ریپ کے مقدمے میں ریمارکس پر انڈیا کے چیف جسٹس سے مستعفی ہونے کا مطالبہ


سپریم کورٹ

انڈیا کی چار ہزار سے زیادہ خواتین، طلبہ، وکلا، فلم سازوں اور ممتاز شہریوں نے ریپ کے ایک ملزم سے یہ پوچھنے پر کہ کیا وہ متاثرہ لڑکی سے شادی کے لیے تیار ہے ملک کے چیف جسٹس اے ایس بوبڈے سے ریمارکس کو واپس لینے اور مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔

چیف جسٹس ایس اے بوبڈے نے پیر کو ریپ کے ایک ملزم کی گرفتاری سے تحفظ کی درخواست کی سماعت کے دوران اس سے پوچھا تھا کہ کیا وہ متاثرہ لڑکی سے شادی کے لیے تیار ہے؟ ملزم ایک سرکاری ملازم ہے اور اس پر کچھ عرصہ پہلے ایک نابالغ لڑکی کے ریپ اور اسے دھمکانے کے الزامات ہیں۔

جسٹس بوبڈے نے کہا تھا کہ ‘اگر آپ شادی کے لیے تیار ہیں تو ہم آپ کی مدد کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر نہیں کر سکتے تو آپ کو اپنی ملازمت کھونی پڑے گی اور جیل جانا ہو گا۔ آپ نے لڑکی کو سیکس کے لیے ورغلایا اور اس کا ریپ کیا۔’

ملزم پر الزام ہے کہ اس نے متاثرہ لڑکی کا اس وقت ریپ کیا تھا جب وہ ابھی نابالغ تھی اور جب اس نے پولیس سے شکایت کی تو ملزم کی ماں نے سمجھوتے کے طور پر لڑکی کے بالغ ہونے پر اس سے اپنے بیٹے کے ساتھ شادی کی پیشکش کی اور ایک معاہدہ طے پایا۔ لیکن بالغ ہونے کے بعد ملزم نے اس سے شادی کرنے سے انکار کر دیا اور دوسری لڑکی سے شادی کر لی۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا: ریپ معاشرے کی بےحسی کا عکاس

’شادی کے وعدے پر سیکس ہمیشہ ریپ کے زمرے میں نہیں آ سکتا‘

انڈیا: گینگ ریپ کی شکایت پر پولیس کے غیرمہذب سوال

خواتین کی تنظیموں نے سخت الفاظ کے ایک کھلے خط میں لکھا ہے کہ ‘اس طرح کے ریمارکس سے چیف جسٹس جیسے عظیم عہدے سے دوسری عدالتوں، ججوں اور پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے سبھی اداروں کو یہ پیغام گیا ہے کہ انڈیا میں انضاف خواتین کا آئینی حق نہیں ہے۔ اس سے ملک میں خواتین اور لڑکیوں کی آواز کو اور بھی دبایا جائے گا۔ ریپ کرنے والوں کو اس سے یہ پیغام ملتا ہے کہ شادی ریپ کا لائسنس ہے ۔اور اس لائسنس کے ذریعے ریپسث بعد میں اپنے جرم کو ختم کر سکتا ہے اور اسے قانونی شکل دے سکتا ہے۔’

البرٹینا المائڈا نے ‘دی وائر’ ویب پورٹل پر ایک تجزیے میں لکھا ہے کہ ‘انڈیا میں خواتین کی تنظمیں اور بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپس اس امر سے متفق ہیں کہ ریپ کے معاملے میں سزایاب ہونے یا لمبی قید سے بچنے کے لیے متاثوہ لڑکی سے شادی کرنا مرتکبین کا پرانا حربہ رہا ہے۔ یہ حربہ سماج میں ریپ سے متعلق اس سوچ کا فائدہ اٹھا کر استعمال کیا جاتا ہے جس میں متاثرہ لڑکی کو ایک زندہ لاش تصور کیا جاتا ہے۔ یعنی شادی کو ریپ کی اذیت اور جسمانی بے حرمتی کے معاوضے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔’

خواتین کی تنطیموں نے اس خط میں ایک دوسرے کیس میں چیف جسٹس کے اس ریمارکس پر بھی سخت اعتراض کیا ہے جس میں انھوں نے پوچھا تھا کہ ‘کیا قانونی طور پر شادی شدہ مرد خواہ وہ بے رحمی سے ہی کیوں نہ پیش آئے، اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جنسی فعل کو ریپ کہا جا سکتا ہے؟ اس ریماکس سے نہ صرف شوہر کے ذریعے ہر قسم کے جنسی، جسمانی اور ذہنی تشدد کو جواز فراہم کیا ہے بلکہ اس سے شادی شدہ زندگی میں خواتین کو برسوں سے کسی قانونی تحفظ کے بغیر درپیش اذیت کوبھی نارمل قرار دے دیا گیا ہے۔ اس خط پر دستخط کرنے والوں میں خواتین کے حقوق کی معروف علمبردار کملا بھسین، میرا سنگھ مترا، ذکیہ سمن، کویتا کرشنن، اینی راجہ اور میمونہ ملا شامل ہیں۔

خط میں لکھا ہے کہ ‘اس بات سے انتہائی تکلیف پہنچ رہی ہے کہ سیکس کے لیے ورغلانے، ریپ اور شادی کے معنی کی وضاحت کرنے کی ذمے داری خواتین پر ہی عائد ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ چیف جسٹس کے سامنے بھی جو آئین کی تشریح کے مجاز ہیں اور فیصلے کرتے ہیں۔’

خواتین نے لکھا ہے کہ ‘اب بہت ہو گیا۔ آپ کے الفاظ اور ریمارکس سے عدلیہ کی اتھارٹی اور وقار مجروح ہوا ہے۔ ہم آپ سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ یہ الفاظ واپس لے لیں اور اس ملک کی خواتین سے معافی مانگیں۔ اخلاقیات کا تقاضہ یہی ہے کہ آپ چیف جسٹس کے عہدے سے بلا تاخیر دسبردار ہو جائیں۔’

اس خط کے بعد سوشل میڈیا پر بھی کافی ردعمل سامنے آیا ہے۔ ایک ٹویٹ میں اسمیتا بخشی نے ریپ کے متعلقہ کیس کی تفصیلات دی ہیں اور لکھاہے کہ ‘ان حقائق کے ساتھ سنہ 2021 میں چیف جسٹس ملزم سے یہ پوچھتے ہیں کہ تم متاثرہ لڑکی سے شادی کروگے۔’

آرتی ٹیکو سنگھ نے ایک پیغام میں لکھا کہ ‘انڈیا کا سپریم کورٹ: سنہ 2021 میں اس سے زیادہ عورت مخالف برے حالات نہیں ہو سکتے۔’

ملک کے سرکردہ اخبار دی انڈین ایکسپریس نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ کھلی عدالت میں چیف جسٹس کے اس ریمارکس سے ان بہت سے فیصلوں سے ہونے والی پیش رفت متاثر ہو سکتی ہے جن کے ذریعے برابر کی شہری کے طور پر خواتین کے وقار اور خود مختاری کومستحکم کرنے میں مدد ملی تھی۔ یہ ذمے داری اب ‏عدالت پر ہے کہ وہ نقصان کا ازالہ کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp