ڈاکٹر احمد بشیر: تاریخ پڑھانے والے جو تاریخ ہو گئے


 

میں ریٹائرمنٹ کے بعد پنجاب کے سب سے بڑے شہر میں شفٹ ہوا تو جنوبی پنجاب کی ایک معروف یونیورسٹی میں تاریخ کے ایک قابل استاد سے دوران گفتگو میں نے پوچھا کہ کیا وہ یہاں کی یونیورسٹیوں مین جہاں تاریخ بھی پڑھائی جاتی ہے ، وہاں کسی ایسے استاد کو جانتے ہیں جو تاریخ کی تدریس کے بارے میں غیر متعصبانہ علمی رویہ رکھتے ہوں۔ انہوں نے مجھے یہ کہہ کر مایوس کر دیا کہ اب ایسے اساتذہ کہاں۔ بس اب تو پروموشن اور سیلیکشن کی سیاست کرا لو، میں چونکہ ایک یونیورسٹی میں ڈیپوٹیشن پر کچھ عرصہ رہا ہوں اور یونیورسٹی کے اندر کے منظرنامے سے بخوبی آگاہ ہوں اس لئے میں نے ان سے مکمل اتفاق کیا۔

جب میں نے ان سے کہا کہ ماضی میں بھی تو ایسی ہی صورت حال رہی ہے لیکن کوئی نہ کوئی ایسا استاد مل جاتا تھا۔ ان کے ساتھ گفتگو کے دوران مجھے جدید دور کے معروف مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی کے ایک گمنام استاد پروفیسر ڈاکٹر احمد بشیر یاد آئے جن کا تفصیلی تذکرہ انہوں نے اپنی آپ بیتی ”در در ٹھوکر کھائے“ میں کیا ہے جن کا تعلق پنجاب کے شہر قصور سے تھا اور تاریخ کے ایک بے مثال اور بے بدل استاد تھے۔ لندن کی ایک یونیورسٹی سے ”اکبر دی گریٹ مغل“ کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کر کے کراچی یونیورسٹی کو جوائن کیا۔

کچھ عرصہ بعد 1960 کی دہائی کے اوائل میں سندھ یونیورسٹی حیدرآباد سے منسلک ہو گئے۔ جام شورو کیمپس کی تعمیرکا ابھی آغاز ہوا تھا۔ کراچی اور سندھ یونیورسٹیوں نے تاریخ کے دو شعبے جنرل تاریخ اور مسلم تاریخ قائم کر رکھے تھے۔ ڈاکٹر احمد بشیر جنرل ہسٹری کے صدر شعبہ تھے۔ یہی وہ دور تھا جب ڈاکتر مبارک علی ان کے شاگرد تھے۔ تاریخ استاد محترم کا پیشن تھا۔ وہ تاریخ کے حوالے سے لبرل ذہن رکھتے تھے۔

اس درویش صفت استاد کو کتابیں خریدنے اور پڑھنے کا شوق، ولولہ اور جنون تھا۔ جب وہ لیکچر دیتے تو بقول ڈاکٹر مبارک علی علم کا ایک سیلاب تھا جو بہا چلا جاتا تھا۔ انہوں نے اپنی زندگی میں گھر بنایا نہ پلاٹ خریدا اور نہ ہی شعبے میں سیاست کو فروغ دیا بلکہ شعبے میں بہترین علمی و تحقیقی اقدار کو متعارف کرایا۔ تاریخ کے اس روشن خیال استاد نے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہ کیا۔

اس دور میں 70 فیصد سے کم حاضریوں کے حامل طلبا کے امتحانی داخلے روک لئے جاتے تھے۔ ایک سٹوڈنٹ لیڈر کا داخلہ روک لیا گیا تو اس نے وائس چانسلر سے سفارش کرائی تو ڈاکٹر صاحب نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اگر اس کی سفارش مان لی جائے تو باقیوں کا کیا قصور ہے۔ اس کے باوجود اس طالب علم لیڈر نے ڈاکٹر صاحب کی ہمیشہ عزت کی۔

ایک مرتبہ پبلک سروس کمیشن کے مقابلے کے امتحان کے تاریخ کے پرچے ان کے پاس آئے تو ایک امیدوار نے معلوم کر لیا اور ان کے پاس سفارش لے کے آ گیا مگر یہ نہیں مانے بلکہ پبلک سروس کمیشن کو خط لکھا کہ آپ کی کیا رازداری ہے۔ کمیشن نے لڑکے کا نام پوچھا تو نہیں بتایا اور وہ لڑکا کامیاب بھی نہ ہو سکا۔

سندھ یونیورسٹی پریس سے شہنشاہ اکبر کے بارے میں ان کا ڈاکٹریٹ کا تھیسس کتاب کی صورت میں شائع ہو رہا تھا۔ 247 صفحات کی اس کتاب پر سات سال لگ گئے۔ پرفیکشن کے اتنے قائل تھے ک کتابت کی ایک غلطی بھی نہیں رہنے دی۔ 25 کاپیاں جلد کرا کر دوستوں کو دے دیں اور باقی بک سیلر کی سخت شرائط کی وجہ سے نہ بک سکیں اور انہیں دیمک چاٹ گئی۔ اس کتاب کی ایک کاپی پنجاب یونیورسٹی کی لائبریری کے ڈیٹا بیس میں موجود ہے۔

کراچی کے ایک کتب فروش نے انہیں مغلوں کی تاریخ لکھنے کو کہا آخر طے ہوا کہ وہ ”مغلوں کی الف لیلہ“ کے نام سے ایک سیریز لکھیں گے ، اس سلسلے کی پہلی کتاب انہوں نے بابر کے بارے میں ”قصہ فرغانہ کے شہزادے اور لنگڑے راجپوت کا“ کی اشاعت کے بعد کتاب پر ”جملہ حقوق بحق ناشر محفوظ“ دیکھا تو بہت ناراض ہوئے اور ہمایوں پر لکھی کتاب کو دینے سے انکار کر دیا اور یوں یہ سیریز نہ لکھی جا سکی۔

واجد علی شاہ کے عہد کے حوالے سے انھوں نے ایک ناولٹ ”بی جان طوائف“ کے لیے ایک اچھے کاتب کو تلاش کیا جو امام مسجد بھی تھے۔ کاتب نے کتاب یہ کہتے ہوئے واپس کر دی کہ ایسی فحش کتاب کی کتابت میں نہیں کر سکتا۔

ایوب خان کی مبینہ کتاب ”فرینڈز ناٹ ماسٹر“ شائع ہوئی تو ریڈیو پاکستان حیدرآباد پر ایک پروگرام شروع کیا گیا اور یونیورسٹی اساتذہ کو اس کتاب کی تعریف اور توصیف کرنے کو کہا گیا مگر انھوں نے انکار کر دیا۔

ڈاکٹر احمد بشیر سر سے پیر تک ایک دیانت دار محقق اور استاد تھے۔ انہوں نے اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے پر بہت محنت کی اور جو مقالات ان کی نگرانی میں لکھے گئے وہ بھی انٹرنیشنل معیار کے تھے۔

احمد بشیر ایک غیر متنازع استاد تھے جنہیں پڑھنے پڑھانے اور تحقیق کرنے اور کروانے کے علاوہ کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ 1974 میں بھٹو کے دور حکومت میں جب کچھ یونیورسٹی اساتذہ کو ملازمت سے نکال دیا گیا تو بدقسمتی سے ان میں احمد بشیر بھی تھے مگر انھوں نے کوئی شکایت اور احتجاج نہیں کیا اور تحقیق و مطالعہ کے معاملات اسی طرح چلتے رہے۔ شخصی طور پر وہ ایک صابر انسان تھے۔ ان کا ایک بیٹا آرمی میں ڈاکٹر تھا جو حادثے میں فوت ہو گیا تو اس غم کو انھوں نے بہت بہادری سے برداشت کیا۔

اس دوران وہ قصور اپنے آبائی گھر شفٹ ہو گئے۔ انہی دنوں انہوں نے قصور کی تاریخ بھی لکھی جس کے مسودے کا کچھ اتا پتا نہیں ہے ۔ اس طرح ان کی کتب کے مسودے چھپ نہ سکے اور ضائع ہو گئے۔ زندگی کے آخری برسوں میں انہوں نے بہت پڑھا حتیٰ کہ ان کی بینائی چلی گئی اور فروری 1991 میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔

ڈاکٹر مبارک علی پوچھتے ہیں کہ ایمانداری، سادگی اور علمیت کا اس طرح سے بے قدر ہو جانے کا کون ذمہ دار ہے؟ ہمارے ہاں یہ روایت نئی نہیں ہے۔ اب ایسے استاد کہاں ملتے ہیں۔

(ڈاکٹر احمد بشیر (قصوری) سابق صدر شعبہ جنرل تاریخ سندھ یونیورسٹی کی یاد میں )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments