اعتماد کا ووٹ اور مستقبل


وزیراعظم عمران خان اعتماد کا ووٹ لینے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور وزیراعظم بنتے وقت ان کے پاس ووٹوں کی تعداد 176 تھی جبکہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرتے ہوئے ووٹوں کی تعداد 178 ہو گئی جس میں فیصل واوڈا اور اسد قیصر شامل نہیں ہیں۔ اس میں وہ سترہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے ضمیروں کی منڈی میں اپنا ضمیر بیچ کر اپنا سیاسی مستقبل کو تباہی کے دھانے پر لانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی ہے۔ اور ان لوگوں نے دس بارہ کروڑ کے عوض اپنا ضمیر بیچا ہے اور اب اس کے علاوہ ان کو اور مفاد اپوزیشن دینے والی بھی نہیں ہیں۔

عمران خان کا اعتماد کا ووٹ لینا ایک دلیرانہ فیصلہ تھا اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوئے اور انہیں ان بکاؤ لوگوں سے بھی ووٹ لیا جو کہ ایک خوش آئند بات ہیں کیونکہ عوام نے ووٹ عمران خان کو دیا تھا اور وہ لوگ رکن قومی اسمبلی بھی عمران خان کی الیکشن کیمپین سے ہی بنے تھے۔ ان حالات میں مسلم لیگ نون کا ایک نیا چہرہ سامنے آیا ہے جو کہ ایک طرف ضمیروں کی منڈی لگانے والوں کی حامی کے طور پر اور دوسری طرف یہ کہتے ہیں کہ جنہوں نے ضمیر بیچا ہے ان لوگوں سے اعتماد کا ووٹ حاصل نہ کیا جائے۔

اور ماضی میں مریم بی بی نے جس طرح الیکش کمیشن پر تابڑ توڑ حملے کیے تھے آج وہ اسی الیکشن کمیشن کے راگ آلاپتے نہیں تھک رہی ہیں۔ اب اس بات پر غور کرنے کا وقت آ گیا ہے کہ عمران خان نے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا ہے اور اب جو ایک نئی جوڑ توڑ اور نیا بازار گرم ہے وہ چیئرمین سینیٹ بنوانے کے پیچھے ہیں اور اسی الیکشن سے پہلے اپوزیشن نے اتحاد بنایا تاکہ وہ حکومت گرا سکے کیونکہ اگر عمران خان اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اپوزیشن کو واقعی ہی دیوار میں چنوا دیا جائے گا اور ایسے سخت اقدامات کیے جائے گے جو ان کی سیاست کا قلع قمع کریں گے۔

اور اگر عمران خان اس میں ناکام ہو جاتے ہیں تو پھر اپوزیشن کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی اپنی مرضی کے قوانین لانے کے لیے اور جس کا وہ ایک لمبے عرصے سے انتظار کر رہے تھے وہ اس میں کامیاب ہو جائے گے لیکن آج عمران خان نے جب قومی اسمبلی میں خطاب کیا توعمران خان نے پارلیمنٹ کے باہر ہونے والی غیر جمہوری بات کی مذمت تک نہیں کی بلکہ عمران خان پھر سے اپنی بات پر ڈٹے ہوئے ہیں اور انہوں نے پھر سے نواز شریف اور آصف زرداری پر تابڑ توڑ حملے کیے اور وہی پھر سے این آر او نہیں دوں گا کا راگ آلاپا۔ لیکن عمران خان کو اپنے اردگرد بھی دیکھنے کی ضرورت ہے جو ان کے اپنے لوگوں میں چینی، ادویات، گندم، پیٹرول، آئی پی پیز کے معاملات میں چور، ڈاکوں، لٹیرے بیٹھے ہوئے ہیں۔ عمران خان کو اپنے نظریہ کو دوبارہ یاد کرنا ہوگا اور اس اعتماد کے ووٹ سے گورنینس پرفارمنس سیکھنی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments