مقبوضہ کشمیر میں بچھی بارودی سرنگیں


مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا سب سے بڑا قید خانہ کہنا بھی غلط ہو گا، کیوں کہ قیدیوں کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں، جو مجروح کیے جائیں تو مہذب دنیا میں شور مچ جاتا ہے۔ لیکن مقبوضہ کشمیر اور کشمیری وہ بدنصیب قیدی ہیں جنھیں ہر حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔

آج جب دنیا اکیسویں صدی میں کھڑی انسانی حقوق اور انسانی مساوات کا راگ الاپ رہی ہے، غلامی کے خاتمے کا دعویٰ زور و شور سے کیا جا رہا ہے، انسان تو انسان جانوروں سے بے رحمی بھی دورحاضر کی انسانیت کو برداشت نہیں، ایسے میں کشمیری ماضی کے غلاموں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہاں تک کہ بھارتی فوج زمین میں دبی بارودی سرنگوں سے خود کو بچائے رکھنے کے لیے کشمیریوں کو استعمال کر رہی ہے اور ان کی زندگیوں سے کھیل رہی ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں جاری اس ظلم کو سامنے لانے کے لیے ایک کشمیری محمد یعقوب کی کہانی ملاحظہ کیجیے۔

دسمبر 2000 کی ایک رات بھارتی فوجیوں نے پیٹرول ڈیوٹی پر لے جانے کے لیے تیس سالہ محمد یعقوب کا انتخاب کیا۔ اسے لائن آف کنٹرول کے ساتھ گشت کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ آج سے بیس سال قبل یہ مقبوضہ کشمیر میں تعینات بھارتی فوج کا روز کا معمول تھا کہ وہ لائن آف کنٹرول کے ساتھ واقع دیہات سے نوجوانوں کو چنتی اور 734 کلومیٹر طویل لائن آف کنٹرول پر اپنے ساتھ گشت پر لے جاتی۔ اس گشت کا مقصد پاکستان سے آنے والے ”دراندازوں“ پر نظر رکھنا تھا۔ یہ گشت کشمیری دیہاتیوں سے لی جانے والی ایک بیگار تھی، جس کا انہیں کوئی معاوضہ دیا جاتا نہ تربیت فراہم کی جاتی۔ یہاں تک کہ بارودی سرنگوں کا شکار ہو کر معذور ہو جانے اور زندگی گنوا دینے والوں اور ان کے اہل خانہ کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا جاتا۔

جب صبح کے وقت محمد یعقوب کو بھارتی فوجیوں نے اس کے گھر چھوڑا تو وہ لہولہان تھا اور بارودی سرنگ پر پاؤں پڑنے کے باعث اپنی ایک ٹانگ سے محروم ہو چکا تھا۔ یہ رات اسے زندگی بھر کے لیے معذور کر گئی۔ دیہات کے لوگ یعقوب کو قریب واقع فوج کے اسپتال لے گئے، جہاں اسے مفت ابتدائی طبی امداد تو فراہم کر دی گئی، لیکن اسے جو لازمی سرجری درپیش تھی اس کے لیے یعقوب کو اپنی جیب سے رقم ادا کرنی پڑی۔ یہ کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ جب یعقوب کا بھائی اس واقعے کی ایف آئی آر درج کرانے مقامی تھانے پہنچا تو پتا چلا فوج کے اہلکار پہلے ہی یعقوب کے خاندان کی طرف سے اس سانحے کی رپورٹ درج کروا چکے ہیں، جس میں یعقوب کی طرف سے یہ بیان لکھا گیا تھا کہ وہ جنگل میں لکڑیاں جمع کر رہا تھا کہ اس کا پاؤں ایک بارودی سرنگ پر پڑ گیا۔

بھارتی فوج نے لائن آف کنٹرول کے ساتھ ساتھ بارودی سرنگیں بچھانے کا سلسلہ 1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران شروع کیا تھا۔ اس کے بعد بھارت یہ عمل دہراتا رہا۔ 1971 کی پاک بھارت جنگ، 1999 کی کارگل کی جنگ اور 2001 کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والے عسکری تصادم کے دنوں میں بھارت باردوی سرنگوں کی تعداد بڑھاتا گیا۔ بھارت کو اس سے غرض نہیں تھی کہ یہ سرنگیں سرحد پار سے آنے والوں کی جان لیں یا مقبوضہ کشمیر کے سرحد پر آباد باسی ان کا نشانہ بنیں۔ بھارتی فوج نے اپنے اہل کاروں کے ان بارودی سرنگوں سے بچائے رکھنے کے لیے کشمیر کے دیہاتیوں کا بے دریغ استعمال کیا، جس کی ایک مثال محمد یعقوب ہے۔

اگرچہ 2008 میں بھارت کے ڈائریکٹر ملٹری افیئرز بریگیڈیئر ایس ایم مہاجن نے ایل او سی پر بچھائی جانے والی بارودی سرنگوں کے بارے میں یہ موقف پیش کیا تھا کہ انھیں بچھانے کا بنیادی مقصد سرحد پار سے آنے والے کشمیری عسکریت پسندوں کا راستہ روکنا ہے، لیکن ایسی کچھ ہی اطلاعات سامنے آئیں کہ ان بارودی سرنگوں کا نشانہ حریت پسند کشمیری بنے ہوں، ان کا زیادہ تر شکار عام کشمیری شہری ہی ہوئے ہیں۔ بھارت سرکاری طور پر یہ اعداد و شمار ظاہر نہیں کرتا کہ کشمیر میں بچھائی جانے والی بارودی سرنگوں سے کتنے عام شہری اور کتنے فوجی ہلاک و زخمی ہوئے، تاہم ایک ریسرچ گروپ ”Landmine and Cluster Munition Monitor“ کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق 1999 سے 2015 کے دوران 3 ہزار 191 افراد ان بارودی سرنگوں کی زد میں آئے، جن میں سے ایک ہزار 83 کی زندگی کا چراغ گل ہو گیا، جب کہ 2 ہزار 107 زخمی ہوئے۔

مقبوضہ کشمیر میں ایل او سی پر بچھی بارودی سرنگیں کشمیریوں کی جانیں ہی نہیں لے رہیں، یہ اور طرح سے بھی مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ وادی کے ایک ممتاز ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ خرم پرویز کا اس بارے میں کہنا ہے کہ جب ایک بار کھیتوں میں بارودی سرنگیں بچھا دی جاتی ہیں تو مقامی لوگوں پر ان کھیتوں میں فصل اگانے پر پابندی عائد ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنی معاشی اور غذائی ضروریات سے محروم ہو جانے کے ساتھ اپنے جانوروں کے لیے اناج کا انتظام کرنے سے بھی قاصر ہو جاتے ہیں، جس کا نتیجہ مقبوضہ کشمیر میں غذائی پیداوار کم ہونے کی صورت میں نکلا ہے۔ اس کے علاوہ بارودی سرنگیں دیہاتیوں کی ضروریات پوری کرنے والے مویشیوں کی ہلاکت کا سبب بھی بن رہی ہیں۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارت جو مظالم ڈھا رہا ہے اور جس جس طرح کشمیریوں کی معیشت، ثقافت اور ان کی روزمرہ زندگی کو نقصان پہنچا رہا ہے، ایل او سی پر بارودی سرنگیں بچھانا، ان سے محفوظ رہنے کے لیے کشمیریوں کا استعمال اور ان بارودی سرنگوں سے دیہی زندگی اور زراعت کی تباہی اس سب کا صرف ایک پہلو ہے۔ ایک ایسا پہلو جس کے نہایت سفاکانہ اور غیرانسانی ہونے کے باوجود دنیا اس کی طرف توجہ نہیں دے رہی۔ بھارتی حکومت اور فوج کے اقدامات صاف بتارہے ہیں کہ وہ کشمیریوں کا جینا اجیرن بنا کر چاہتا ہے کہ وہ حالات سے تنگ آ کر پاکستان ہجرت کرنے لگیں تاکہ کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی گھٹائی جائے اور نئی حکمت عملی کے تحت کشمیری سرزمین پر بھارتی ریاستوں سے لوگ لا کر بسائے جائیں، جس کا نتیجہ ایک ایسے کشمیر کی صورت میں نکلے گا جہاں مسلمان اقلیت میں ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments