہے۔ جب شہزادہ کنواری لڑکی کی جانگھوں پر جھکا ہوا تھا۔ پیٹر زبرگ کی ندیوں میں طوفان آیا اور وولگا ندی سے خون کے دھارے نکلے۔ اس دن سو کسان ہلاک ہوئے اور مقدس گناہوں کے خدا نے میری پر اسرار اور مخفی طاقتوں میں اض افہ کیا۔ اور جس دن زار نکولس سو لڑکیوں کے پیشاب سے غسل کرنے والا تھا، میں نے دیکھا، ایک عورت خنجر لے کر پیٹرز برگ کی گلیوں میں مجھے ہلاک کرنے کے لیے تلاش کر رہی ہے۔

میں سفلی عمل سے اسے اپنے کمرے میں لے آیا اور زار نکولس کی صحت کے نام پر اسے پہلے خون کا مشروب پلایا اور جب وہ نشہ میں آ گئی تو میں اس کی صحبت سے فیضیاب ہوا پھر زار نکولس کی صحت کے نام پر میں نے اس کا گلہ کاٹ دیا اور اس کی لاش پیٹرز برگ ندی میں بہادی۔ یہ عمل اور سو لڑکیوں کے پیشاب سے غسل کے بعد بھی زار کی صحت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور اس کے جسم میں سے نکلنے والے خون میں اضافہ ہوا تو میں نے زار سے کہا۔

ان میں دو لڑکیا ں کنواری نہیں ہیں۔ میں نے اشارہ کیا اور زار نے اسی وقت دونوں لڑکیوں کو قتل کر دیا۔ میں نے زارینہ کو بتایا کہ دو کنواری لڑکیوں کی کمی ہمیشہ برقرار رہے گی اور سو کا عدد کبھی پار نہیں ہو سکے گا۔ میں نے بتایا کہ شہزادے کو وارث کے طور پر تیار کرے کیونکہ زار نکولس کی زندگی بہت کم رہ گئی ہے۔

اجنبی نے لمبی سانس لی اور پھر کہنا شروع کیا۔ مجھے شدت سے احساس تھا کہ شاہی خاندان کو ختم کر دیا جائے گا۔ مجھے یہ بھی احساس تھا کہ بغاوت پر آمادہ بالشویک مجھے بھی ہلاک کردیں گے۔ مگر میں یہ بھی جانتا تھا کہ مقدس گناہوں کا خدا میرے ساتھ ہے اور اس لیے میں نے وصیت کی اور وصیت میں نکولس زار سے خطاب کرتے ہوئے لکھوایا کہ اگر میں بھائیوں کے ہاتھوں ہلاک ہوتا ہوں تو آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور مجھے رئیسوں نے قتل کیا تو میرا خون دھونے میں انہیں پچیس برس لگ جائیں گے۔

اور انہیں ملک سے فرار ہونا ہوگا۔ اور میں کسی بھی طرح قتل ہوا تو میں جسم کا ایک حصہ چھوڑ جاؤں گا اور یہ حصہ مجھے زندہ رکھے گا۔ قسم خدا کی جو گناہوں کے ساتھ ہے۔ اور میں آنے والے برسوں میں بھی اور جب تک روئے زمین پر انسانی زندگی ہے، میں بار بار زندہ ہو کر مختلف شکلوں میں واپس آتا رہوں گا۔ میں کلسٹ نام کے ایک جنسی فرقے سے تعلق رکھتا تھا اور جنسی تعلقات قائم کر کے عورتوں کو مقدس بناتا تھا، میں غسل نہیں کرتا تھا۔ غسل کرنے سے مخفی طاقتوں کے کھونے کا اندیشہ تھا اور میں ہمیشہ قائم رہنے والے گناہ کے ساتھ، نئے چہروں میں واپسی چاہتا تھا۔

اجنبی نے بوڑھے ویٹر کو بلایا جس نے گلوبند سے اپنا چہرہ ڈھانپ رکھا تھا اور جو لنگڑا کر چل رہا تھا، وہ قریب آیا اور احتراماً جھک گیا۔ اجنبی نے چائے لانے کا حکم دیا۔ چائے چندن سے بنے نفیس پیالے میں پیش کیا گیا۔ اجنبی نے چائے کی چسکی لی۔ ہنسا اور پھر کہنے لگا۔ جس کی سرشت میں وحشت کے ہزاروں ہنہناتے ہوئے گھوڑے ہوں۔ وہ کبھی نہیں مرتے۔ مجھے ایک شاہی تقریب میں زہردے کر مارنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن میں زندہ رہا۔

مجھے پیٹرز برگ کی ندی میں ہلاک کر کے ڈال دیا گیا لیکن میری لاش بہتی ہوئی کنارے آ گئی اور میں بھیگے کپڑوں کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ شاہی خاندان کے خاتمہ کے بعد بھی میں زندہ رہا۔ اور اب۔ وہ ہنسا۔ چھت کی طرف دیکھا اور کہا۔ مقدس گناہوں کے خدا اپنے بندوں کو زندہ رکھتے ہیں۔ میرے جسم سے ایک بڑا سا مربع نما لکڑی کا ٹکڑا بندھا ہوا تھا۔ قیاس ہے کہ اس بھاری لکڑی کے ٹکرے کے ساتھ ہی مجھے ندی میں پھینکا گیا تھا اور میری لاش اس ٹکرے کے ساتھ ہی بہتی ہوئی کنارے پر آئی تھی۔ اور جب کنارے پر آئی تو وہ مربع نما لکڑی کا ڈبہ میرے سرد جسم سے الگ ہو چکا تھا۔ پیٹرز برگ ندی کے کنارے کھڑے لوگوں میں حیرانی تھی۔ ابھی اس کی لاش یہیں تھی، کہاں گیا وہ۔

ایک بزرگ نے اپنی سرخ ٹوپی سیدھی کی اور کہا۔ وہ سفلی عمل جانتا ہے۔

ایک بزرگ خاتون، جن کے چہرے کی جھریاں سخت ہو چکی تھیں، اس نے خوف سے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا۔ اگر وہ مرا نہیں ہے تو اس روئے زمین پر کہیں نہ کہیں پیدا ہو رہا ہوگا۔

ایک جوان فاحشہ آگے بڑھی اور اس نے کہا، زنا کرنے کے بعد وہ عورتوں کے کان کاٹ لیتا تھا اور اس نے سو کٹے ہوئے کانوں کی ایک مالا تیار کی تھی اور یہ مالا اس نے اپنے گلے میں ڈال رکھی تھی۔ اور کٹے ہوئے کانوں کی بدبو میں ابھی بھی محسوس کر رہی ہوں۔ اور وہ یہیں کہیں ہمارے پاس ہے۔

اجنبی مسکرایا۔ اس بار اس نے میری طرف دیکھا۔ جس وقت یہ تمام گفتگو ہو رہی تھی، سینٹ پیٹرز برگ ندی کی موجوں میں روانی آئی اور قریب کھڑے لوگوں نے دیکھا کہ ندی کا پانی سرخ ہو گیا ہے۔ یہ بھی اتفاق ہے کہ اس دن کئی دوسری ندیوں کا پانی سرخ ہوا اور لوگوں میں میرے زندہ ہونے کی امید برقرار رہی۔ آؤ میر ے ساتھ۔ ’

اجنبی نے مجھے ساتھ آنے کا مشورہ دیا۔ میں اس مربع نما ڈبے کے بارے میں جاننا چاہتا تھا، مگر اجنبی سے کچھ بھی پوچھنا مناسب نہیں سمجھا۔ چائے خانے سے نکل کر خانقاہ کے اس حصے میں آ گئے جہاں بائیں طرف ٹوٹی ہوئی میناروں کی قطار تھی اور اس وقت دھول کے جھکڑ اٹھ رہے تھے۔ سانسیں منجمد ہو رہی تھیں۔ اس نے اشارہ کیا۔ کبھی یہاں ایک ندی تھی اور اس ندی میں سنگھاڑے پھلتے تھے۔ اس ندی کا پانی نمکین تھا۔ میں نے مخفی علم کے سہارے اس ندی میں بوڑھی ملکہ کے کٹے ہوئے بالوں کو ڈالا جو دیکھتے ہی دیکھتے سانپ بن گئے۔ اور تمہیں ایک دلچسپ بات بتاؤں۔ تم سنوگے۔ مگر یہ قصہ بھی مزیدار ہے۔

اجنبی کچھ وقفے کے لیے خاموش ہوا پھر کہا۔ جب مجھے مردہ تسلیم کر لیا گیا اور میں ندی کے کنارے سے اٹھ کھڑا ہوا تو میرا چہرہ سیاہ تھا۔ میرے پاؤں کالے پڑ گئے تھے۔ یہ اس زہر کا اثر تھا جو مجھے شاہی محل میں دیا گیا تھا۔ میں برہنہ تھا اور صبح سورج نمودار ہوتے ہی میں سینٹ پیٹرز برگ کی گلیوں میں نکل کھڑا ہوا۔ مجھے یقین تھا، کوئی مجھے پہچانے گا نہیں اور ایسا ہی ہوا۔ مگر اچانک ایک فاحشہ دوڑتی ہوئی آئی۔ میں اس کی صحبت کے مزے لے چکا تھا۔

اس نے میرا ہاتھ تھاما اور مجھے لے کر ایک سنکری گلی کے مکان میں داخل ہو گئی۔ وہ ہنسی۔ میں تمہیں پہچان گئی ہوں۔ میں نے کہا۔ میرا چہرہ سیاہ پڑ چکا ہے۔ اس نے جواب دیا۔ مجھے تاریکی پسند ہے۔ میں نے کہا، میرے پاؤں سیاہ ہوچکے ہیں۔ اس کا جواب تھا، سیاہی مجھے لذت دیتی ہے۔ میں نے کہا، میرا قلب سیاہ ہے اور اس میں نور کا ایک قطرہ نہیں۔ اس نے کہا، مجھے نور نہیں ظلمت سے عشق ہے اور تمہاری بے پناہ بدبو سے، جو اس وقت تمہارے جسم سے نکل رہی ہے اور تمہاری کثیف روح سے جس پر شیطانیت کا غلبہ ہے۔

مجھے اس کے سوا کچھ نہیں چاہیے۔ میرے ساتھ غسل عشق کرو اور اپنی سیاہی میرے بدن میں منتقل کردو۔ میں نے اس لڑکی کو دیکھا جس کا چہرہ اسکارف سے ڈھکا ہوا تھا۔ مگر میں اسے پہچان گیا تھا۔ وہ میری طرح ہی کیتھولک عقیدے کی ماننے والی تھی۔ اور مجھے اپنے عقیدے کے راستے میں مضر اور گناہگار سمجھتی تھی۔ وہ میرے قتل کے ارادے سے آئی تھی مگر اس سے قبل ہی میں نے اسے ہلاک کر دیا۔ ’

اجنبی خاموش ہوا۔ پھر اس نے کہا۔ میری بات سنو۔ عقیدہ، مشن اور مذہب کے لیے ہمیشہ طاقتوں کا استعمال ہوتا ہے۔ اور طاقتیں اس بات کی پرواہ نہیں کرتیں کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ طاقتوں کا سارا زور مشن اور عقیدے پر ہوتا ہے۔ طاقتور لوگ گالیاں سنتے ہیں اور خوش رہتے ہیں۔ طاقتور عناصر مخالفت اور بغاوت کے بارے میں نہیں سوچتے۔ مشن عقیدہ، مذہب، نئی دنیا اسی محور پر گھوم رہی ہے اور گناہوں کی کائنات کا خدا سب کچھ دیکھ رہا ہے۔

اجنبی نے بہت اصرار کرنے پر بھی اپنانام نہیں بتایا اور یہ بھی کہا کہ جب سیاہ راتیں تمہارے تعاقب میں ہوں گی، تم اس ملاقات کا مطلب سمجھ جاؤگے۔ میں نے خانقاہ کی بنیادوں کو زوروں سے کانپتے ہوئے محسوس کیا۔ میری آنکھیں بند تھیں اور جب آنکھیں کھلیں تو میرا سر پیانو پر رکھا ہوا تھا۔ میں کباڑ خانے میں تھا۔ اور اس وقت بھی کٹے ہوئے کانوں کی بدبو محسوس کر رہا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments