اسٹیبلمشنٹ میری پہلی اور آخری امید ہے


استاد محترم ایاز امیر صاحب کا کالم ”لو ہم بھی پارسا ہوئے“ پڑھا۔ انہوں نے اس میں کئی مثالیں دیں۔ سمجھنے کے لئے اشارہ کافی ہے کے مصداق سمجھنے والے سمجھ گئے ہوں گے۔ جمہوری ڈاکٹرز اور فوجی ڈاکٹرز کی کچھ خوبیوں کو بھی بیان کیا جو ان کے ذاتی مشاہدات تھے۔

ہمارا تو ابھی کوئی ایسا تجربہ نہیں گزرا مگر مشاہدے میں نصف بات ضرور آئی ہے۔ پرائیویٹ ڈاکٹرز کی ہنرمندی جسے انہوں نے Health Spa (جس کا اصل اردو ترجمہ صحت کدہ ہوتا ہے ) کہا ہے۔ بالکل سچ ہی کہا ہے۔ ہمارے نجی ڈاکٹرز ایسے ایسے ہنر آزماتے ہیں کہ آدمی دنگ رہ جاتا ہے۔ اس میں سب سے پہلے تو ادویات کا ہنر ہے۔ جو ان کے اس ذاتی کلینک کے علاوہ پورا شہر گھوم لیں، مجال ہے وہ نسخہ کہیں اور دستیاب ہو جائے۔ پھر خاک چھان کر آپ اسی در پر آتے ہیں۔

دو سال قبل بی بی سی اردو نے ایک تحقیقی رپورٹ شائع کی تھی جس میں پاکستانی ڈاکٹرز کے بارے میں انتہائی ’قابل ستائش‘ الفاظ استعمال کیے گئے تھے۔ بی بی سی نے اس تحقیقی رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ ”پاکستانی ڈاکٹروں کا لکھا ہوا کوئی ایک نسخہ بھی بین الاقوامی طبی معیار کے تقاضے پورے نہیں کرتا جبکہ ڈاکٹر مہنگی اور ضرورت سے زیادہ ادویات تجویز کرتے ہیں۔ یہ تحقیق ممتاز طبی جریدے پاکستان جرنل آف میڈیکل سائنس کے ایک شمارے میں شائع ہوئی ہے۔

بی بی سی کے مطابق اگرچہ اس تحقیق میں پشاور کے چھ بڑے ہسپتالوں اور میڈیکل سٹوروں کا جائزہ لیا گیا لیکن اس کے نتائج کو پورے ملک پر منطبق کیا جا سکتا ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ طبی قواعد کے برعکس جنرل پریکٹیشنر (جی پی) ڈاکٹر 89 فیصد نسخوں پر اپنا نام نہیں لکھتے، 78 فیصد نسخوں پر مرض کی کوئی تشخیص نہیں لکھی ہوتی جب کہ 58 فیصد نسخے اتنے بدخط ہوتے ہیں کہ انہیں پڑھنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ اور تو اور، تحقیق کے دوران دریافت ہوا کہ 63 فیصد نسخوں پر دوا کی مقدار، جب کہ 55 فیصد پر دوا لینے کا دورانیہ درج نہیں کیا جاتا۔“

یہ تو ایک شعبہ ہے جس کی نشاندہی کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں ہر شعبہ اسی طرح کی گراوٹ کا شکار ہے جہاں اخلاق اور انسانیت نام کی کوئی شے سرے سے پائی ہی نہیں جاتی۔ سرکاری شعبے کی بات کریں تو وہاں جانا خود کو ذلیل و خوار کروانے کے مترادف ہے۔ عوام ہی کے ٹیکسوں پر پلنے والے ان لوگوں کی رعونت اور غرور ان کو زندہ درگور کرنے کے لئے کافی ہے۔

کوئی ایسا سرکاری شعبہ نہیں ہے جہاں رشوت نہ لی جاتی ہو۔ ایسا کیوں نہ ہو جب انصاف فراہم کرنے والے منصف (جج) کی ناک کے نیچے بیٹھا ”پیش کار“ بغیر رشوت کے کوئی کام نہ کرتا ہو تو باقی محکموں کی بات ہی نہ کیجیے۔

بابا جی کہتے تھے بیٹا جب تک خود کا محاسبہ نہیں کرو گے، خود کو پارسا اور دوسرے کو گنہگار ٹھہراؤ گے تو معاشرے کا سدھار ناممکن ہے۔

من حیث القوم ہماری مثال ایسی ہی ہو گئی ہے، ہم میں سے ہر شخص خود کو مظلوم اور دوسرے کو ظالم ثابت کرنے میں شب و روز مصروف ہے۔ لیکن کوئی بھی اپنے گریبان میں جھانکنے کو تیار نہیں ہے۔ کوئی بھی اپنی محاسبہ کرنے کا نہیں سوچتا کہ میں کیا کر رہا ہوں۔

مہنگائی ہونے پر عوام حکومت کو قصور وار ٹھہراتے ہیں، مگر ہمارے ہی معاشرے کے وہ کردار جو اس مہنگائی کو بڑھاوا دیتے ہیں، ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں، ملاوٹ کرتے ہیں، مہنگا کر کے فروخت کرتے ہیں، ان کا احتساب نہیں کرتے۔ دھوکہ دینے میں تو ہم نے پی ایچ ڈی کیا ہوا ہے۔ اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں دھوکہ ملا ہے۔

اپوزیشن اور حکومت کی جانب سے دھینگا مشتی بھی اسی تناظر میں جاری ہے۔ جو آج اپوزیشن میں ہیں وہ کل حکومت میں تھے، انہوں نے کون سے کارنامے انجام دیے تھے، جو آج موجود حکومت کو لعن طعن کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت ہو یا نواز شریف کی، سب نے اپنے تئیں جتنا ظلم کیا جا سکتا تھا، لوٹا جاسکتا تھا، اقربا پروری کی جا سکتی تھی، سب کچھ کیا۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے جب جنرل پرویز مشرف صدارت سے سبکدوش ہوئے تو پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ مخدوم یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تھے۔ میمو گیٹ اسکینڈل منظر پر عام آ گیا، وہی نواز شریف تھے جو کالا کوٹ پہن کر یوسف رضا گیلانی کو نااہل کروانے کے لئے سپریم کورٹ پہنچے۔ اور آج وہی نواز شریف ہیں جو پیپلز پارٹی کے گن گا رہے ہیں اور وہی پیپلز پارٹی ہے جس کی قائد بی بی شہید کو گندے القاب سے پکارنے والے، ان کی حکومتیں ختم کرنے والے، ان پر الزامات لگانے والوں کو گلے لگا رہے ہیں اور تعریفوں کے پل باندھے جا رہے ہیں۔ لیکن یہ سب صرف خواب کی حد تک ہے، جب آنکھ کھلے گی (الیکشن کے وقت) تو سب کچھ دھندلاجائے گا۔

آج کے اتحادی، ہم نوالہ و ہم پیالہ جو ایک دوسرے پر شیرینی کی برسات کر رہے ہیں، پھولوں جیسی گفتگو کی جا رہی ہیں، 2023ء میں ایک دوسرے پر لعن طعن ہی کر رہے ہوں گے۔

مولانا فضل الرحمٰن بھی ایک الگ ہی نرالی شخصیت ہیں، کشمیر کمیٹی کی چیئرمینی کا ایسا چسکا لگا کہ روز و شب اسی کے خواب آتے ہیں۔ مولانا صاحب نے اسی لئے 73ء کے آئین کے تناظر میں احتجاجی راستے کا رخ کیا ہوا ہے۔ مگر منزل ابھی بہت دور ہے۔ کیونکہ انہوں نے جنہیں اپنا بازو بنایا ہوا ہے، ان کے رخ کسی اور طرف ہیں۔ اندرون خانہ دونوں بازو اپنے اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے مذاکرات کی میز پر جانے کو تیار بیٹھے ہیں۔ بس گرین سگنل کی دیر ہے، پھر ایک تماشا اور لگے گا۔

عمران خان کی حکومت نے عوام کو انتہائی مایوس کر دیا ہے، عمران حکومت سے ہمدردی انتہائی کم ہو گئی ہے۔ لوگوں کے پاس چوائس نہ ہونے کی وجہ سے لوگ خاموش بیٹھے ہیں مگر سینے میں جو غبار بھر رہا ہے وہ کسی بھی دن پھٹ جائے گا۔ سینٹ الیکشن کی دیر ہے ، اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا سب پتہ چل جائے گا اور رہی سہی کسر بلدیاتی انتخابات پوری کر دیں گے۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔

جو آج پارسائی کا دعویٰ کر رہے ہیں ، انہیں بھی آزمایا جا چکا ہے، جن کے بڑے کچھ نہ کر سکے ان کے تربیت یافتہ نومولود سیاستدان کیا کریں گے؟ اب دیکھنا یہ ہے کہ اسٹیبشلنٹ کا رخ کس جانب ہو گا۔ اور میری معلومات کے مطابق اسٹیبلمشنٹ نئے چہروں کی تربیت میں مصروف ہے، چلے ہوئے کارتوسوں کے بجائے نئے چہرے لائے جائیں گے۔ لیکن میری درخواست ہے کہ

جنہیں حقیر سمجھ کر بجھا دیا تم نے
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments