کورونا کی عالمی وبا کے دنوں میں پاکستان کی مادری زبانوں کا ادب


(اس مضمون کا متن انڈس کلچرل فورم کی جانب سے 21 فروری کو اسلام آباد میں منعقدہ پاکستان کی مادری زبانوں کے ادبی میلے میں پیش کیا گیا، جو معمولی ترامیم کے ساتھ ’ہم سب‘ کے قارئین کے لئے حاضر ہے۔ تاہم یہ ایک سرسری جائزہ ہے جو کسی بھی صورت پاکستان کی مادری زبانوں میں ہونے والے کام کی مکمل عکاسی نہیں کرتا۔ یہ موضوع ایک مفصل اور جامع تحقیق کا متقاضی ہے جس کے لئے یہ مضمون ناکافی اور نامکمل سمجھا جائے۔ )

گزشتہ پورے سال ہم نے اپنے عہد کی سب سے بڑی آفت یعنی کورونا کا مقابلہ کیا اور دنیا کی اس مشکل ترین گھڑی میں کئی طرح کا تخلیقی اظہار بھی سامنے آیا۔ ادیب اور شاعر جو ہمارے سماج کے سب سے زیادہ حساس افراد ہوتے ہیں انہوں نے اس آفت میں کیا محسوس کیا، محسوس تو اس عالمی وبا اور اس کے اثرات کو ہم سب نے کیا لیکن انہوں نے لکھا اور اب جو ان تخلیقات کی اشاعت ہوئی ہے تو یہ اس دور ابتلا کی تاریخی دستاویزات بن گئی ہیں۔

درحقیقت اس عالمی وبا نے دنیا کو بہت زیادہ تبدیل کر دیا ہے، ان تبدیلیوں میں سے کچھ مثبت اور کچھ منفی ہیں۔ جیسا کہ ہم سب کو احساس ہوا کہ ہم کو سماجی دوری نہیں چاہیے لہٰذا سماجی دوری کے اصطلاح کے استعمال پر خاص طور پر حساس دل افراد نے اعتراض کیا اور اس کو سماجی دوری (social distancing) کے بجائے جسمانی دوری (physical distancing) کہنے پر زور دیا۔

وبا کی اس مشکل ترین گھڑی میں بلاتخصیص زبان جو فوری اور مضبوط تخلیقی اظہار سامنے آیا وہ شاعری کی صورت میں تھا۔ ادب کی باقی اصناف جیسا کہ افسانے، ناول اور ڈائریاں بھی سامنے آئیں۔ لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ یہ اصناف وقت طلب ہیں اسیے میں کہہ سکتے ہیں کہ اول اول شاعری اور اب پورا برس گزرنے پر افسانے اور ناول بھی شائع ہوچکے ہیں۔

اس گفتگو میں توجہ مکمل طور پر مادری زبانوں کے اس ادب پر رہے گی جس میں تخلیق کاروں نے کووڈ۔ 19، قرنطینہ اور لاک ڈاؤن کے دوران کی کیفیات کو اپنا موضوع بنایا۔ خود کو اشرف المخلوقات اور ترقی یافتہ سمجھنے والے انسان پر طاری موت کے خوف اور زندہ رہ جانے والوں پر اس کے حملے کے مدنظر جو بے بسی تھی اس کا اظہار پرزور طریقے سے سامنے آیا۔ اس دوران لکھے جانے والی تخلیقات پر نظر ڈالی جائے تو بہت سے موضوعات کے نئے زاویے سامنے آئے۔

جن میں تنہائی، لاک ڈاؤن، سماجی فاصلہ، موت کی ارزانی قابل ذکر ہیں۔ اس دوران لکھے گئے ادب کی اہم خصوصیت تنہا ہونے کے حوالے سے یکساں نکتہ فکر ہے۔ کچھ نئے الفاظ ہماری روز مرہ کی زبان کا حصہ بن گئے جس میں قرنطینہ جو ہم نے بچپن سے آج تک نہیں سنا تھا، سب سے نمایاں رہا۔ اسی طرح سماجی فاصلہ یہ بالکل نئی اصطلاح ہے ہے جو پاکستانی زبانوں کے ادب میں شامل ہوا۔ تاہم جیسے انگریزی میں سماجی اور جسمانی فاصلے کے لئے الگ الگ اصطلاحات کا استعمال سامنے آیا لیکن ہماری زبانوں میں جسمانی دوری یا فاصلے کا استعمال اتنا موزوں نہیں لگا۔

محبت اور ہجر ہمیشہ سے شاعری اور ادب کا موضوع رہا ہے، لیکن کرونا کے زمانے کا ہجر الگ طرح کا ہجر تھا، جو معاشرے اور خاندان کے بجائے کبھی کبھار سیلف ایمپوز بھی تھا۔ بلاتخصیص زبان سماجی حسیت، تہذہبی شعور اور تنہائی کے موضوعات سرفہرست رہے، تبدیلی کا عنصر جس میں سماجی رویوں میں تبدیلی سے لے کر ذاتی طریق میں بھی تبدیلی، حالات سے سمجھوتہ کرنا شامل ہے موضوع ادب بنے۔ اسی طرح ادیب و شاعر جو ہمارے معاشرے کا حساس دل اور بالغ نظر رکھتا ہے وہ وبا کے دنوں میں حکومت کے فیصلوں، انتظامات و اقدام پر بات کرتے نظر آئے۔

اس گفتگو کے لئے مختلف زبانوں میں شائع ہونے والے ادب پر سرسری نظر دوڑانے اور مختلف زبانوں کے احباب سے اکٹھی کی گئی معلومات سے معلوم ہوا کہ لٹریری فورم آف نارتھ امریکہ نے اپنے میگزین گوشوارہ کا خصوصی قرنطینہ ایڈیشن شائع کیا، جس میں فورم کے فیس بک پیج پر معروف شاعروں کی شائع ہونے والی اردو شاعری کا انتخاب شامل ہے۔

مذکورہ مجموعے میں اردو زبان کے شاعر ثاقب ندیم کہتے ہیں۔
آٹھواں دن ہے
ہر ایک دن میں
سو سو سال
جیا ہے میں نے
لمبی عمروں کا جرمانہ
دو ہفتوں کا قرنطینہ۔
اسی موضوع پر اردو زبان کی شاعرہ ثروت زہرا کہتی ہیں۔
میں مری نہیں ہوں
مگر سانس روک کر دیکھنا چاہتی ہوں
وقفۂ خواب میں
آب و گل جیسی
آدھی مگر پوری ملاقاتیں۔
اردو زبان کی معروف شاعرہ فاطمہ حسن سوال کرتی ہیں کہ کیا محبت کے بغیر جیا جاسکتا ہے؟
خوشبو، ہوا، خواب اور یاد کو
مقفل نہیں کیا جاسکتا
زندہ رہنے کے لیے دریچے بھر ہوا
ضروری ہے
اور سانس بھر محبت بھی

اسی طرح پاکستان کی مختلف مادری زبانوں کے احباب کے ساتھ گفتگو اور انڈس کلچرل فورم کی جانب سے آن لائن پروگراموں کے ایک سلسلے کا جائزہ لینے پر معلوم ہوا کہ مختلف پاکستانی زبانوں میں کئی شاعروں نے اسی موضوع پر طبع آزمائی کی ہے۔ (ترجمے کی خامیوں پر پیشگی معذرت کے ساتھ چند مثالیں درج ذیل ہیں ) ۔

پشتو زبان کے شاعر اقبال حسین افکار نے لکھا کہ:
انسان کتنا بے بس، کتنا مجبور ہے
ایک عجیب کیفیت سے دوچار ہے
بازار سنسان، سڑکیں ویران
ہر سو موت جیسی خاموشی ہے۔
سرائیکی زبان کے معروف شاعر عزیز شاہد نے لکھا
کہا کہوں یار کیا بھول گئے ہیں
آئی ایسی وبا کہ بچھڑ گئے ہیں
بلوچی زبان کے شاعر صمد خان نے حالات سے سمجھوتے کو اچھوتے درد کے ساتھ اپنی محبوبہ سے بیان کیا۔
میری دلکش حسینہ
کورونا وائرس چھیننے آ گیا ہے
تم خود کو سنبھالو۔
بلوچی زبان کے شاعر نے حکومتی اقدام کے حوالے سے لکھا کہ
کورونا ایک وبال ہے، نہ جانے کب تک چلے
پوری دنیا کی مارکٹیں بیٹھ گئیں
ملکوں کو چاہیے کہ سکیورٹی کو ایک جانب رکھ دیں
اور عوام کی صحت پر توجہ دیں۔
اسی حوالے سے اردو کے شاعر فہیم شناس کاظمی نے کہا
عالم پناہ!
خیر سے بیدار ہو گئے
عالم پناہ!
کہاں آپ چل دیے
رستے تمام بند ہوئے۔ دیر ہو گئی
یہ وقت ہے عجب
کہ مشکل بڑی ہے یہ
شاہی محل کے پار تو دنیا بدل چکی
اور اسپ شاہ گام تو سب جاٹ لے گئے
عالم پناہ!
شہر تو برباد ہو گیا۔
پنجابی زبان کی معروف شاعرہ ثروت محی الدین نے امید کی ایک نئی جوت جگائی اور لکھا
اپنے اندر جھانک کر دیکھا تو گھپ اندھیرا تھا
خاموشی اور اور ویرانی کا ڈیرا تھا
جب اوپر دیکھا تو آسمان کا رنگ نیلا تھا۔
تو سوچنے لگے ہیں
کہ زندگی جی بھی تو سکتے ہیں
کھلکھلاتے پھول دیکھے
چاروں طرف رنگ دیکھے
تو سوچنے لگے ہیں
کہ جاگتی آنکھوں سے بھی سپنے دیکھ سکتے ہیں
نئی عادات سیکھ سکتے ہیں
نئی زندگی جی سکتے ہیں۔
پنجابی زبان کے صف اول کے شاعر بابا نجمی طب سے متعلق افراد کے شکر گزار نظر آتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ
آسمان سے تارے توڑ کر ان کے لیے ہار بنائیں
جو وبا کے دنوں میں
انسانوں کی خدمت کر رہے ہیں
پشتو زبان کے صف اول کے شاعر رحمت شاہ سائل اپنی نظم کورونا کا سامنا میں کہتے ہیں
کورونا، اے کورونا
تم وبا ہو، آفت ہو یا کوئی بلا
مگر میں بھی ابن آدم ہوں
کل انسانیت کے وجود کا درد وجود۔
میں تم سے جیت جاؤں گا۔

سندھی کے شاعر ادل سومرو نے اٹلی میں ہونے والی تباہی کے پسمنظر میں نئی امید دلائی اور ایک طویل نظم ’سجیں گے میلے وہی میلان کے‘ لکھی جو سندھی زبان میں کافی مقبول ہوئی۔

ماں دھرتی اتنی بوڑھی نہیں تھی
سادے دیس ہیں سامنے آنکھوں کے
ہر دکھی انسان اپنا سا لگنے لگا
یہ اند ر کی بات ہے مگر کیا کیجیے
سانس رہتی ہے اٹکی سندھ میں
زندگی جو بانہوں میں تھی سمٹی ہوئی
دور سے بھی وہ دیکھی نہ جائے ابھی
سانت میں ہے مکہ اور مدینہ بھی
کوئی بیچتا ہی نہیں احرام بھی
حرم کی حیرانی دیکھی ہے عربوں نے
’بچے کا خدا کو خط‘ میں سندھی زبان کے شاعر عزیز گوپانگ لکھتے ہیں
میرے پیارے اللہ میاں!
میرا خط دھیان سے پڑھنا۔
کورونا کی وجہ سے ہمارا اسکول کئی دنوں سے بند ہے
ہم نے ہوم ورک کب کا مکمل کر لیا ہے
اب ہم گھر میں بور ہے رہے ہیں
دل باہر جانے کو بہت بیتاب ہے
مگر امی کہتی ہیں باہر مت جانا یہ جو کورونا ہے بہت بے رحم ہے
اسے بچوں اور بڑوں کا کوئی خیال نہیں
اور ہاں ہمارے ابا بتاتے ہیں کہ اس کا کوئی علاج بھی نہیں
تو پھر میرے پیارے اللہ میاں ایک کام کریں
آپ کورونا کو مار دیں گے تو میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں
میں اپنے آدھے کھلونے آپ کو دے دوں گا
میرے پیارے اللہ میاں!

اب ہم بات کرتے ہیں نثر کی۔ تو سب سے پہلے میں ذکر کرنا چاہوں گی آصف فرخی مرحوم کی ڈائری کا، جو انہوں نے کورونا میں ویڈیو کالم شروع کیا جو ہم سب میں آتا رہا۔ جاتے جاتے انہوں نے اپنے رسالے دنیا زاد کا شمارہ ترتیب دیا جو ان کے انتقال کے بعد شائع ہوا۔ اس میں حمید شاہد کے کورونا کے حوالے سے تین افسانے موجود ہیں، نور الہدی شاہ کا افسانہ ہے، فاطمہ حسن کے دو افسانے ہیں، اس میں بھارت، بنگلہ دیش اور دنیاکی دیگر زبانوں میں کورونا کے حوالے سے لکھی گئی نظم و نثر کے اردو تراجم شامل ہیں۔

مستنصر حسین تاررڑ کا ناول ’شہر خالی، کوچہ خالی۔ کورونا کے شب و روز‘ کے نام شائع ہوا۔ ان کا ایک ناولٹ ’روپ بہروپ‘ کے نام سے شائع ہوا۔

سندھی ادب کی بات کی جائے تو رسول میمن کا ناول ’کتا‘ شائع ہوا۔ ا س ناول میں لوگوں کی کورونا کے دنوں میں بدلنے والی نفسیات اور جذباتی کیفیات پیش کی گئیں۔

اختر حفیظ کا ناول کووڈ۔ 19 منظر عام پر آیا۔ افسانے میں ابراہیم کھرل کی دو کہانیاں، عبدلواحد سومرو کا ناولٹ شائع ہوئے۔ اس کے علاوہ دریا خان، رزاق تھیبو اور مظہر ابڑو کے افسانے بھی منظر عام پر آئے۔ سندھی ادب سے عبدالرحمان پیرزادہ کی کتاب وبا کے دن کا ذکر بھی ضروری ہے۔

پشتو زبان میں ڈاکٹر ہمدرد یوسفزی کے دو افسانے ہیں ایک کا نام ”وبا“ جبکہ دوسرے کا نام کووڈ۔ 19 ہے۔

آیاز اللہ ترکزئی کے افسانوں کی کتاب قرنطین زیر طبع ہے، اس میں کل گیارہ افسانے ہیں جو کہ سب کے سب کووڈ۔ 19 پر مختلف زاویے سے تخلیق کیے گئے۔ اس کے علاوہ زاہد آفریدی نے بھی کووڈ۔ 19 کے عنوان سے ایک افسانہ پشتو میں لکھا۔

براہوئی زبان کی بات کریں تو افضل مراد کے دو افسانے، آخری آدمی اور نوٹوں کی گنتی شامل ہے ان میں کورونا، موت کے رقص کے باوجود لالچ پر بات کی گئی ہے۔

پنجابی زبان میں زاہد حسین کی کہانی کورانٹائیں سامنے آئی۔

اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بین الاقوامی ادب کے اردو اور دیگر زبانوں میں تراجم از سر نو مقبول ہوئے، جن میں گارشیا مارکیز کا ’وبا کے دنوں میں محبت‘ ، کامیو کا ’طاعون‘ سر فہرست ہیں۔ اردو زبان میں حسن منظر کا ناول ’وبا‘ بھی ایک بار پھر مقبول ہوا۔ سرائیکی زبان کے معروف ناول نگار سلیم شہزاد کا ناول ’گھان‘ جو تین چار سال قبل منظر عام پر آیا تھا اس کی نسبت بھی کورونا سے رہی کیوں کہ اس ناول میں لوگوں کو دمے کا مریض اور شہر میں ماسک پہنے ہوئے گھومتا دکھایا گیا ہے۔

آخر میں صرف اتنا کہنا چاہوں گی کہ ہماری مادری زبانوں میں کورونا کے زمانے میں جو ادب لکھا گیا اس میں آغاز میں تو مایوسی اور تنہائی کا اظہار کیا گیا لیکن پورے سال میں ہمارے گزشتہ میلے سے اس میلے تک امید ایک ایسا موضوع ہے جو ابتلا کے باوجود نظر آتا ہے کہ نہیں ہم انسان ہیں جو ہر چیز، ہر مسئلے کے سامنے کھڑے ہیں اور اس سے سرخرو ہو کر نکلیں گے۔

( نصرت زہرا اردو زبان کی مصنفہ، مترجم، ثقافتی اور جمہوری حقوق کی کارکن اور صحافی ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے جمہوری حکمرانی اور ترقیاتی شعبے سے وابستہ رہی ہیں۔ انڈس کلچرل فورم کی سرگرم رکن کی حیثیت میں پاکستان کی مادری زبانوں کے ادبی میلے کے انعقاد میں کلیدی کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments