سینیٹ الیکشن کے بعد وزیراعظم مایوس ہو چکے؟
تین مارچ کو سینیٹ کے الیکشن کے بعد تحریک انصاف نے ایوان بالا میں نواز لیگ کو پہلی سے تیسری پوزیشن پر دھکیل دیا ہے۔ اور خود 28 نشستوں کے ساتھ پہلی پوزیشن پر قبضہ جما لیا ہے۔
سینیٹ کے الیکشن کا سب سے بڑا معرکہ اسلام آباد کی جنرل نشست پر ہوا۔ جس میں غیر متوقع طور پر پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار سید یوسف رضا گیلانی کامیاب ہوئے۔ ان کی کامیابی سے اپوزیشن اتحاد کو ایک نئی توانائی حاصل ہوئی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار کوئی حکمران جماعت اسلام آباد کی نشست جیتنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔
وزیراعظم جو اس شکست سے بہت زیادہ برہم تھے ، نے قوم سے خطاب کے دوران پیپلز پارٹی پر ووٹ خریدنے کا الزام عائد کر دیا۔ لگے ہاتھوں انہوں نے الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر بھی سوالات کھڑے کر دیے۔ جواب آں غزل کے طور پر الیکشن کمیشن نے بھی ایک پریس ریلیز کے ذریعے وزیر اعظم کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں باور کرایا کہ سینیٹ کے اراکین کا انتخاب آئین اور قانون کے مطابق ہوا ہے۔
درحقیقت وزیراعظم یہ چاہتے تھے کہ بیلٹ پیپرز پر کسی قسم کا بار کوڈ لگا دیا جائے تاکہ مشکوک ووٹوں کی نشاندہی کی جا سکے مگر آئین کا پیرا 226 اس بات کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ چنانچہ حسب روایت سینیٹ الیکشن خفیہ رائے دہی کے ذریعے منعقد ہوئے۔ بقول الیکشن کمیشن کسی فرد واحد کی خوشنودی کے لئے آئینی طریقہ کار تبدیل نہیں کیا جا سکتا تھا۔
حکومت کو دراصل اسلام آباد کی نشست پر شکست کے واضح آثار دکھائی دے رہے تھے لہٰذا وہ ایک طرف آئینی ترمیم کا بل اسمبلی میں لے کر آئی اور دوسری طرف صدارتی ریفرنس کے ذریعے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تاکہ سینیٹ الیکشن کا انعقاد اوپن بیلٹ سے ہو سکے۔ مگر بھرپور کوشش کے باوجود حکومت کسی فورم سے ریلیف حاصل کرنے میں ناکام رہی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیراعظم ایک طرف سینیٹ کے الیکشن اوپن بیلٹ اور دوسری طرف چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا انتخاب خفیہ طریقے سے منعقد کرانے کے خواہش مند ہیں۔ میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو کی پالیسی پر عمل کرنے کے بجائے حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ مل بیٹھ کر ایک متفقہ بل تیار کر کے اسے آئین کا حصہ بناتی تاکہ سینیٹ الیکشن میں پیسے کا استعمال روکا جا سکتا مگر حکومت متفقہ قانون سازی کے لئے سنجیدہ نہیں تھی۔
اب حکومت دن رات یوسف رضا گیلانی کی جیت کو دولت کی چمک کا شناخسانہ قرار دینے میں مصروف ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ پہلے چاروں صوبوں میں ضمنی انتخابات میں شکست کے بعد اور اب سینیٹ کے ایوان میں مطلوبہ اراکین کی اکثریت نہ ملنے پر حکومت اپ سیٹ کا شکار ہو چکی ہے اور بلا مقصد لکیر پیٹنے میں مصروف ہے کیونکہ سانپ تو اپنا کام کر کے نکل چکا ہے۔
دوسری طرف پی ڈی ایم کی قیادت اسلام آباد سے فتح یاب ہونے کے بعد سیاسی محاذ پر ڈرائیونگ سیٹ سنبھال چکی ہے۔ اب اس کی نظریں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب پر ہیں۔ اگر وہ یہ دونوں عہدے جیتنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کے حوصلے مزید بلند ہو جائیں گے۔
تحریک انصاف کی حکومت کے لئے آنے والا وقت بڑا کٹھن ثابت ہو گا کیونکہ اپوزیشن کے اگلے اہداف میں ممکنہ طور پر پنجاب حکومت گرانا اور قومی اسمبلی کے سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنا شامل ہے۔ مستقبل قریب میں این اے 75 ڈسکہ اور این اے 249 کراچی میں ہونے والے ضمنی الیکشن بھی موجودہ حکومت کے لئے ٹیسٹ کیس کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس نئی آزمائش سے سرخرو ہوتی ہے یا نہیں۔
انتخابی محاذ پر پے درپے شکستوں کے بعد وزیراعظم صاحب کے حوصلے ٹوٹ پھوٹ چکے ہیں۔ انہوں نے بڑے زور و شور کے ساتھ چور، ڈاکو، بے ایمان کی رٹ لگانا شروع کر رکھی ہے۔ موصوف کو شاید اقتدار کی کرسی اپنے نیچے سے سرکتی دکھائی دینے لگی ہے۔
بجائے اس کے کہ وہ مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائی کرنے میں اپنی توانائیاں صرف کرتے انہیں اپنی گورنس کو بہتر کرنا چاہیے تھا۔ اس کے ساتھ وہ عوام کو ریلیف دینے کے لئے جامع اقدامات کرتے۔ بیروزگاری کے خاتمے کے لئے ٹھوس منصوبہ بندی کرتے تاکہ عوام کا اعتماد ان پر بحال رہتا۔ اس طرح ضمنی انتخابات میں انہیں ہزیمت نہ اٹھانا پڑتی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت نے اپنی نصف مدت اپوزیشن رہنماؤں سے انتقام لینے اور ان کو دیوار کے ساتھ لگانے پر صرف کر دی۔
اس کا حکومت کو فائدہ ہونے کے بجائے الٹا نقصان اٹھانا پڑا۔ اس کے علاوہ احتساب کا نعرہ بھی اپنا اثر کھو چکا ہے۔ کیونکہ آج تک کسی شخص پر لگایا ہوا الزام ثابت نہیں کیا جا سکا۔ دوسری جانب براڈ شیٹ کی صورت میں ایک نئی بلا نیب اور حکومت کے لئے وبال جان بن چکی ہے۔ جس کی وجہ سے احتساب کے نعرے کو زک پہنچ چکی ہے۔
دوسری طرف پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں اپوزیشن قائدین بڑے مطمئن دکھائی دے رہے تھے۔ بلاول بھٹو نے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ ضمنی انتخابات اور سینیٹ الیکشن میں حصہ نہ لیتے تو اپوزیشن کہاں کھڑی ہوتی۔ آصف علی زرداری کی حکمت عملی نے اپوزیشن کی تحریک کو بام عروج پر پہنچا دیا ہے۔
26 مارچ کو پی ڈی ایم نے کراچی سے لانگ مارچ شروع کرنے کا اعلان کر رکھا ہے جو ممکنہ طور پر اسلام آباد یا راولپنڈی میں جا کر دھرنے کی شکل اختیار کرے گا۔ مولانا فضل الرحمٰن کے مطابق ایک واضح حکمت عملی کے ساتھ لانگ مارچ شروع کیا جائے گا تاکہ مطلوبہ نتائج کا حصول ممکن ہو سکے۔
اس نازک صورتحال میں سے خان صاحب کے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی کیونکہ ایک طرف وہ اپوزیشن کے ساتھ بات چیت کے روادار نہیں ہیں۔اور دوسری طرف وہ مہنگائی اور بے روزگاری ختم کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔
اب گیند اسٹیبلشمنٹ کے کورٹ میں ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس بحرانی کیفیت سے کس طرح عہدہ برآ ہوتی ہے۔
- محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی یاد میں - 29/12/2023
- عورت کی برہنگی - 15/11/2023
- آرمی چیف کی تعیناتی کا ہنگامہ - 19/11/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).