نوائے وقت نے کیوں لکھا کہ سید مودودی قائداعظم کی جگہ لینا چاہتے ہیں؟


نوائے وقت نے سید مودودی کے مضمون پر اپنے ادارتی تبصرے میں یہ کیوں لکھا تھا کہ”حضرت مولانا نے 10 سال کے عرصے میں پہلی مرتبہ دل کی بات کھل کر کہی اور صاف لفظوں میں مسلمانوں سے کہا کہ محمد علی جناح کی جگہ مجھے قائد اعظم مانو“۔

تو سید مودودی کے جولائی 1948 کے مضمون سے ہی کچھ مزید اقتباسات پیش کیے جانے چاہئیں تاکہ پتہ چلے کہ کیا سید مودودی خود کو متبادل قیادت قرار دیتے تھے یا پھر نوائے وقت نے غلط لکھا تھا۔

واضح رہے کہ ہم مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا حسین احمد مدنی، خان عبدالغفار خان یا سید مودودی کو کانگریس کا زرخرید ایجنٹ یا مسلمانوں کا غدار ہرگز نہیں سمجھتے۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ سب حضرات مسلمانوں کے لئے اخلاص کا جذبہ رکھتے تھے اور انہوں نے قیامِ پاکستان کی مخالفت مسلمانوں کی بھلائی کی نیت سے ہی کی تھی۔ ہماری رائے میں یہ حضرات غلط تھے اور قائداعظم کا الگ وطن بنانے کا فیصلہ درست تھا، مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان عظیم زعما کو مسلمانوں کا دشمن سمجھا جائے۔ یہ فیصلہ ہم یا آپ نہیں بلکہ تاریخ ہی نے کرنا ہے کہ ان قیام پاکستان کے حامی یا مخالف مسلمان لیڈروں میں سے کون درست تھا۔ تو پڑھتے ہیں سید مودودی کے ترجمان القرآن کے جولائی 1948 کے ’اشارات‘ سے چند اقتباسات جن کی بنیاد پر حمید نظامی صاحب کے نوائے وقت کے اداریے میں ان پر یہ سخت تنقید کی گئی تھی کہ وہ قائداعظم کی جگہ لینے کے خواہشمند ہیں۔ اس طویل مضمون سے سید مودودی کے تقسیم ہندوستان کے خلاف دلائل کو حذف کرتے ہوئے صرف ان کی لیگی قیادت کے بارے میں رائے، اور خود کو متبادل نظریاتی قیادت کے طور پر پیش کرنے والے کچھ حصے نقل کیے گئے ہیں۔

سید مودودی جولائی 1948 کے ترجمان القرآن میں لکھتے ہیں:

“ایک رائے یہ تھی کہ مغربی جمہوریت اور قوم پرستی کے اصولوں پر ہندو اقتدار کی تحریک کا مقابلہ کرنا اصولاً بھی غلط ہے اور عملاً بھی مفید نہیں۔ اصولاً اس لئے غلط ہے کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے یہ اصول ان اسلامی اصولوں سے ٹکراتے ہیں جن پر ہم ایمان لانے کے مدعی ہیں۔ اور عملاً یہ راہ اس بنیاد پر غیر مفید ہی نہیں، قطعی مہلک ہے کہ ہندوستان کے ایک چھوٹے سے حصے کو چھوڑ کر باقی سارے ملک میں مسلمان قلیل التعداد ہیں، اور ایک جمہوری نظام میں قومی جنگ لڑ کر اقلیت بجز تباہی کے اور کچھ مول نہیں لے سکتی۔ اس رائے کے پیش کرنے والوں نے مسلمانوں سے کہا کہ اگر تم محض ایک قوم ہوتے تو بلاشبہ تمہارے لئے یہاں اس کے سوا کوئی چارہء کار نہ تھا کہ قومی جنگ لڑ کر اپنے جتنے حصے کو بچا سکتے بچا لیتے اور باقی حصوں کی طرف سے پیشگی فاتحہ پڑھ لیتے۔ لیکن تم محض عام معنی میں ایک قوم نہیں ہو بلکہ ایک اصولی جماعت ہو جس کے پاس اصول اسلام کا ہتھیار وہ زبردست ہتھیار ہے جو پہلے بھی دنیا کو مسخر کر چکا ہے اور آج بھی کر سکتا ہے۔ لہذا کوئی وجہ نہیں کہ تم یہ مایوسانہ نقشہ جنگ بناؤ۔ تمہارے لئے صحیح راہ عمل یہ ہے کہ سیاسی اور معاشی اغراض کے لئے لڑنے والی ایک قلیل التعداد قوم کی یہ پوزیشن چھوڑ دو جو غلطی سے تم نے اختیار کر رکھی ہے، اور اس کی بجائے اپنا اصل منصب سنبھالو جو مسائل زندگی کا ایک بہترین حل اور تمام موجود الوقت نظاموں سے زیادہ جامع اور منصفانہ نظام پیش کرنے والی جماعت کا منصب ہے۔

اس چیز کو لے کر اگر تم اٹھ کھڑے ہوئے اور تم نے علمی و فکری حیثیت سے اصول اسلام کا تفوق تمام دوسرے اصولوں پر ثابت کر دیا اور اس کے ساتھ اپنے آپ کو اخلاقی حیثیت سے بھی اپنے ہمسایوں پر فائق کر کے دکھا دیا تو یقین جانو کہ تھوڑی ہی مدت کے اندر ہندوستان میں توازن قوت بدل جائے گا۔ ہندوستان کی سیادت تمہارے سوا پھر کسی اور کا حصہ نہ ہوگی اور بجائے اس کے کہ تم اپنے بچاؤ کے لئے پریشان ہو تمہارے حریفوں کو یہ فکر لاحق ہو جائے گی کہ وہ تمہارے بڑھتے ہوئے سیلاب سے اپنے آپ کو کس طرح بچائیں۔

یہ وہی بات تھی جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم مکہ میں قریش کے لوگوں سے فرمایا کرتے تھے کہ میں وہ کلمہ لے کر آیا ہوں کہ اگر تم اسے لے لو تو عرب اور عجم سب تمہارے زیرنگیں ہو جائیں گے۔ لیکن مسلمانوں نے اس مشورے میں وہی خطرہ محسوس کیا جو قریش نے محسوس کیا تھا کہ اگر ہم اس راہ عمل کو اختیار کر لیں تو اس سرزمین میں ہمارا کوئی ٹھکانا نہ رہے گا۔ پوری قوم میں بہت کم لوگ اس راہ کے امکانات کو سمجھ سکے اور بہت ہی کم لوگ اس پر چلنے کے لئے آمادہ ہوئے۔ اس طری یہ رائے قومی طرز عمل نہ بن سکی۔’

(یعنی مندرجہ بالا موقف سید مودودی پیش کر رہے تھے جس پر ہندوستان کے مسلمانوں نے توجہ نہ دی۔ اب آگے چل کر دو قومی نظریے کی مزید مخالفت کرتے ہوئے اگلے پیراگراف میں وہ یہ لکھتے ہیں۔ )

‘دوسری رائے یہ تھی کہ تمام ہندوستان کے مسلمان ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں اور مل کر آواز اٹھائیں کہ ہم ایک الگ قوم ہیں، ہمارا مذہب الگ ہے، ہماری تہذیب الگ ہے، ہمیں اور ہندوؤں کو ملا کر سارے ملک میں ایک قومی جمہوری ریاست بنا دینا صحیح نہیں ہے، ملک کو تقسیم کیا جائے، جہاں ہماری اکثریت ہے وہاں ہماری آزاد قومی حکومت بنے اور جہاں ہندوؤں کی اکثریت ہے وہاں ان کی آزاد قومی حکومت بن جائے۔

یہ راستہ آسان تھا۔ اس میں نہ کسی ذہنی کاوش کی کوئی حاجت تھی اور نہ کسی اخلاقی اصلاح و انضباط کا کوئی سوال۔ بظاہر یہ بات بھی بالکل صاف تھی، اور مسلمانوں کے ذہین طبقہ کو ایک مدت سے جس قسم کی تعلیم و تربیت مل رہی تھی، اس کے لحاظ سے یہی بات ان کی دماغی سطح سے قریب تر بھی تھی، اس لئے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی اکثریت نے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ تھوڑے لوگوں کر چھوڑ کر ساری قوم نے اس رائے کو اپنا لیا۔ اس مرکزی تخیل پر جمع ہونے کے بعد سے جو کچھ مسلمانوں نے من حیث القوم کیا ہے اس (ہی) تحریک اور اس قیادت کے زیر اثر کیا ہے جو اس تخیل کو پیش کرنے کی ذمہ دار تھی، لہذا ہماری ماضی قریب کی سرگزشت کا اور ہمارے آج کے حال کا حسن و قبح لازماً اس تحریک ہی کی طرف راجع ہو گا۔

یہ تحریک ایک قومی تحریک تھی۔ اس میں وہ سب لوگ شریک ہوئے جو نام و نسب کے لحاظ سے مسلم قوم کے افراد تھے۔ یہ سوال اس میں سرے سے بے محل تھا کہ جو اس میں شامل ہوتا ہے وہ خدا، رسول، آخرت، وحی و کتاب اور دین و شریعت کو مانتا ہے یا نہین، حرام و حلال کی تمیز کا قائل ہے یا نہیں اور فجور و تقویٰ، دینداری و بے دینی کی مختلف صفات میں سے کس صفت کے ساتھ متصف ہے۔ اصل مسئلہ قوم کو بچانے کا تھا اور کے لئے تمام قومی عناصر کا متحدہ محاذ بننا ضروری تھی۔ پھر جو کام پیش نظر تھا وہ بھی فتوے اور امامت کا نہ تھا کہ دین و اعتقاد کے تجسس کی ضرورت پیش آتی۔ مقصود صرف قومی مدافعت تھی اور اس کے لئے تحریک کی شرکت تو درکنار اس کی قیادت و رہنمائی کے معاملہ میں بھِی یہ دیکھنے کی حاجبت نہ تھی کہ جن لوگوں کو ہم آگے لا رہے ہیں ان کا اسلام سے کتنا اور کیسا تعلق ہے۔

یہ تحریک سیاسی تھی۔ اس میں اخلاق کا بھی کوئی سوال نہ تھا۔ جس نے سیاسی جوڑ توڑ میں جتنی زیادہ مہارت دکھائِ وہ اتنے ہی زیادہ ذمہ داری کے منصب کا اہل قرار پایا۔ اس قابلیت کا ثبوت مل جانے کے بعد یہ دیکھنا بالکل غیر ضروری تھا کہ اس کی دیانت، امانت، صداقت کا کیا حال ہے اور اس کی سیرت کہاں تک اعتماد کے لائق ہے۔

اس تحریک میں اگرچہ مذہب کا کوئی دخل نہ تھا، بعینہ اسی قسم کی تحریک ایسے ہی کارکنوں اور لیڈروں اور پیروؤں کے ساتھ دنیا کی ہر قوم اٹھا سکتی تھی، لیکن اتفاق کی بات تھی کہ جو قوم اپنی مدافعت کے لئے یہ تحریک لے کر اٹھی تھی اس کا مذہب اسلام تھا، اس لئے اسلام کی خدمات بھی اس کے لئے حاصل کی گئیں۔ اصول یہ قرار پایا کہ ہدایت و راہنمائی تو اسلام کے بس کا روگ نہیں ہے، اور نہ یہ کہنے کا سے حق ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہ کرنا چاہیے، البتہ یہ اس کا فرض اور اولین فرض ہے کہ جو کچھ ہم کریں وہ اس کی تصدیق و توثیق کرے، اس پر اجر کی امید دلائے، اس پر چسپاں کرنے کے لئے اپنی کوئی نہ کوئِ اصطلاح مستعار دے، اور اس میں ہمارا ساتھ نہ دینے والوں کو جہنم کا راستہ دکھائے، اس کے لئے ہم جو کچھ کریں گے اسی پر قوم کا بچنا موقوف ہے، اور قوم ہی نہ رہی تو یہ اسلام صاحب آخر رہیں گے کہاں! یوں اس تحریک میں اسلام سے وہ خدمت لی گئی جو بگڑے نواب زادے اپنے خاندان کے کسی پرانے جاں نثار ملازم سے لیا کرتے ہیں۔ مشورہ اور نصیحت اس کا کام نہیں ہوتا۔ میاں لوگ اپنی مرضی سے جو چاہیں کریں۔ مگر آڑے وقت میں بوڑھے خادم کو پکارا جاتا ہے کہ آؤ اور حق نمک ادا کرو۔ پھر اگر وہ غریب ان حرکات پر صبر نہیں کر سکتا جن کی وجہ سے برے وقت آتے ہیں اور بے چین ہو کر کبھی کہہ بیٹھتا ہے کہ صاحب زادے اپنے اطور ٹھیک کرو تو اسے ڈانٹ دیا جاتا ہے کہ ایاز قدر خود بشناس، تو اپنے کام سے کام رکھ، تیری یہ حیثیت کب سے ہو گئی کہ ہمارے معاملات میں دخل دے۔ (لیگی قیادت اور کارکنان پر اسلام سے دوری اور لاتعلقی کا موقف نوٹ کریں)

یہ تھیں وہ بنیادیں جن پر ہماری یہ قومی تحریک روز اول سے اٹھی اور آخر تک بڑھتی چلی گئی۔ اس کے اجزا ترکیبی میں مومن اور منافق اور کھلے کھلے ملحد سب شامل تھے۔ بلکہ دین میں جو جتنا ہلکا تھا وہ اتنا ہی اوپر آیا (کیا یہ اشارہ قائداعظم اور لیاقت علی خان کی طرف نہیں ہے جو سب سے اوپر ابھرے تھے؟)۔ اس میں اخلاق کی سرے سے کوئی پوچھ نہ تھی۔ عام کارکنوں سے لے کر بڑے سے بڑے ذمہ دار لیڈروں تک میں انتہائی ناقابل اعتماد سیر کے لوگ موجود تھے، بلکہ تحریک کا قدم جتنا آگے بڑھا اس قسم کے عناصر کا تناسب بڑھتا ہی چلا گیا۔ اس میں اسلام کو اتباع کے لئے نہیں بلکہ صرف عوام میں مذہبی جوش پیدا کرنے کے لئے فریق جنگ بنایا گیا تھا۔ کبھی ایک دن کے لئے بھی اس کو یہ حیثیت نہیں دی گئی کہ وہ حکم دے اور یہ اسے مانیں، اور کوئی قدم اٹھاتے وقت یہ اس سے استصواب کریں۔

پھر چونکہ مقابلہ ہندو سے تھا اس لئے یہ بھی ضروری تھا کہ اس کے ہر حربے کا جواب ویسے ہی حربے سے، ہر چوٹ کا جواب ویسی ہی چوٹ سے اور ہر چال کا جواب ویسی ہی چال سے دیا جائے۔ جن جن پستیوں میں وہ گرا مسلمان بھِ اس کی ضد میں گرے، اور جو جو کچھ وہ اپنی قومی خود غرضیوں کی خاطر کرتا گیا، مسلمانوں نے اس دلیل پر اس کا ارتکاب کیا کہ ہندو ایسا کر رہا ہے۔ اس مقابلہ و مسابقت نے مسلمانوں کی اخلاقی سطح اتنی گرا دی کہ شاید اس سے پہلے وہ کبھی اخلاقی حیثیت سے اتنے نہ گرے تھے۔

اس سارے نامہ اعمال میں اگر کسی چیز کو نفع کے خانہ میں رکھا جا سکتا ہے تو وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ انہوں نے کم از کم آدھے مسلمانوں کو تو بچا لیا اور ان کی ایک قلمی ریاست بنوا دی۔ لیکن افسوس کہ اس ”روشن“ کارنامے کو بھی ہم بدترین غلطیوں سے داغدار پاتے ہیں اور بری طرح ان کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔

جیسا کہ ہم ابتدا میں کہہ چکے ہیں، دس سال پہلے مسلمانوں کے سامنے یہ سوال آیا تھا کہ وہ ہندو امپیرلزم کے تسلط سے اپنے آپ کو کیسے بچائیں۔ اس سوال کا ایک حل یہ پیش کیا گیا تھا کہ اسلام کے اصولوں اور اسلامی سیرت سے اس خطرے کا مقابلہ کیا جائے۔ مگر اس حل نے مسلمانوں کو اپیل نہ کیا اور وہ اسے آزمانے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ اب یہ بحث بیکار ہے کہ اسے آزمایا جاتا تو کیا ہوتا۔

دوسرا حل جو پیش کیا گیا وہ یہ تھا کہ قومیت کی بنیاد پر سیاسی جنگ لڑی جائے۔ اسی حل کو مسلمانوں نے قبول کیا اور اپنی ساری قومی طاقت، اپنے تمام ذرائع اور اپنے جملہ معاملات اس قیادت کے حوالہ کر دیے جو ان کے قومی مسئلے کو اس طرح حل کرنا چاہتی تھی۔

دس برس کے بعد آج اس کا پورا کارنامہ ہمارے سامنے ہے اور ہم دیکھ چکے ہیں کہ اس نے کس طرح، کس صورت میں ہمارے مسئلے کو حل کیا۔ جو کچھ ہو چکا ہے وہ تو امٹ ہے، اب اسے بدلا نہیں جا سکتا۔ اس پر اس حیثیت سے تو بحث بیکار ہے کہ یہ نہ کیا جاتا تو کیا ہوتا۔ البتہ اس حیثیت سے اس پر بحث کرنا ضروری ہے کہ جو مسائل اب ہمیں درپیش ہیں، کیا ان کے حل کے لئے بھی وہی قیادت موزوں ہے جو اس سے پہلے ہمارے قومی مسئلے کو اس طرح حل کر چکی ہے؟

کیا اس کا اب تک کا کارنامہ یہی سفارش کرتا ہے کہ اب جو بڑے بڑے نازک مسائل ہمارے سر پر آپڑے ہیں، جن کا بیشتر حصہ خود اسی قیادت کی کارفرمائیوں کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے، انہیں حل کرنے کے لئے ہم اس پر اعتماد کریں؟”

یہ تھا سید مودودی کا مضمون۔ آپ نے نوٹ کیا کہ سید مودودی بتا رہے ہیں کہ انہوں نے جو حل پیش کیا تھا، مسلمانوں نے اس کو قبول کرنے کی بجائے قائداعظم کے حل کو قبول کیا، اور وہ دو قومی نظریے اور قیام پاکستان کو نہایت طنزیہ انداز میں ”روشن کارنامہ“ قرار دیتے ہوئے سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا اب اسی قیادت پر اعتماد کیا جانا چاہیے جس پر پہلے کیا تھا یا دوسری قیادت، یعنی دوسرا حل پیش کرنے والی قیادت، پر اعتماد کیا جائے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments