ہمارا تصور ذات کیسے بنتا ہے؟(قسط 4)


اب تک ہم اس پہ بات کر رہے تھے کہ ”ذات“ ہے کیا؟ ذات بنتی کیسے ہے؟ ذات کے کتنے حصے ہوتے ہیں اور ان کی تشکیل میں کون کون سے عوامل کردار ادا کر تے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ اب ہم اس سوال سے آگے بڑھتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ ”ذات“ ہے ہی کیوں؟ آخر اس کی ضروت ہی کیا ہے؟ کیا اس کے بغیر گزارا نہیں ہو سکتا؟

ہم جو اپنے متعلق یا اپنی ذات کے متعلق علم رکھتے ہیں ، وہ ہماری زندگی گزارنے میں مدد کرتا ہے۔ معاشرے میں مختلف واقعات کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ اور تو اور ہماری زندگی کے مختلف پہلوؤں کو قابو کرتا ہے، درست کرتا اور بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے جذبا ت، ہماری سوچ اور ہمارے رویوں پہ ہمارے تصور ذات کا براہ راست اثر ہوتا ہے۔

سب سے پہلے تو یہ کہ اپنی ذات کا علم، دوسروں کو سمجھنے کے لیے ہمارے لیے ایک سانچے کا کام دیتا ہے۔ آپ نے اکثر غور کیا ہو گا کہ جب آپ کسی دوست سے کسی مو ضوع پہ گفتگو کر رہے ہوں تو ایک نارمل گفتگو دو طرفہ ہو جاتی ہے۔ مطلب آپ کسی موضوع پہ اپنی رائے دیتے ہیں اور پھر آپ کا دوست اسی موضوع پہ اپنی رائے دیتا ہے۔ پھر آپ دیکھتے ہیں کہ اچھا ہماری آراء ایک جیسی ہیں یا مختلف ہیں؟ اسی بنا پہ آپ اپنے دوست کے متعلق ایک تصور بناتے ہیں۔ اسی طرح اگر آپ کا خیال ہے کہ آپ ایک ایمان دار انسان ہیں اور یہ کہ ایمان داری آپ کی ذات کے تصور کا ایک مضبوط حصہ ہے تو آپ ہر کسی میں یہ خصوصیات دیکھنے کے خوا ہاں ہوں گے۔ آپ دیکھیں گے کہ فلاں بندہ ایمان دار ہے یا نہیں۔

مجھے یہاں ایک دلچسپ مثال یاد آ گئی۔ گنجا پن چونکہ مجھے وراثت میں ملا ہے لہٰذا ابھی چھوٹی سی عمر میں ہی آثار ظاہر ہو رہے ہیں اور یہ میری ذات کا مضبوط تصور ہے کہ آج نہیں تو کل میں گنجا ہو ہی جاؤں گا۔ اسی طرح میرا ایک دوست غلام عباس اپنے پتلے پن کی وجہ سے پریشان ہے یعنی اس کا تصور ذات یہ ہے کہ وہ بہت دبلا پتلا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ ہم جب بھی کسی اداکار یا پھر کسی راہ چلتے مسافر کے متعلق اپنی رائے دیتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ یار اس کی ٹانگیں دیکھو کتنی مضبوط ہیں، بازو مضبوط ہیں وغیرہ وغیرہ جبکہ میں کہہ رہا ہوتا ہوں کہ اس کے بالوں پہ نظر ڈالو۔ تو بنیادی فرق یہاں ہی ہے کہ ہمارا تصور ذات ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ اسی لیے ہم دوسرے لوگو ں میں وہی خصوصیات ڈھونڈتے ہیں جو ہمارے تصور ذات کا حصہ ہیں۔

ہم اپنی ذات کی تشکیل کے بعد اسے اپنے کردار، اعمال اور رویوں کی سمت کا تعین کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لوگ اپنی ذات کا اظہار اپنے اعمال کی مدد سے کرتے ہیں۔ جب ان کا تصور ذات (Self Concept) بن جاتا ہے تو وہ اسی کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک شخص کا تصور ذات یہ ہے کہ وہ ایمان دار ہے تو وہ اپنی زندگی کے ہر میدان میں ایمان داری کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کرے گا۔ ہم اسے نفسیات میں Self Expression یا اظہار ذات کہتے ہیں۔

اپنے تصور ذات کے مطابق عمل کرنے سے ایک تو انسان کا تصورذات مضبوط ہوتا ہے ۔ دوسرا یہ کہ وہ ان اعمال کے توسط سے دوسرے لوگوں کو بتاتا بھی ہے کہ اس کا تصور ذات کیا ہے۔ تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ عام طور پہ لوگ ایسے مواقع کی تلاش میں ہوتے ہیں کہ جہاں اظہار ذات یا Self Expression کر سکیں۔ اسی طرح وہ اپنی زندگی کا ہمسفر بھی اسی کو چنتے ہیں جو ان کے تصور ذات سے واقف اور راضی ہو۔

اس کے علاوہ ایک دوسری اصطلاحSelf Presentation کی ہے۔ اس میں ایک انسان ایسے اعمال کرتا ہے جو دراصل اس کے تصور ذات کے مطابق نہیں ہوتے لیکن اس کے گرد لو گوں کی توقعات کے مطابق ہوتے ہیں۔ اس کی سادہ مثال یہ دی جا سکتی ہے کہ آپ بھوک ہونے کے باوجود شاید پرتکلف دعوت میں تھوڑا کم کھانے پہ ہی اکتفا کریں گے۔ اسی طرح آپ نے دیکھا ہو گا کہ کچھ لوگ گفتگو کے دوران بہت بڑی بڑی پھینکتے ہیں تاکہ دوسروں میں ان کی ذات بلند ہو جائے۔

عام طور پہ ہرانسان میں Self Presentation اور Self Expression دونوں کے رجحانات موجود ہوتے ہیں لیکن یہ رویہ کافی حد تک مستحکم ہوتا ہے۔ مطلب یہ کہ کئی لوگ Self Presentation کو Self Expression پہ ترجیح دیتے ہیں جبکہ اس کے الٹ بھی لوگ موجود ہوتے ہیں۔ ہم ذات کی اس خصوصیت کو کہ وہ Self Presentation کو کسی حد تک Self Expression پہ ترجیح دیتا ہے Self Monitoring کہتے ہیں۔

جن لوگوں میں Self Monitoring کا عنصر زیادہ ہوتا ہے وہ آپ کو مختلف محفلوں میں مختلف رنگوں کے مالک نظر آئیں گے۔بچوں کے ساتھ بچے اور بڑوں کے ساتھ بڑے یعنی کہ ان کی ذات، حالات کے مطابق چلتی ہے لہٰذا آپ ان کے رویے کے متعلق کوئی پیشگوئی نہیں کر سکتے۔ اس کے برعکس جن لوگوں میں ”Self Monitoring“ کا عنصر کم پایا جاتا ہے ان کی ذات مستحکم (Stable) ہوتی ہے۔ وہ ہر محفل میں ہر ایک سا رویہ اختیار کر تے ہیں، یہ بات ذہن میں رکھیں کہ ہم نے یہاں اچھے اور برے رویے کی بات نہیں کی۔

جن لوگوں میں Self Monitoring کا عنصر زیادہ ہوتا ہے وہ خود کو حالات کے مطالبے کے مطابق بدلتے ہیں۔ اگر حالات یہ مطالبہ کر رہے ہوں کہ وہ خود کو بد عنوان ظاہر کریں تو یہ لوگ جو Self Monitoring سے بھرپور ہیں خود کو بدعنوان ظاہر کر کے ہی اطمینان کا ہی سانس لیں گے۔

اگلے حصے میں ہم ذکر کریں گے کہ کیا ہمارے اعمال بدلنے سے ہماری ذات بدل سکتی ہے؟
یعنی جب آپ لوگوں کو دکھانے کے لیے یا پھر حالات کے مطابق Self Presentation سے کام لیتے ہیں تو اس کا آپ کی ”ذات“ پہ کیا اثر ہوتا ہے۔

(جاری ہے۔۔۔۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments