کراچی کی کاروباری دنیا میں مختلف قومیتوں کا عروج و زوال


عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ پردیس میں ہیئرڈریسر، ریسٹورینٹ، پتھارے اور ڈرائیونگ میں روزگار کے بنیادی مواقع ہوتے ہیں، اور پٹھانوں نے کراچی میں ابتدائی طور پرریسٹورینٹ اور ڈرائیونگ جیسے آسان سیکٹرز میں روزگار کے مواقع تلاش کیے اور اب پانچ دہائیوں سے موجود پٹھانوں کی تیسری نسل کراچی میں مقامی شہری کی حیثیت میں موجود ہے۔ اس عرصے میں تعلیم کے ساتھ اسکل ڈیویلپمنٹ اور جدید کاروباری مواقع حاصل کرتے ہوئے مختلف شعبوں میں پٹھانوں نے مہاجروں اور دوسری مقامی آبادی پر سبقت حاصل کی ہے۔ کپڑے، ریسٹورینٹس، آٹوموبیل، اسکریپ، گڈز ٹرانسپورٹ اور دوسرے اہم تجارتی شعبوں میں انہوں نے اپنی برتری قائم کی ہے۔

جہاں تک سرائیکیوں کا معاملہ ہے تو انہوں نے بھی آگے کی جانب سفر جاری رکھتے ہوئے روزانہ کی بنیاد پر مزدوری، رکشہ ڈرائیونگ سے تھوک پرچون، ہیئر ڈریسنگ سے ہوتے ہوئے کنسٹرکشن انڈسٹری میں قدم جمانا شروع کر دیے ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ اس دہائی کے آخر تک شہر میں اصل کاروباری مقابلہ پٹھانوں اور سرائیکیوں کے درمیان ہو گا اور شہر کی پنجابی اور مہاجر روایتی کاروباری برادری نچلے درجے پر موجود ہوں گی۔

ایسا لگتا ہے کہ پنجاب کی ترقی اور خوشحالی کو سامنے رکھتے ہوئے کراچی کا پنجابی اپنا مستقبل پنجاب سے منسلک کرے گا جبکہ مہاجر جو کہ اب کراچی کی آبادی کے تناسب کے حساب سے (مبینہ طور پر) اکثریت میں نہیں رہے ہیں ، وہ اپنے محدود وسائل، آسان ذرائع آمدنی کی خواہش اور آرام طلب طبیعت کے باعث موجودہ (مقابلے میں موجود) مواقع سے بہت زیادہ فوائد حاصل نہیں کر سکیں گے اور زیادہ تر توجہ اور امیدیں پراپرٹی سے متعلقہ کاروبار سے جوڑ کر رکھیں گے۔ جس میں بہرحال پٹھان سرمائے کے آسان حصول کی بنا پر تیزی سے سبقت حاصل کر لیں گے۔

موجودہ مہاجر نسل کی اصل مصروفیت اور ذمہ داری بحیثیت پرانے اور سنیئر مقامی شہری کے پٹھانوں کے چائے کے ہوٹلوں پر وقت گزارنا اور کڑاھیاں انجوائے کرتے ہوئے شہر کی رات گئے تک رونق بحال رکھنے کی مسلسل کوشش کرنا ہے۔ جہاں تک سندھیوں یا بلوچوں کا تعلق ہے تو وہ کبھی بھی شہر کی مین اسٹریم کاروباری طاقت نہیں رہے۔

یہ کہنا کہ ایم کیو ایم نے سرائیکی صوبے کی حمایت میں سرائیکیوں کو پٹھانوں کے مقابلے میں سپورٹ کیا ، ایک بے سروپا اور بے کار بات ہے جس کا مقصد ایم کیو ایم کی سیاسی مخالفت کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ اصل معاملہ مہاجروں کی موجودہ نسل کا وائیٹ کالر جاب کا حصول رہا ہے اور ان کے نزدیک محنت مزدوری ان کے لیے مناسب پیشہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انڈسٹریل پروڈکشن فیکٹریز میں مستقل مزاج لیبر طبقے کی موجودہ اکثریت اردو اسپیکنگ مہاجروں کی نہیں ہے اور نہ ہی اردو اسپیکنگ مزدور آجر کی پہلی چوائس ہوتے ہیں لہٰذا انڈسٹریل سیکٹر میں ترقی کر کے اوپر آنے والے بھی مہاجر نہیں بلکہ پنجابی، پٹھان یا سرائیکی ہیں جبکہ 80  اور 90 کی دہائی میں اس شعبے میں اکثریت اردو اسپیکنگ مہاجروں کی رہی ہے۔

اس تبدیلی کی وجہ سیاسی نہیں سماجی ہے کیوں کہ اردو اسپیکنگ مہاجر سماجی طور پر خود ساختہ احساس برتری کا شکار ہیں جس کی آج کے مقابلے کے دور میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔

کراچی مواقع سے بھرپور شہر ہے اور یہ مواقع مستقل مزاجی، آہستگی اور صحیح سمت میں جدوجہد کر کے ہی فوائد میں بدلے جا سکتے ہیں اور کچھ بھی کسی کو بھی سندھی، مہاجر، پٹھان، پنجابی یا سرائیکی ہونے کی بنا پر پلیٹ میں رکھا ہوا نہیں ملے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments