اپنے ہی اداروں سے برسر پیکار وزیراعظم


پچھلے دو تین ماہ کو پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اگر انتہائی ہنگامہ خیز بلکہ شرمناک حد تک ہنگامہ خیز کہیں تو بے جا نہ ہو گا، اس مختصر عرصے نے پاکستان میں کرپشن، بھوک، مہنگائی، بیروزگاری کے خاتمے ، اداروں پارلیمنٹ اور آئین کی بالادستی کا بیانیہ اپنا کر اقتدار میں آنے والے عمران احمد خان نیازی صاحب کو مکمل طور پر جھوٹ، مکر و فریب، منافقت، دھوکے بازی کا پیکر بنا کر عوام کے سامنے بے نقاب کر دیا۔ وزیراعظم عمران خان صاحب نے تمام اداروں کی پشت پناہی ہونے کے باوجود پچھلے تین سالوں سے جس بدترین طرز حکمرانی کا مظاہرہ کیا ہے ، شاید اس کی نظیر پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ملے۔

وزیراعظم پہلے حکمران ہیں جو اپنی مرضی و منشا کے مطابق فیصلے نہ ہونے پہ اپنے ہیں اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کی حد تک پہنچ جاتے ہیں، اگر نیب ان کی خواہشات کے برعکس کوئی کام کرے تو اس پہ غرانے لگتے ہیں تو کبھی سپریم کورٹ کو من پسند فیصلے نہ دینے پہ لعن طعن کرتے نظر آتے ہیں، سوائے پاکستان کی افواج کے جن کے بارے میں ماضی میں خان صاحب جن خیالات کا اظہار کیا کرتے تھے ، ان سے سب واقف ہیں ، باقی کوئی ادارہ ان کی گالم گلوچ اور زور زبردستی سے محفوظ نہیں ہے۔

آج کل خان صاحب کی تند و تیز گفتگو اور ان کی ہرزہ سرائیوں کا ہدف الیکشن کمیشن ہے، جس کا چیئرمین مقرر کرتے وقت موصوف نے فرمایا تھا کہ اس سے پہلے چیف الیکشن کمشنرز مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی لگاتی رہی ہیں،  اس لیے ان کا کردار بھی غلاموں والا ہوتا تھا۔ اب پہلی بار اپنا چیئرمین (سب کے مشورے) سے لگایا ہے ، اس لیے الیکشن کمیشن مکمل بااختیار اور خودمختار ہو چکا ہے، حالانکہ گزشتہ چیف الیکشن کمشنر کے دور میں انتخابات 2018 منعقد ہوئے جن میں آر ٹی ایس سسٹم بیٹھ جانے کے تاریخی سانحے کا نتیجہ اس وقت پاکستانی عمران خان صاحب کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔

نئے چیف الیکشن کمشنر جناب سلطان سکندر راجہ اس وقت تک بالکل درست کام کر رہے تھے جب تک وہ خان صاحب کے فارن فنڈنگ کیس کو طول دے رہے تھے، وہ اس وقت تک ٹھیک کام کر رہے تھے جب تک ان کی مرضی و منشا کے مطابق سب چیزیں درست سمت میں چل رہی تھیں۔

چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن سے خان صاحب کی مخاصمت کا سلسلہ شروع ہوا ڈسکہ میں عوامی ووٹ پہ پڑے ڈاکے کو مسترد کرنے کی کارروائی اور ڈسکہ میں این اے 75 میں دوبارہ انتخابات کے فیصلے سے، وزیراعظم اور ان کی جماعت کو یقین تھا کہ الیکشن کمیشن ڈسکہ میں صرف پندرہ بیس پولنگ اسٹیشنز پر ہی دوبارہ انتخابات کا اعلان کرے گا، مگر شومئی قسمت انتخابات والے روز سے شروع ہوئے ہنگاموں قتل و غارتگری سے لے کر پریزائیڈنگ افسران کے رات بھر اغواء تک کی جب الیکشن کمیشن نے تحقیقات کیں تو حکمران جماعت اور ریاستی اقدامات نہ صرف مشکوک نظر آئے بلکہ ریاستی اداروں کی انتخابات میں کھلی مداخلت اور بدترین دھاندلی بھی بے نقاب ہوئی ، جس کے نتیجے میں الیکشن کمیشن کو این اے 75 کا ضمنی انتخاب کالعدم قرار دے کر اسے دوبارہ کرانے کا اعلان کرنا پڑا جو کہ قانون و انصاف کی جیت اور الیکشن کمیشن کے خودمختار ہونے کا ثبوت تھا۔

وزیراعظم صاحب نے ایسا خودمختار الیکشن کمیشن کبھی نہیں چاہا تھا ، اسی لیے ان کی فائرنگ برگیڈ اپنی تمام تر افرادی قوت اور ہتھیاروں سے لیس ہو کر الیکشن کمیشن پہ ٹوٹ پڑی، اس وقت خان صاحب نے صرف الیکشن کمیشن کے فیصلے پہ افسوس کرنے پہ اکتفاء کیا۔

ابھی ڈسکہ کے انتخابی نتیجے کے کالعدم قرار دینے کا درد کم نہیں ہوا تھا کہ سینیٹ انتخابات آ گئے اور اللہ تعالیٰ کی قدرت نے وزیراعظم اور ان کے اکابرین کو ان کے تکبر و رعونت کی ایک اور سزا دیتے ہوئے اسلام آباد سے پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار سید یوسف رضا گیلانی کو حکومتی امیدوار کے مقابلے میں کامیابی عزت و تکریم سے ہم کنار کر دیا، شکست کے بعد فوری ردعمل دیتے ہوئے وزیر خارجہ اور سرکاری طوطوں نے الیکشن کمیشن پہ جانبداری کے الزامات کے دستی بم پھینکنا شروع کر دیے، دوسرے دن وزیراعظم اسلامی جمہوری پاکستان اور ریاست مدینہ بنانے کے دعویدار نے اپنے دھواں دھار خطاب میں الیکشن کمیشن کو آڑے ہاتھوں لے لیا، اس خطاب کے دوران ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہیں سے وہ اس الیکشن کمیشن کے خاتمے اور چیف الیکشن کمشنر کی برطرفی کے احکامات جاری کر دیں۔

دوسرے ہی روز الیکشن کمیشن نے وزیراعظم کے خطاب پہ اپنا انتہائی مؤثر اور جاندار ردعمل دیتے ہوئے خان صاحب کے خطاب میں الیکشن کمیشن پہ لگائے گئے الزامات کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ انہیں یاد دلایا کہ اسی روز اسی قومی اسمبلی کی چھت کے نیچے ان کی خاتون رکن اسی انتخابی عمل کے نتیجے میں سینیٹر منتخب ہو گئیں ، وہ درست اور یوسف رضا گیلانی کا انتخاب جیتنا غلط کیسے ہو سکتا ہے؟ الیکشن کمیشن نے وزیراعظم کی جانب سے لگائے گئے جانبداری کے الزامات پہ انتہائی افسوس کا اظہار بھی کیا۔

سینیٹ انتخابات کے دوران وزیراعظم اور ان کی جماعت نے جس طرح سیاسی اصولوں، اخلاقیات، اسلامی جمہوری اقدار کو شرمسار کیا اس کی مثال بھی ملنا مشکل ہے، عام انتخابات کے دوران دوہری شہریت کے متعلق جعلی حلف نامہ داخل کروا کر انتخاب لڑنے والے شخص وفاقی وزیر فیصل واؤڈا کو اسلام آباد ہائیکورٹ سے نا اہلی کے ڈر کی وجہ سے قومی اسمبلی سے مستعفی کروا کر سینیٹ انتخابات لڑانا، بلوچستان سے ایک آزاد امیدوار کو مبینہ طور پر کروڑوں روپے میں سینیٹ ٹکٹ بیچ کر سینیٹر منتخب کروانا، سندھ سے ایک کرپٹ نیب زدہ ارب پتی ٹھیکیدار کو مبینہ طور پر کروڑوں کے عوض ٹکٹ دینے جیسے قبیح کام اس وزیراعظم اور جماعت نے کیے جو ہر وقت اصولوں، اخلاقیات، ایمانداری اور کرپشن کے خاتمے کا دعویٰ کرتی ہے۔

وزیراعظم کے قوم سے خطاب کے بعد سے اب تک خان صاحب اور ان کے اکابرین آزاد الیکشن کمیشن کے کردار سے اتنے خوفزدہ ہو چکے ہیں کہ اب باقاعدہ اپنے ہی ادارے کی آزادی غیر جانبداری کے درپے ہو چکے ہیں ،انہیں یہ خوف کھائے جا رہا ہے کہ کہیں الیکشن کمیشن اب فارن فنڈنگ کیس کو منطقی انجام پہ پہنچانے کا کام نہ شروع کر دے، انہیں یہ خوف کچوکے لگانے لگا ہے کہ کہیں الیکشن کمیشن اڑھائی سال سے زیر التوا انتخابی عذرداریاں نمٹانے کے اقدامات نہ اٹھانے شروع کر دے جس سے جعلی اکثریت جعلی مینڈیٹ زمین بوس ہونے کا خدشہ ہے۔

وزیراعظم اور ان کے طرز حکمرانی پر اب ملک کے دیگر مقتدر ادارے بھی متفکر نظر آتے ہیں کہ آج الیکشن کمیشن تو کل کہیں ان کے ادارے کی نہ باری آ جائے۔

آج مجھے وزیراعظم کی حرکات دیکھ کر یہ شعر برمحل لگتا ہے کہ

‏بخت کے تخت سے یکلخت اتارا ہوا شخص

تم نے دیکھا ہے جیت کے ہارا ہوا شخص

خان صاحب کو اداروں کو مضبوط کرنے کے اقدامات اٹھانے چاہئیں بجائے اس کے کہ اداروں کو کمزور کریں اور انہیں رسوا کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments