جنوبی وزیرستان میں دو مسلح قبائلی لشکر آمنے سامنے کیوں ہیں؟


جنوبی وزیرستان

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلعے جنوبی وزیرستان میں دو قبائل کے درمیان زمین کے تنازعے پر پرتشدد چھڑپوں میں ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں۔ یہ جھڑپیں گذشتہ دو ہفتوں سے جاری ہیں تاہم اس میں ایک عارضی تعطل بھی آیا ہے۔

جنوبی وزیرستان میں دو قبائل کے افراد منگل کی شام اچانک ایک مرتبہ پھر مورچہ بند ہو کر لڑائی کے لیے ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ گئے۔ مگر چار خواتین قرآن لیے درمیان میں آئیں اور انھوں نے دوبارہ فائرنگ نہ کرنے کی اپیل کی، جس پر وقتی طور پر دو ہفتوں سے جاری اس فائرنگ کا سلسلہ تھم گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جب قبائلی جنگجوؤں نے کشمیر پر دھاوا بولا

پی ٹی ایم کارکنوں کی ہلاکتیں، پارلیمانی کمیشن کا مطالبہ

ضلع کرم میں جھڑپیں: ‘معاملہ زمین کی ملکیت کا ہے، فرقہ وارانہ نہیں’

کشیدہ صورتحال میں قرآن اٹھائے خواتین کیوں سامنے آئیں؟

یہ صورتحال منگل کو اس وقت پیش آئی جب انتطامیہ کے ساتھ مذاکرات کے بعد دوتانی قبیلے کے ارکان انتظامیہ کا فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے مخالف قبیلے کے خلاف مورچہ بند ہو گئے۔ انتظامیہ نے دوتانی قبیلے کے خلاف کارروائی کا بھی عندیہ دیا ہے۔ تاہم زلی خیل وزیر قبیلے کے لوگوں نے بھی اپنے مورچے سنبھالے لیے جس سے حالات پھر کشیدہ ہو گئے ہیں۔

مقامی پولیس اہلکاروں نے بتایا کہ جب حالات خراب ہوئے تو چار خواتین دونوں مسلح قبائل کے درمیان فائرنگ روکنے کے لیے قرآن لے کر آ گئیں۔ اس مقامی روایت کے مطابق ان علاقوں میں جب قبائل کے درمیان کشیدگی بڑھتی ہے تو پھر خواتین درمیان میں آجاتی ہیں جن کی عزت کے لیے بعض اوقات بڑی کشیدگی بھی روک دی جاتی ہے۔

‘قرآن کی خاطر مہلت دے دی’

زلی خیل وزیر قبیلے کے ملک سعداللہ خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ان خواتین کو انھوں نے یقین دہانی کرائی کہ صبح دس بجے تک ان کی طرف سے فائر نہیں ہو گا کیونکہ دوسری جانب دوتانی قبیلے کے افراد مورچے سنبھالے بیٹھے ہیں۔

انھوں نے تصدیق کی کہ قرآن کی خاطر انھوں نے یہ مہلت دی ہے۔

ملک سعداللہ نے کہا کہ یہ ان کی روایت ہے اور وہ اس پر عمل کریں گے لیکن ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ ان کے لوگ مورچوں میں موجود رہیں گے۔

دوتانی اور زلی خیل وزیر قبیلے کا تنازع کیا ہے؟

پاکستان میں مختلف قبائل کے درمیان زمین کی ملکیت پر تنازعات پاکستان بننے سے پہلے یعنی انگریز دور سے چلے آ رہے ہیں، ان ہی میں سے ایک یہ تنازع ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ شدت اختیار کر گیا ہے۔

دوتانی اور زلی خیل وزیر قبیلے کے افراد کے درمیان زمین کی ملکیت پر دو ہفتوں سے جاری کشیدگی کے دوران دونوں جانب سے فائرنگ اور مکانات کو آگ لگانے کی اطلاعات بھی موصول ہوتی رہی ہیں۔

پولیس کے مطابق ان دو ہفتوں میں دونوں جانب کے چار افراد ہلاک اور تین زخمی ہوئے ہیں۔

جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا میں دوتانی اور وزیر قبائل کے مابین کرکنڑہ کی ملکیت کا تنازع ہے، جو اب پیچیدگی اختیار کر گیا ہے۔ مقامی لوگوں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ دوتانی قبیلے اور زلی خیل قبائل کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا۔ یہ معاہدہ پاکستان بننے سے پہلے ہوا تھا، جس میں ان قبائل کے درمیان زمین کی ملکیت کا ذکر موجود ہے۔

قبائلی علاقوں میں جو زمین جس قبیلے یا قوم کی ہوتی ہے ان کے دستاویز کو مثل کہا جاتا ہے اور پھر اس مثل کے اندر جلد یا باب ہوتے ہیں جس میں سب کچھ درج ہوتا ہے کہ کس علاقے میں کونسا قبیلہ آباد ہے اور ان اس علاقے میں زمین کتنی ہے، پہاڑ کتنے ہیں اور اس کی ملکیت کس کی ہے۔

یہ علاقہ گومل روڈ پر گومل زام ڈیم کے قریب واقع ہے اور اس میں کرکنڑہ کا علاقہ بھی شامل ہے۔

ایسی اطلاعات ہیں کہ کچھ عرصے قبل اس مثل میں تقسیم کے معاہدے میں کچھ ردو بدل کی گئی ہے۔ ان دو قبائل میں سے ایک انگریز دور کی تقسیم پر راضی ہے جبکہ دوسرا قبیلہ موجودہ تقسیم کے حق میں ہے۔

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے سماجی رہنما نور خان محسود نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ راستہ تنائی سے آگے دو رویہ ہے، جن میں ایک مدی جان روڈ اور دوسرا گومل روڈ ہے۔ گومل روڈ انگریز دور سے بند تھا اور اس روڈ سے کسی بھی قبیلے کے لوگ سفر نہیں کر سکتے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں جب گومل زام ڈیم کی تعمیر شروع ہوئی تھی تو اس کے لیے زمین مقامی قبائل نے دی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تنازع اتنا گھمبیر نہیں ہے کہ حل نہ ہو سکے۔ اگر حکومت اور مقامی انتظامیہ چاہے تو جرگے میں یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔

حالیہ کشیدگی کیسے طول اختیار کر گئی؟

پولیس کے مطابق 17 فروری کو وزیر قبیلے کا جرگہ جاری تھا کہ اس دوران ایک ایمبولینس وہاں سے گزری جسے روکا گیا اور وہاں لوگوں نے دوتانی قبیلے کے لوگوں کا پوچھا تو اس پر تلخ کلامی ہوئی اور وہاں موجود لوگوں نے ایمبولینس کو آگ لگا دی۔

اس کشیدہ صورتحال میں دوتانی قبیلے کے ایک شخص کو لوگوں نے پکڑ لیا اور دوسرے شخص نے قریب سپین تھانے میں پناہ حاصل کی۔ اس کے بعد دونوں جانب سے لوگ مشتعل ہوئے اور فائرنگ شروع کر دی گئی، جس میں دونوں جانب ہلاکتوں اور زخمی ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

ایسی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں کہ دونوں قبائل نے بھاری ہتھیاروں کے حصول کے لیے بھی کوششیں تیز کر دی ہیں۔

تنازع کے حل کے لیے حکومت کیا کر رہی ہے؟

مقامی لوگوں نے بتایا کہ چند روز پہلے جب دونوں جانب سے فائر بندی کی گئی تھی تو دونوں قبائل نے اپنے ایک تحریری معاہدے پر دستخط کیے تھے کہ جنگ وجدل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انگریز دور حکومت کے لینڈ ریکارڈ (مثل) کے مطابق کرکنڑہ کی ملکیت کے تنازع کا حل نکالیں گے۔

تین دن قبل زلی خیل قبائل نے مذاکراتی ٹیم کو انگریز دور حکومت کے مثل کے مطابق تنازع کو حل کرانے پر یقین دہانی کروائی۔ لیکن جب مذاکراتی ٹیم دوتانی قبائل کے ہاں مذاکرات کرنے پہنچی تو دوتانی قبائل نے مثل ماننے سے صاف انکار کردیا، جس کے بعد مذاکراتی ٹیم نے تمام صورتحال سے مقامی انتظامیہ کو آگاہ کردیا۔

اطلاعات کے مطابق انتظامیہ نے دوتانی قبائل کو معاہدے کی پاسداری نہ کرنے کی پاداش میں کارروائی کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ دوتانی قبیلے کے لوگوں نے احتجاج کے طور پر وانا کو ڈیرہ اسماعیل خان سے ملانے والی شاہراہ کو بدھ کی صبح سے بند کرنے کا اعلان کیا ہے اور لوگوں سے کہا ہے کہ کہ اس روڈ کو استعمال کرنے والے اپنے نقصان کے خود ذمہ دار ہوں گے۔

اطلاعات کے مطابق اس تنازع کے حل کے لیے مقامی انتظامیہ نے اب تک ٹھوس اقدامات نہیں کیے، جس وجہ سے یہ معاملہ شدت اختیار کر گیا ہے۔

اس بارے میں جنوبی وزیرستان کے رکن صوبائی اسمبلی نصیر اللہ خان، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر سے رابطے کی بارہا کوشش کی گئی لیکن ان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32550 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp