کیا عمران خان تاریخ میں جگہ بنا سکتے ہیں؟


عمران خان کی اگر پچھلی بائیس سالہ جدوجہد کو دیکھا جائے تو وہ انصاف اور کرپشن کے گرد ہی گھومتی نظر آئے گی لیکن جب اقتدار ملا تو عمران خان کو بھی ان چیزوں کو نظر انداز کرنا پڑا۔ وزیراعظم عمران خان کبھی انصاف کبھی کرپشن تو کبھی موروثی سیاست کے خلاف نعرے لگاتے تھے لیکن اقتدار کے لیے انہیں سب چیزوں کے ساتھ کمپرومائز کرنا پڑا۔ وہ چاہے پرویز خٹک کی صورت میں ہو یا عبدالقادر کی صورت میں ۔ عمران خان نے سینیٹ الیکشن میں ہار کے ڈر سے الیکشن کو اوپن بیلٹ کروانا چاہا لیکن ان کا ڈر یقین میں بدل گیا اور حفیظ شیخ ہار گئے۔

عمران خان اگرچہ بار بار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ سینیٹ الیکشن میں لوگوں کو خریدا گیا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ضمیر کے نام پر کروڑوں میں لوگوں نے ضمیر بیچا ہے لیکن عمران خان ایک اچھا کام برے انداز میں کرنے جا رہے تھے لیکن اب اگر وہی عمل دوسروں نے کیا تو وہ اس بات پر شور مچا رہے ہیں۔ عمران خان صاحب سے اب یہ سوال کرنا چاہیے کہ اس وقت آپ کہاں تھے جب جہانگیر ترین جہاز لے کر آپ کی حکومت بنانے کے لیے لوگ اکٹھے کر رہے تھے ، اس وقت آپ کا انصاف کہاں تھا جب آپ نے صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنایا گیا تھا۔

اس وقت عمران خان نے جمہوریت اور کرپشن کا نعرہ نہیں لگایا۔ عمران خان نے اپنے ہی نظریے کو پس پشت ڈال دیا ہے اور ہر بات سے یوٹرن لینا ہی سیکھ رکھا ہے اور پھر اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ لیکن اگر آپ نے اقتدار حاصل کرنے کے لیے ایسا سب کچھ کیا لیکن آپ کو اپنے نظریے کے ساتھ کمپرومائز نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اقتدار حاصل کرنے کے لیے عمران خان نے اگر اس گیٹ نمبر 4 کے روٹ کو اپنایا تو ٹھیک کیا ، اس کی افادیت اور اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ نہ تو ہم ساؤتھ افریقی ہیں اور نہ ہی عمران خان نیلسن منڈیلا ہیں۔

عمران خان صاحب نامور تو پہلے بھی تھے اور ان کا نعرہ بھی مشہور تھا لیکن آپ نے جس طرح اقتدار حاصل کیا اور اپنی حکومت کو ان الیکٹ ایبلز پر بل پر بنایا جو کہ اس ہارس ٹریڈنگ کے ماہرین ہیں ۔

عمران خان نے اگرچہ اپنے سیاسی شعور کی بناء پر دونوں بڑے محاذوں پر جنگ چھیڑ رکھی ہیں تو مصلحتاً پیپلز پارٹی کو سپیس دینا پڑے گی اور صوبہ جنوبی پنجاب کے معاملے میں حمایت حاصل کرنا ہو گی اور الیکشن کے دوران کیے گئے اپنے اس  وعدے کی تکمیل کرنا ہو گی اور دوسرا عثمان بزدار کو صوبہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ رکھنے کے معاملے کو بھی دیکھنا پڑے گا۔

یہی طریقہ مسلم لیگ نواز کو روکنے میں معاون ثابت ہو گا ورنہ ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی کارکردگی آپ کے سامنے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو اب سیاسی داؤ پیچ سیکھنا پڑیں گے اور اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد سب سے پہلی تبدیلی اپنے اندر لانا پڑے گی ، استقامت حاصل کرنا پڑے گی اور دفاعی انداز کی بجائے فرنٹ فٹ پر آ کر کھیلنا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments