ناقابل فراموش کردار


میں نے 2007 میں جب مرزا اطہر بیگ صاحب کا ناول ”غلام باغ“ پڑھنا شروع کیا تو ان کا لکھا بہت الگ، دلچسپ اور اچھا لگا۔ ناول چار اہم کرداروں کے گرد گھومتا ہے جس میں ایک خاتون اور تین مرد حضرات ہیں اور سب آپس میں گہرے دوست ہیں۔

کسی بھی ناول یا افسانے کو پڑھتے ہوئے، کوئی ایک کردار ہمیں بہت مانوس، قابل ترس اور اپنے جیسا لگتا ہے۔ ناول پڑھتے ہوئے جو کردار مجھے مانوس، قابل ترس اور اپنے جیسا لگا وہ ناصر تھا۔

ناول پڑھنے کے ابتدائی دنوں میں ہی میں نے اس ناول کے خالق کے بارے سوچنا شروع کر دیا اور ہر روز کتاب پڑھنے کے بعد ان سے ملنے کا اشتیاق اور بڑھتا گیا۔

ان دنوں مرزا صاحب گورنمنٹ کالج کے فلسفہ ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ تھے۔ میں بھی چونکہ وہیں سے گریجویشن کر رہی تھی اگرچہ میرے مضامین مختلف تھے۔ ایک روز کلاس لینے کے بعد مرزا صاحب سے ملنے چل نکلی۔ ذاتی مددگارسے اجازت لے کے میں ان کے آفس پہنچی اور دروازے پہ دستک دی۔ جناب نے اندر آنے کا اشارہ کیا اور بولے ہاں جی کیسے آنا ہوا۔ میرا جواب بہت سادہ اور سچا تھا کہ آپ کا غلام باغ پڑھ رہی ہوں تو آپ سے ملنے کا شوق ہوا۔ اسی لیے آئی ہوں۔ وہ بولے، خود کو زہرہ خیال کرتی ہو؟ زہرہ اس ناول کا اہم ترین، مضبوط، خودمختار کردار ہے۔ میں نے جواب دیا نہیں مجھے لگتا ہے میں ناصر ہوں۔ وہ کچھ دیر خاموش رہے پھر بولے، کافی پیچیدہ کردار ہے۔

مرزا صاحب سے ملنے کے بعد میں نذیر احمد میوزک سوسائٹی جا پہنچی تو جس دوست نے غلام باغ پڑھنے کے لیے دیا تھا، اس نے واپس مانگا کہ وہ ناول جس دوست نے اسے دیا تھا وہ واپس مانگ رہی ہے۔ مجھے بہت برا لگا مگر بغیر کسی شکایت کے میں نے وہ ناول دوست کو واپس کر دیا۔

اگلے مہینے کا جیب خرچ ملنے پر میں نے نیا غلام باغ خریدا تا کہ میں جان سکوں کہ کہانی کا انجام کیسا ہوا اور ناصر کا کیا بنا۔ میں نے نئی کتاب کو پڑھنا شروع کیا تو مجھے مزہ نہیں آ رہا تھا کیونکہ کتاب بہت نئی تھی اور مجھے پرانی کئی بار پڑھی جا چکنے والی کتاب سے پڑھنا تھا۔ سو وہ کتاب میری سائیڈ ٹیبل پہ دو سال پڑی رہی۔

ایک روز میں نے اس سے چھٹکارا پانے کا فیصلہ کیا اور اس کتاب کو اپنے ایک دوست کو لندن میں ارسال کیا۔ جب میں ارسال کر رہی تھی تو مجھے کتاب کی قسمت پہ بہت رشک آیا کہ وہ لندن کے بازاروں میں گھومے گی۔ کسی کافی شاپ پہ جب میرے دوست نے اسے تھاما ہو گا تو بہت سی نا محرم نظریں اسے چھوئیں گیں اور پھر یہ کتابوں کی الماری، بستر کے ساتھ والی میز یا کسی گمنام کونے کے رونق بن جائے گی۔ ایک سال بیت گیا اس دوست نے کال کی اور پیغام دیا کہ تمہاری کتاب واپس بھجوا رہا ہوں کیونکہ مجھے اس کی کچھ سمجھ نہیں آئی۔

یوں ایک بار پھر یہ کتاب، مسترد کیے جانے کے بعد میرے ہاتھوں میں تھی۔ شاید کتاب کی قسمت پہ میرا رشک، اصل میں میرا حسد تھا۔ بہرحال وہ جو بھی تھا۔ وہ میرے ساتھ تھی اور ان چند منتخب کتابوں میں سے تھی جس نے میرے ساتھ بارہا لاہور سے اسلام آباد، اسلام آباد سے لاہور اور لاہور سے اسلام آباد سفر کیا مگر اس کو پڑھنے کا وقت شاید ابھی بھی نہیں آیا تھا۔

وہ کئی برس ہمارے گھر کی الماری میں سجی رہی جسے میں نے 2019 کے ساون میں دوبارہ پڑھنا شروع کیا۔ کتاب شروع کرنے سے پہلے میں نے خود سے پوچھا کیا اب بھی اتنے برس گزرنے کے بعد مجھے ناصر ہی اپنے جیسا لگے گا اور میرا جواب ”نہیں“ تھا۔ سو کتاب پڑھنا شروع کی اور ایک بار پھر مجھے ناصر بہت مانوس۔ قابل ترس اور اپنے جیسا لگا۔

اس ناول میں بہت بارشیں ہیں اور اتفاقاً ساون کے مہینے میں پڑھنے سے بارہا ایسا ہوا کہ ناول میں بارش ہوئی تو اصل میں بھی بارش ہوئی اور میں نے ناول کی بارش کا مزہ اصل میں نہا کر لیا۔ یہ میرے ہوش سنبھالنے کے بعد سے پہلی بارشیں تھیں جن میں بھیگ کر میں نے لطف اٹھایا۔ وگر بارشوں کے برسنے اور بادلوں کے گرجنے سے خوف آتا تھا۔ اس کی وجہ ایک لمبی کہانی ہے جو اس کہانی کا موضوع نہیں۔

جیسے جیسے ناول اختتام کی طرف بڑھا میری حیرت بھی بڑھتی گئی اور زہرہ کے بہت قریب کردار جن کی وجہ سے مجھے ناصر سے ہمدردی تھی ایک ایک کر کے مر گئے اور ناصر ہی وہ کردار تھا جو آخر میں زہرہ کے قریب تو نہیں مگر ساتھ تھا۔ اس روز مجھے سمجھ آیا کہ مرزا صاحب نے اسے پیچیدہ کیوں کہا تھا۔

اس کتاب کا اثر کافی عرصہ رہا۔ اس کے بعد میں نے کئی کتابیں پڑھیں مگر کوئی کردار مجھے اپنے جیسا نہیں لگا۔

2020 میں میں نے انیس اشفاق صاحب ک ”خواب سراب“ ایک دوست کی تجویز پر پڑھنا شروع کیا۔ آغاز میں ہی کتاب دلچسپ لگی۔ کچھ ذرا آگے بڑھ کر ایک کردار ”ہینگا“ آیا۔ یہ ایک خاتون کردار ہے جو شروع سے مجھے مانوس، قابل ترس اور اپنے جیسا لگا۔ کہانی میں کچھ آگے بڑھ کر، کتاب پڑھتے ہوئے میرے ذہن میں خیال آیا کہ کہیں ہینگا کے ساتھ بھی وہی نہ ہو جو نا صر کے ساتھ ہوا۔ میں نے اس خیا ل کو اس دلیل کی بنیاد پر رد کر دیا کہ اپنے لیے دو مختلف کتابوں میں سے منتخب کیے ہوئے کردار بھلا ایک جیسے کیسے ہو سکتے ہیں اور اگر وہ ایک جیسے ہوں بھی تو ان کی قسمت تو ایک جیسی نہیں ہو سکتی۔

خواب سراب میں بھی کرداروں کا تناسب غلام باغ جیسا تھا فرق صرف یہ تھا کہ ایک مرد اور تین خواتین ہیں۔ کہانی جیسے جیسے آگے بڑھی تمام اہم کردار جو مرد کردارکے زیادہ قریب تھے ایک ایک کر کے مرتے گئے اور ہینگا ہی وہ کردار نکلا جو ناول کے آخر میں اہم کردار کے قریب تو نہیں مگر ساتھ تھا۔

اس ناول کے اختتام پر مجھے اپنا آپ بالوقت سائیکک اور غیرمعمولی طور پر اہم لگا اور پھر اچانک مرنے والے کرد اروں پہ اپنا رشک مجھے حسد لگنے لگا اور دونوں ناولز کے اختتام پرمین کردار کے ساتھ قابل ترس اور اپنا من پسند کردار بھی مجھے کچھ راحت نہ دے پایا۔ ہاں مگر کچھ بے آرام راتیں میرا انعام ٹھہریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments