بے فیض لوگوں کی سرزمین ڈیرہ غازی خان


ڈیرہ غازی خان کو بلوچوں کی سرزمین کہا اور بلوچستان کا ایسا حصہ سمجھا جاتا ہے جو پنجاب نے بلوچستان سے چھین لیا تھا، یہ یہاں کے دھرتی کی مٹی کا اعجاز ہے، باسیوں کی نہ تبدیل ہونے والی سرشت ہے یا پھر یہاں کی آب و ہوا پانی کی تاثیر، یہ یہاں کی بلوچکی کا اثر ہے، راجپوتانہ خون کی تاثیر ہے یا پھر سرائیکی کی مٹھاس کہ اس سرزمین کے سپوت ملک کے تقریباً ہر بڑے عہدے پر پہنچے۔

صدر، وزیراعظم، وزیر اعلیٰ، گورنر، صوبائی و وفاقی وزراء، چیف جسٹس، چیف سیکرٹری، وفاقی و صوبائی سیکرٹری، ائیر مارشل، آئی جی پولیس، ڈی سی، کمشنر، ڈی پی او، آر پی او، غرض کوئی ایسا بڑا عہدہ نہیں جو کسی ڈیرے وال کے پیروں تلے  نہ رہا ہو مگر افسوس کہ بانجھ پن ایسا ہے کہ یہ تمام بڑے عہدوں پر پہنچنے والے سیاست دان، بیوروکریٹ، صحافی، ڈی جی خان کے لوگوں کے لئے بے فیض ثابت ہوئے، ان تمام بڑے لوگوں کے قریبی دوست،ورکرز، ساتھی اور ملازم ان بڑے عہدوں کے فیض سے عاری رہے۔

اپر پنجاب کا کوئی وزیر بنے تو کہا جاتا ہے کہ اس کے قریب سے گزرنے والے شخص کا بھی مقدر سنور جاتا ہے، مگر افسوس کہ ڈی جی خان کے بڑے عہدوں کے اوپر متمکن لوگوں کے قریبی رفقاء، مشیر ، دوستوں، ورکرز کا ٹکر (دو وقت کا کھانا) پورا نہیں ہوتا، بڑے عہدوں پر بیٹھے ان بونوں نے اپنے وسیب کے لئے کچھ بڑا تو دور چھوٹا کام کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا، نہ علاقے میں کسی کو نوکریاں ملیں، نہ علاقے کے نوجوانوں کو روزگار کے دیگر ذرائع میسر آئے۔

بے فیض ہونے میں کسی کو امتیاز حاصل نہیں اس صف میں محمود و ایاز آپ کو ایک صف میں کھڑے نظر آئیں گے۔

کوئی سردار تھا یا نان سردار، بلوچ تھا یا جاٹ، مہاجر تھا یا سرائیکی، سید تھا یا شیخ، سپل تھا یا قاضی، کوئی تفریق نہیں سارے ہی بے فیض ثابت ہوئے اور میرے وسیب کی پڑھی لکھی کریم سرکاری نوکریوں، ٹھیکوں، سے تو محروم رہی ہی مگر افسوس کہ نجی کاروباری مواقع پیدا کرنے کی کوشش بھی کسی نے نہیں کی۔

میرے وسیب کے پڑھے لکھے بچے فورمین، ریڑھی بان بنتے رہے، رکشے چلاتے اور چھابڑیاں لگاتے رہے، خوشامد میں ہر حد پار کی مگر درجہ چہارم تک کی نوکری سے محروم رہے، میرے شہر کی زمین پر کسی آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے کہ لوگ بڑے عہدوں پر پہنچ کر فرعون بن جاتے ہیں، جس دن پنجاب حکومت کا آخری دن تھا،  اس ایک آخری دن حمزہ شہباز شریف نے جتنے اپنے حلقے میں لوگوں کو سرکاری نوکریوں کے تقرر نامے دیے میرا بزدار سائیں ان نوکریوں کا پانچ فیصد پورے سرائیکی وسیب کے سو سے زائد حلقوں میں پچھلے تین سال میں نہیں دے سکا۔

آخر کیوں نہیں دے سکا؟؟ میرے شہر کے آخری ایم پی اے کے مشیران خاص کو دیکھوں تو کوئی روٹیاں لگاتا پھر رہا ہے ، کوئی پان بیچ رہا ہے ، کسی کی اپنی موٹر سائیکل نہیں تو کسی کے بچے کمیٹی میں مخالف حکومت آ جانے کی وجہ سے دفتر سے فیلڈ میں نوکری ٹرانسفر ہو جانے کی وجہ سے بیروزگار ہوئے گھروں میں مقید بیٹھے ہیں۔ موجودہ ایم پی اے کے خاص سمجھے جانے والے یوتھ کے نمائندہ نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں ، ذہن میں مخالفین کیلئے گالیاں، دل میں نفرت اور زبان پر ’جب آئے گا عمران‘ کے گیت گاتے درجہ چہارم کی نوکریاں لینے کی دہائیاں دیتے پھر رہے ہیں۔

جن کے گھروں کے آگے سیوریج کا پانی کھڑا ہے، جن کی کچی بوسیدہ گلیاں پکی نہیں ہوتیں, آخر کیوں نہیں ہوتیں، آخر ایسا میرے شہر کے ساتھ ہی کیوں ہوتا آیا ہے ، کیوں ہو رہا ہے؟ اس کیوں کا جواب ڈھونڈتے ڈھونڈتے رات مجھے نیند آ گئی مگر افسوس کہ جواب ملنا تھا نہ ملا۔

 میری دھرتی سے آسیب زدہ بنجر پن و بانجھ پن کا خاتمہ کب ہو گا کیسے ہو گا کچھ پتہ نہیں مگر ایک بات طے ہے کہ انگریزوں سے جاگیریں لینے والوں کی اولادوں کا یہی رویہ رہا تو عوام تخت لاہور کے نیچے سے زمین سرکانے سے پہلے ان سیاست دانوں، بیوروکریٹس کا گریبان پکڑیں گے، ان کا سماجی بائیکاٹ کریں گے، ان کے عہدوں پر گزرے لمحات کا حساب لیں گے، ان کی شادیوں اور جنازوں کا بائیکاٹ ہو گا اور انہی گھٹا ٹوپ بادلوں کی اوٹ سے روشنی کا وہ سورج طلوع ہو گا جو ظلمتوں کے اندھیرے مٹا کر روشنی، فیضیابی و سیرابی کی وہ جل تھل کرے گا کہ بےفیضی کی یہ وبا ختم ہو گی، پھر میرے شہر کے بچے ڈگریاں لے کر درجہ چہارم کی نوکریاں ڈھونڈنے کی بجائے قوم و ملت کے ہنرمند اور فعال افراد بن کر ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔

بڑے عہدوں پر موجود لوگ یا طاقت کے ایوانوں میں رسائی رکھنے والے بےفیض لوگ میری تحریر پڑھیں گے تو امید ہے ان کو شرم آئے گی ، وہ حیا کریں گے اور غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے عہدوں، طاقت و اختیارات اور ایوانوں تک رسائی و تعلقات کو ڈیرہ غازی خان کے نوجوانوں کا مستقبل سنوارنے کیلئے بروئے کار لائیں گے۔

نوجوانوں اور بزرگوں سے بھی گزارش ہے کہ ان بڑے عہدوں سے مرعوب ہونے کی بجائے ان سے اپنا حق مانگیں، ان کے گریبان پکڑیں، ان کو احساس دلائیں کہ بڑے عہدے پر پہنچ کر اپنے شہر کے لئے کچھ کرنا ان کی ذمہ داری ہے اور فرض بھی۔

بے فیض لوگوں کیلئے آخر میں ایک شعر

تو اگر مجھ سے گریزاں ہے تو چل ساتھ میرے
میں تجھے بھاڑ کی دہلیز تک چھوڑ آتا ہوں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments