سلطان نور الدین زنگی حنفی رحمہ اللہ اور روضہ رسول ﷺکی حفاظت


حضرت سلطان نور الدین زنگی حنفی رحمہ اللہ کا شمار ان چند شخصیات میں ہوتا ہے جن سے میری جذباتی وابستگی ہے۔ آپ کا اصل نام ”محمود“ تھا جبکہ کنیت ”ابو القاسم“ تھی اور ”نور الدین، الملک العادل اور ناصر امیر المومنین“ آپ کے القاب تھے۔ آپ کی پیدائش 511 ہجری کو ہوئی اور اور وفات 58 سال کی عمر میں 569 ہجری میں ہوئی۔ تاریخ اسلام کے مشہور مؤرخ اور سلطان نورالدین کے ہم عصر امام ابن اثیر اپنی تاریخ ”الکامل فی التاریخ“ میں لکھتے ہیں:

”میں نے اسلامی عہد کے حکمرانوں سے لے کر اس وقت تک کے تمام بادشاہوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا لیکن خلفائے راشدین اور عمر بن عبد العزیز کے سوا نورالدین سے زیادہ بہتر فرمانروا میری نظر سے نہیں گزرا۔“ (جلد 10 صفحہ 56۔)

سلطان نورالدین زنگی کی جلالت کے صرف اپنے ہی نہیں غیر بھی معترف تھے۔ سلطان زنگی کے ہی دور کے ایک عیسائی پادری ولیم صوری (William of Tyre) اپنی کتاب ”A history of Deeds done beyond the sea“ میں نورالدین زنگی کی تخت نشینی پرلکھتا ہے :

”A wise and prudent man، and according to the superstitious traditions of his people، one who feared God۔ He was fortunate، also that he greatly increased the heritage which was left him by his father۔“ Vol 2 page 146۔

یہ بات ذہن نشین رہے کہ نورالدین زنگی کے بارے میں یہ الفاظ ایک ایسے عیسائی راہب کے ہیں جو نورالدین زنگی پر بہت غصہ تھا کہ اس نے صلیبی یلغار کو روکا ہوا تھا۔ لیکن جب نورالدین زنگی کا انتقال ہوتا تو یہی پادری کہتا ہے :

”He was a just prince، valiant and wise، and according to the traditions of his race، a religious man۔“ Vol 2 page 234۔

سلطان نورالدین زنگی رحمہ اللہ کے فضائل و کارنامے لکھنے بیٹھوں تو پوری ایک کتاب تیار ہو جائے ، اس لیے اسے یہیں چھوڑ کر اصل واقعے کی جانب آتے ہیں۔

آج کی تحریر سلطان نورالدین زنگی رحمہ اللہ کی طرف منسوب ایک مشہور واقعے کے متعلق ہے۔ وہ واقعہ روضہ رسولﷺ کی حفاظت کا ہے۔ میں نے پہلی بار یہ واقعہ اپنی اردو کی کتاب میں پڑھا تھا جب میں چوتھی جماعت میں تھا۔ وہ میرا پہلا تعارف تھا نورالدین زنگی رحمہ اللہ سے۔ واقعہ سنانے کی ضرورت نہیں پڑھنے والے جانتے ہیں اور یوٹیوب پر ان گنت چینلز میں یہ واقعہ بیان ہوا ہے۔ جسے دیکھنا ہو وہاں دیکھ لے۔ امام شمس الدین سخاوی (وفات 902 ہجری) اپنی کتاب ”الاعلان بالتوبیخ“ میں لکھتے ہیں:

” یہ بھی ضروری ہے کہ (مؤرخ) نقل کے طریقوں سے اچھی طرح واقف ہو تاکہ جو بات پایۂ تحقیق کو پہنچے اس پر یقین کرے۔ اگر روایت کی کوئی قابل اعتماد سند نہ ہو تو اس کا نقل کرنا جائز نہیں۔“ (صفحہ 147)

امام سخاوی کے اس بیان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اگر کوئی بھی تاریخی واقعہ درجہ ثبوت کو نہ پہنچے تو اسے بیان نہیں کرنا چاہیے۔ اب اگر سلطان نورالدین زنگی کا روضہ رسولﷺ کی حفاظت والا واقعہ پایہ ثبوت کو پہنچ جائے تو مجھ سے زیادہ خوشی کسے ہو گی۔ لیکن اگر یہ واقعہ ثابت نہیں تو اسے بیان کرنا اور وہ بھی حضورﷺ کی طرف نسبت کر کے، میں سمجھتا ہوں بہت بڑی جسارت ہے یہ۔

سلطان نورالدین زنگی کے دور کی بات کریں تو اس وقت فن تاریخ مسلمانوں میں کافی ترقی پا چکا تھا۔ بڑے بڑے خلفاء کے حالات مرتب ہو رہے تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ آئمہ عظام، محدثین، مفسرین کے حالات کے الگ مجموعے، صحابہؓ کے علیحدہ، بادشاہوں اور ان کے وزیروں کے علیحدہ، شعراء کے علیحدہ یہاں تک کے جانوروں کی اقسام اور ان کے احوال پر بھی کتابیں مرتب ہو رہی تھیں۔ کئی بادشاہوں نے تو خاص اپنے دربار میں اجرت پر مؤرخین رکھے ہوئے تھے جو ان کے حالات مرتب کر رہے تھے۔ وہ مؤرخین بادشاہوں کے معمولی سے معمولی واقعے کو بھی نظرانداز نہیں کرتے تھے۔

سلطان نورالدین زنگی کی خوش قسمتی تھی کہ ان کے دور میں چار نہایت جلیل القدر مؤرخین زندہ تھے اور وہ نہ ہی صرف ان کے دور کے تھے بلکہ انہیں نورالدین زنگی کا قرب بھی حاصل تھا۔ ان کے نام یہ ہیں :

1۔ عزالدین ابوالحسن علی بن محمد الجزری ( وفات 630 ہجری) ۔ ابن الاثیر جزری کے نام سے مشہور ہیں۔ انہوں نے ”الکامل فی التاریخ“ لکھی جو کہ ”تاریخ ابن اثیر“ کے نام سے مشہور ہے۔ ان کا حوالہ اوپر دیا گیا ہے۔

2۔ حافظ ابوالقاسم علی بن ابی محمد الحسن بن ہبتہ اللہ ( وفات 571 ہجری) ۔ یہ ”ابن عساکر“ کے نام سے مشہور ہیں۔ انہوں نے ”التاریخ الکبیر الدمشق“ لکھی جو کہ ”تاریخ ابن عساکر“ کے نام سے مشہور ہے۔

3۔ عماد الدین ابو عبدللہ محمد بن محمد الأصفہانی (وفات 597 ہجری) ۔ ”عماد الدین الأصفہانی“ کے نام سے مشہور ہیں۔ انہیں نور الدین زنگی نے ”المدرسہ نوریہ، دمشق“ کا معلم بھی مقرر کیا۔ انہوں نے ”البرق الشامی“ کے نام سے تاریخ لکھی۔

4۔ جمال الدین ابو الفرج عبدالرحمان بن ابو الحسن علی البغدادی ( وفات 597 ہجری) ۔ ”ابن الجوزی“ کے نام سے مشہور ہیں۔ انہوں نے ”المنتظم فی تاریخ الملوک والامم“ نے نام سے تاریخ کی کتاب لکھی اگرچہ ان کی وجہ شہرت محدث ہونا ہے۔

ان تمام کتب میں سلطان نورالدین زنگی کا ذکر موجود ہے اور ان کتب کے مصنفین نور الدین زنگی رحمہ اللہ کی وفات کے بعد بھی زندہ رہے لیکن ان میں سے کسی نے بھی روضہ رسولﷺ کی حفاظت والا واقعہ بیان نہیں کیا۔ پھر یہ بھی یاد رہے کہ اس واقعہ کا سن تاریخ 557 ہجری بتایا جاتا ہے۔ لیکن ان میں سے کسی مورخ نے 557 ہجری کے تحت اس واقعے کو بیان نہیں کیا۔ سوال یہ ہے کہ پھر یہ واقعہ آیا کہاں سے؟

تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ نورالدین زنگی کی وفات کے بعد بیان ہوا ہے وہ بھی 100 سال بعد ۔ لیکن جب گہرائی سے میں نے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ واقعہ نورالدین کے علاوہ دو اور لوگوں سے بھی جڑا ہوا ہے۔

1۔ سب سے پہلے اس واقعہ کو بیان کرنے والے ابو عبداللہ محمد بن سعدون القیروانی ( وفات 486 ہجری) ہیں۔ یعنی نورالدین زنگی کی پیدائش سے بھی قبل یہ واقعہ انہوں نے اپنی کتاب ”تاسی اہل ایمان بماطر اعلی مدینہ القیروان“ میں لکھا۔ انہوں نے لکھا کہ فاطمی خلیفہ الحاکم بأمراللہ (وفات 411 ہجری) حضورﷺ، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ کے اجسام مبارک مصر لانا چاہتا تھا، اس مقصد کے لیے امیر مکہ ابو الفتوح الحسن بن جعفر الحسینی المکی ( وفات 430 ہجری) کو بھی خط لکھا لیکن لوگوں کی مزاحمت کے باعث ایسا نہ کر سکا۔

اس واقعے کو محب الدین ابوعبداللہ محمد بن محمود البغدادی المعروف بہ ابن نجار (وفات 643 ہجری) نے بھی اپنی ”تاریخ بغداد“ میں اسے بیان کیا۔ قطع نظر اس کے کہ مطبوعہ نسخوں میں واقعہ ہے یا نہیں اور واقعے کی حقیقت کیا ہے؟ یہ پہلا تعلق ہے قبر کھودنے والے واقعے سے۔

2۔ دوسری بار یہ واقعہ ابو جعفرمحب الطبری (وفات 643 ہجری) کی کتاب ”الریاض النضرۃ فی فضائل العشرہ“ کے حوالے سے بیان ہوا۔ اس میں بتایا گیا مراکش کے کچھ لوگ تھے جنہیں حضورﷺ کا جسد اقدس چاہیے تھا لیکن جب وہ گئے تو زمین انہیں کھا گئی۔ اس واقعہ کو ابو محمد عبداللہ بن عبدالملک المرجانی ( وفات 770 ہجری) کی کتاب ”بھجتہ النفوس و الأسرار فی تاریخ دارہجرۃ“ کے حوالے سے بھی بیان کیا گیا ہے۔

3۔ تیسری بار جب یہ واقعہ آیا تو اس میں نورالدین زنگی رحمہ اللہ کو ڈال دیا گیا۔ بیان کرنے والا شخص اس کی وفات کے 100 سال بعد پیدا ہوا۔ ان کا نام تھا جمال الدین ابوعبداللہ محمد بن احمد المطری (وفات 741 ہجری) ۔ انہوں نے یہ واقعہ اپنی کتاب ”التعریف بما انست الھجرۃ من معالم دارالھجرۃ“ کے صفحہ 208۔ 209 میں بیان کیا لیکن ان کے بیان کردہ واقعے میں سیسہ پلائی دیوار بنانے کا ذکر نہیں جو کہ اس واقعے کا اہم ترین حصہ ہے۔

انہی سے یہ واقعہ لے کر جمالالدین ابو محمد عبدالرحیم بن الحسن الاسنوی (وفات 772 ہجری) نے بیان کیا لیکن انہوں نے سیسسہ پلائی دیوار کا پہلی بار ذکر کیا۔ پھر انہی سے نقل در نقل اس واقعہ کو بیان کیا گیا اور آج تک کیا جا رہا ہے۔ لیکن دونوں میں ایک بات مشترک ہے کہ دونوں اصل ماخذ کی نشاندہی نہ کر سکے اور محض لوگوں میں مشہور ایک بات انہوں نے لکھ دی۔

اوپر کی بحث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صرف نور الدین زنگی کے حوالے سے یہ واقعہ نہیں بیان ہوا بلکہ یہ واقعہ ان سے پہلے کا مختلف لوگوں کے نام سے بیان ہوتا آ رہا ہے۔ جس سے یہ واقعہ انتہائی مشکوک ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ان تمام چیزوں کے بعد یہ واقعہ مسترد کر دینے کے قابل ہے۔

نوٹ: میری تحریروں پر ایک صاحب کا اعتراض ہے کہ میں اپنی شناخت کیوں ظاہر نہیں کر رہا۔ تو جواب یہ ہے ہر چیز کا وقت ہوتا ہے صحیح وقت آنے پر شناخت ظاہر کردوں گا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments