کیا آپ کے گھر کی شریف عورتیں بھی عورت مارچ پر جاتی ہیں؟


میرے نزدیک، شاید آپ کے بھی بلکہ ہر سمجھ دار آدمی کے نزدیک وہ عورت شریف ہے جو ہمارے گھر میں ہے یا جس کا تعلق ہم سے ہے۔ میں تو یقین کریں اس عورت سے قطع تعلق کرتا ہوں جو مجھ سے دوستی نہیں کرتی۔ یا دوسرے مردوں کے ساتھ ہنس ہنس کر بات کرتی ہے۔ یا کہہ لیں اس کے ساتھ گھومتی ہے۔ عورت کی شرافت کی نشانی یہی ہے کہ وہ گھر کی چاردیواری میں رہے نہ کے مردوں کی طرح لور لور پھرتی رہے۔

خیر اگر کوئی کام کرنا بھی ہے تو میرے نزدیک کسی حد تک دو پیشے ہیں جن کو میں مہذب سمجھتا ہوں۔ ڈاکٹری یا ٹیچر وہ بھی صرف فیمیل سکول اور فی میل ہاسپیٹل میں۔

اب عورت باقی پیشے اختیار کرے گی تو لوگ تو باتیں کریں گے ناں۔ مرد دیکھیں گے بھی اور کبھی کوئی بات بھی کر دیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ نازیبا جملے بھی کس دیں۔ اب اس کو ہیرسمنٹ کہنا میری سمجھ سے باہر ہے۔ جہاں عورتیں جان بوجھ کر آئیں گی وہاں یہ سب تو ہو گا ناں جناب۔

اس سوچ کو بڑی مشہور تصویری مثال سے سمجھا دیتا ہوں۔ جس کو اکثر لوگوں نے سوشل میڈیا سائٹس پر لگایا ہوتا ہے کہ ایک لولی پاپ کور (ڈھانپی ہوئی ) ہے اس پر مکھیاں نہیں بیٹھیں جبکہ دوسرے لولی پاپ پر کور یا ریپر نہیں اس کو مکھیوں نے گھیرا ہوا ہے۔ یعنی وہ غلاظت سے بھرا ہوا لالی پاپ ہے۔ اس سے بڑھ کراور کیا مثال ہو سکتی ہے۔ مگر آپ ٹھہرے لبرل آپ کو کیا پتا ان چیزوں کا۔

ویسے یہ بات تو طے ہے کہ جس عورت کو کوئی مرد چھیڑے تو سمجھ جائیں کے وہ عورت ضرور کچھ دکھا رہی ہو گی۔ اب یہ نہ کہیں کہ دس سال کی بچی کیا ایسا کیا کرتی ہے یا ایک 2 سال کی بچی جس کا ریپ ہو جاتا ہے۔ دیکھیں یہ چند مثالیں ہوں گی جن میں کمسن بچیوں کا ریپ ہوا ہو۔ مگر بہرحال اس میں قصور عورت کا ہی ہے۔

اب آپ کے گھر کی یا میرے گھر کی عورت کو کیوں کوئی نہیں چھیڑتا۔ وجہ صاف ہے ہم ان کو باہر نکلنے نہیں دیتے۔ اب یہ نہ کہنا کہ میں نے ان کو ڈرا کر رکھا ہوا ہے اور وہ مجھ سے میری سوچ کی وجہ سے بات کرنے سے ڈرتی ہیں کہ میں ان پر الزام لگا دوں گا یا ماروں پیٹوں گا، میں اتنا بھی گھٹیا نہیں۔ ہاں مگر میں اس پر ذرا سی پابندیاں لگا لوں گا ، آخر اتنا تو میرا حق بنتا ہے کہ کوئی اگر اسے چھیڑ رہا ہے تو اِس نے بھی تو زیادہ نہیں مگر ہلکا پھلکا کچھ کیا ہونا ہے۔

آخر ہم کیوں نہیں بھاگتے عورتوں کے پیچھے ۔ اگر کسی کے پیچھے جاتے ہیں تو اس نے لفٹ ہی کروائی ہوتی ہے۔ یا کوئی دو تین ویسے بندے کو پسند آ جاتی ہیں، مگر ان کو ذرا سا بندہ ہیلو ہائی کرنے کی کوشش کر لے، یہ اب ہراسمنٹ تو نہیں ہے ناں جناب۔ خیر ہم بات کر رہے تھے ان بازاروں عورتوں کی جو پلے کارڈز اٹھا کر باہر بازار میں نکل آتی ہیں کہ ہمیں چھیڑا گیا ہے۔ بھئی! جب تم بن سنور کر نکلو گی تو لوگ تو چھیڑیں گے ہی ناں۔

ہم کھانا گرم نہیں کر سکتیں،  چلو یہ تو پرانی بات ہو گئی۔ پچھلی بار کے نعرے دیکھ لیں۔ لو بیٹھ گئی صحیح ہو کے۔ میری شرٹ نہیں تمہاری سوچ چھوٹی ہے۔ نازیبا پکس اپنے پاس رکھو۔ سینٹری پیڈز پر ٹیکس بند کرو۔

عجیب عجیب سے نعرے۔ جن کو سن کر روح کانپ جائے۔ جسم میں جھرجھری کی لہر دوڑ جائے۔ مگر میرا جسم میری مرضی والی عورتوں کو شرم نہ آئی یہ سب لکھتے ہوئے۔ ویسے یہ ایلیٹ کلاس عورتوں کی سرگرمی ہے جس میں یہ پلے کارڈز اٹھا کر نکل آتی ہیں۔ ہمارے گھر کی عورتوں کے یہ مسائل نہیں ہیں۔ وہ تو سکون سے ہانڈی روٹی کر رہی ہیں۔

اب دیکھیں یہ ایلیٹ آنٹیاں سال 2021 کا نیا چارٹر  لے آئی ہیں۔

مطالبہ ہے کہ صحت کا جی ڈی پی پانچ فی صد تک بڑھایا جائے اور عورتوں اور ہیجڑوں (چلو آپ جنہیں خواجہ سرا کہتے ہیں) ان کو بحالی صحت اور نفسیاتی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ بھائی سہولتیں ہی تو ہیں، سڑکوں پر ، ٹریفک اشاروں پر، جہاں چاہیں یہ بھیک مانگ سکتے ہیں اور کیا چاہیے ان کو؟

عورتوں پر تشدد کو بند کیا جائے۔ لو یہ کوئی کام ہے مطالبہ ہے ، اب بندہ مار پٹائی بھی نہ کرے تو ان آوارہ عورتوں کو کیسے سمجھائے۔ ان کو بٹھا کر کاؤنسلنگ شروع کر دے یا طلاقوں کی آزادی دے دی جائے جیسا مغربی معاشرے میں ہوتا ہے؟

اور مطالبہ چیک کریں ان کو مانع حمل کی ادویات تک رسائی دی جائی اور بچوں کی پیدائش روکنے کی سہولت دی جائے۔ یہ بھی باہر کی عورتوں کا اثر ہے کہ بچے پیدا نہ کریں تاکہ ان کا جسم خراب نہ ہو۔

لو جی ایک اور واہیات سا مطالبہ چیک کریں کہ پانی اور فضائی آلودگی کے کنٹرول کی پالیسی بنائی جائے۔ تم آوارہ عورتیں ہم سے کنٹرول نہیں ہوتیں اور ہم گاڑیوں کارخانوں کی چمنیاں بند کرتے پھریں۔

پرائمری سے آگے ٹیکنیکل تعلیم کو یقینی بنایا جائے۔ کام کی جگہوں کو محفوظ بنایا جائے۔ یہاں ہم پی ایچ ڈی کر کے ویلے پھر رہے ہیں ان کو پانچویں سے ٹیکنیکل تعلیم چاہیے۔ کہاں سے آئیں ہیں یہ آنٹیاں؟

نشے میں مبتلا افراد کی بحالی کو یقینی بنایا جائے۔ جو بندہ سرور میں رہنا چاہتا ہے ، زندگی کے جمھیلوں سے آزاد رہنا چاہتا ہے اس کو بھی یہ عورتیں چاہتی ہیں کہ سکون سے نہ رہنے دیا جائے۔

اب آپ یقین سے بتائیں اس میں کون سا کام کا نکتہ ہے۔ سارے فضول سے نعرے بس ۔ ان کو آزادی چاہیے، پتا نہیں کون سی آزادی چاہیے۔؟ یہی کہ یہ مغربی عورتوں کی طرح بغیر کپڑوں کے آزاد گھوم سکیں۔ اب آپ کا کہنا کہ ہم بھی آزاد ہیں ہم مرد کون سا بغیر کپڑوں کے گھوم رہے ہیں۔ تو بات صاف اور سادہ سی ہے کہ ہم ذی شعور ہیں اور یہ کم عقل ۔ ناقص عقل کے ساتھ یہ بس بلنڈر ہی مار سکتی ہیں اور کچھ نہیں۔

ہر ذی شعور اس بات کو سمجھتا ہے کہ یہ ایلیٹ آنٹیوں کا مشغلہ ہے ، ان کو کیا پتا مسائل کا، بس پلے کارڈز لے کر نکل آتی ہیں۔

میرا تو ماننا یہی ہے کہ یہ شریف عورتوں کا اجتماع نہیں ہے اور ہمارے گھروں کی عورتیں ایسی جگہوں پر نہیں جاتیں جہاں ایسی باتیں ہوں جس کا ہمارے معاشرے سے تعلق ہی نہ ہو۔

آپ بھی اپنی گھر کی عورتوں کو گھر میں رکھیں۔ اس سے پہلے کہ یہ بھی ان عورتوں کے ساتھ نکل کر مردوں کی حاکمیت کو چیلنج کر سکیں۔ یہ پاؤں کی جوتی اور کمتر سوچ کی کمزور عورتوں کو کیا پتا کہ اصل مسائل کیا ہیں۔ عورتوں کے مسائل کو تو صرف مرد ہی سمجھ سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments