عورت مارچ: جسم اور جان کی موت سے پہلے



جس طرح بات کا انداز بات کی اہمیت کو کم، زیادہ یا پھر ختم کر سکتا ہے، اسی طرح احتجاجی ریلیاں اور مارچ کرنے کا انداز بھی اس میں موجود شرکاء کے عزائم کا عکاس ہوتا ہے۔ پاکستانى عورت مارچ کے ساتھ بھی ہر سال کی طرح ایسا ہی ہوا۔ کچھ اور نامناسب نعروں اور کھلے عام بھنگڑوں، چست ملبوسات اور مخلوط مجمعے میں باجماعت ناچ گانوں نے اس کے اصل مقصد کو نہ صرف پس پشت ڈالنے میں اہم کردار ادا کیا بلکہ اس کو شدید نقصان پہنچایا کہ ملک سے باہر مقیم لڑکیوں کے والدین اس قسم کے ماحول کو دیکھ کر اپنے بچوں خاص طور پر بیٹیوں کو متوقع نقصان سے بچانے کے لئے پاکستان بھیجنے سے ہچکچاتے ہیں۔ اور میرے لیے یہ بات اس لیے بھی باعث تشویش ہے کہ میں سعودی عرب جیسے ملک میں مقیم ہوں جہاں انٹر کے بعد تعلیم پاکستانیوں کی پہنچ سے باہر ہے۔

8 مارچ 1917 کو سلطنت روس کے ان دنوں کے دارالحکومت پیتروگراد یعنی آج کے سینٹ پیٹرز برگ میں، ٹیکسٹائل کی صنعت میں مزدوری کرنے والی خواتین نے اتنا بڑا جلوس نکالا تھا جس سے پورا شہر بھر گیا تھا۔ جس کے نتیجے میں روس کا اکتوبر انقلاب برپا ہوا تھا۔ دنیا میں سب سے پہلے سوویت یونین میں عورتوں کو حق رائے دہی کے علاوہ سرکاری دفاتر میں کام کرنے کا اور شرابی مردوں سے طلاق لینے کا حق ملا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ طلاق لینے کے لیے عورتوں کی قطاریں لگ گئی تھیں کیونکہ اس حق کے تفویض ہونے سے پہلے وہ بھی خاموشی سے جیسے تیسے بھی شوہر تھے ان کے ساتھ زندگی بسر کرنے، ان کے ہاتھوں زد و کوب ہونے اور ان کی شراب نوشی سہنے پر مجبور تھیں۔ طلاق لینا اسی طرح معیوب تھا جیسے آج بھی کچھ ملکوں میں ہے۔ عورتیں پڑھی لکھی بھی نہیں تھیں، کام بھی مناسب نہیں ملتا تھا یعنی صورتحال ویسی ہی تھی جس سے آج بھی پاکستان میں 60 سے 70 فیصد عورتیں دوچار ہیں۔

امریکہ میں عورت مارچ 28 فروری 1909 کو نکلا تھا۔ پھر اگست 1910 میں ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں ہوئی سوشلسٹ خواتین کی بین الاقوامی کانفرنس میں 8 مارچ کو عورتوں کے حقوق کے دن کے طور پر منائے جانے کی تجویز منظور کی گئی تھی۔

اس بار سب سے بہترین بینر ”قوموں کی عزت ہم سے ہے“ نظر سے گزرا، مگر میں اس کو بھی تھوڑا آگے بڑھاتے ہوئے کہوں گی کہ اگر عورت اپنے پندار کا صحیح تعین کرتے ہوئے کسی قوم، معاشرے اور ملک کی ترقی میں حصہ لیتی ہے تو پھر یہ نعرہ ”قوموں کی طاقت ہم سے ہے“ میں تبدیل ہو جائے گا۔

عورت مارچ میں جو نعرہ سب سے زیادہ متنازع بنا ہوا ہے وہ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ ہے جس کو غالباً بے راہ روی اور فحاشی کے عندیہ کے طور پر لیا گیا ہے مگر میرے خیال میں اگر اس کو غور سے سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یہ عورت کے اس معاشرے میں اس کے اُس حق سے محرومی پر احتجاج ہے جو اسے اس کا مذہب بھی دیتا ہے۔ کیا اسلام عورت کی مرضی کے بغیر شادی کی اجازت دیتا ہے اور کیا ہمارے ہاں لڑکیوں کی شادی کے وقت والدین کا پریشر، معاشی و سماجی رکاوٹیں یا پھر خاندانی روایات آڑے نہیں آتیں؟

ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں جائیداد کا وارث بیٹا اور عزت کی وارث بیٹی کو بنا دیا جاتا ہے، یعنی بیٹا تو جو مرضی کرے مگر ہر پابندی بیٹی کے لئے ہوتی ہے اور زیادہ تر بیٹی اس پریشر کو برداشت بھی کرتی ہے بلکہ حد تو یہ ہے کہ شادی کے وقت مائیں خود نکاح نامے پر طلاق کے حق کو برا شگون قرار دے کر ختم کروا دیتی ہیں، محض اچھی تنخواہ یا پیسے والے لڑکے کو اچھا رشتہ سمجھ کر لڑکی کی تعلیم تک چھڑوا لی جاتی ہے۔ چلیں یہ تو ان گھرانوں کی بات تھی جہاں بظاہر تعلیم یافتہ لوگ ہیں، اب وہاں نظر کیجیے جہاں لڑکی کی شادی قرآن سے کر دی جاتی ہے کہ کسی کو جائیداد نہ دینی پڑے، یا پھر کسی ایسے گھر میں وٹہ سٹہ کی شادی کر دی جاتی ہے جہاں دونوں طرف جائیداد برابر ہو کہ چلیں نہ آپ کچھ دیں نہ ہم۔ یہ سودابازی کس قانون کے تحت کی جاتی ہے؟

معاشی استحصالی معاشرے میں عورت کے وارث شادی شدہ خواتین کو ایک سے زیادہ بار بیچ ڈالتے ہیں مگر کسی کو نہ اس کا جسم بکتا نظر آتا ہے اور نہ سوچ۔ ریاست کا کوئی قانون وقتی طور پر حرکت میں آ بھی جائے تو پولیس تھانوں میں موجود راشی افسران پیسے لے کر الٹا عورت کو نہ صرف ڈرا دھمکا کر بلکہ بعض دفعہ اس کی مزید جسمانی تذلیل کرتے ہیں اور اسے عبرت کا نشان بنا دیتے ہیں۔

گھروں میں کام کرتی جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کی کوشش میں سرگرداں عورت کے جسم کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے یہ معاشرہ۔ جس کا شوہر اس سے پیسے چھین کر نشے کی عادت پوری کرتا ہے۔ ڈائیوو بس میں مخصوص وردی میں ملبوس ہوسٹس لڑکیوں کے جسم تحفظ کے متقاضی ہیں کہ ان کو رسوا نہ کیا جائے۔ مختلف دفاتر میں کام کرتی لڑکیوں کے لئے قوانین بنانے اور موجودہ قوانین پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ ٹھیک اس طرح جیلوں میں بند ملزم خواتین کے اجسام کو تحفظ کی ضرورت ہے۔

کالج یونیورسٹی میں پڑھنے والی کچھ لڑکیوں کو تیزاب گردی کا نشانہ بنا کر ان کے جسم کو مسخ کر دیا جاتا ہے اور ان کے پاس علاج کے لئے کوئی راستہ نہیں ہوتا کہ وہ واپس اپنی خوبصورتی کو حاصل کر سکیں۔ گھریلو تشدد جسمانی یو یا ذہنی، اس کے خلاف قوانین کی اشد ضرورت ہے چاہے وہ ایک ملازمہ کو درپیش ہے یا پھر گھر کی مالکن یعنی بیوی کو۔

جسم پر انسان کی اپنی ہی مرضی ہوتی ہے، بھلا کسی دوسرے کی اس پر کیا مرضی کہ کوئی لڑکی کو پیٹتا رہے مگر وہ بسی رہے۔ کیا واقعی ہی اسی کو بسنا کہتے ہیں؟ کہ والدین اس کی واپسی نہیں چاہتے، گھر اجاڑنا نہیں چاہتے۔ بھلا جس گھر میں روزانہ بیوی پر شوہر بھی اور ساس بھی جسمانی تشدد کرے وہ گھر کہلاتا ہے۔ عورتیں روزانہ کی بنیاد پر صحت اور خوراک کی ضروی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے زچگی کے دوران جان کی بازی ہار جاتی ہیں تو پھر کیوں ان کی مرضی اور صحت کے بغیر ان کے جسم پر پے در پے بچے پیدا کرنے کا وہ بوجھ ڈال دیا جاتا ہے جو وہ برداشت ہی نہیں کر پاتی۔

ہاں میں تسلیم کرتی ہوں کہ اس مارچ میں صحیح بات کو غلط انداز میں کیا گیا، وہاں موجود خواتین کے نعرے اور بینرز بہتر ہو سکتے تھے، الفاظ کا چناؤ درست ہو سکتا تھا مگر چند خامیوں کی بنا پر عورت کے حقوق کے لیے اٹھنی والی آوازوں کو دبایا نہیں جا سکتا، اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments