جمہوریت اور عدم برداشت


ہفتہ کے دن، جب قومی اسمبلی کے ایوان میں وزیراعظم پر اعتماد کے ووٹ کی کارروائی جاری تھی، صرف چند میٹر کے فاصلے پر ایک نا خوشگوار واقعہ بھی ٹیلی ویژن کی سکرینوں پہ دکھایا جا رہا تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ ایوان کے اندر کی کارروائی سے کہیں زیادہ ایوان سے باہر میدان میں ہونے والا تماشا لوگوں کی دلچسپی کا سامان بنا ہوا تھا۔ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے اسمبلی کی کارروائی کا بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ اتحاد کے رہنما پریس کانفرنس کر رہے تھے کہ حکمران سیاسی جماعت کے کارکنوں نے ان کے آس پاس جمع ہو کر شدید نعرہ بازی شروع کر دی۔

اس شور و غل میں کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا کہ اپوزیشن راہنما کیا کہہ رہے ہیں۔ پھر نوبت ہاتھا پائی اور دھکم پیل تک آ گئی۔ کسی نے احسن اقبال کی طرف جوتا اچھال دیا۔ مریم اورنگ زیب کے ساتھ بدتمیزی کی گئی۔ پولیس نے بہت دیر بعد مداخلت کی۔ تب تک یہ ایوان کے اندر ہونے والی کارروائی سے کہیں بڑی خبر بن چکی تھی۔ شام کے ٹاک شوز میں بھی وزیر اعظم کے اعتماد سے کہیں زیادہ ایوان سے باہر ہونے والے ہنگامے کا تذکرہ رہا۔

چند ہی روز پہلے، اسلام آباد ہی میں ہائیکورٹ پر وکلاء نے حملہ کر دیا۔ یہاں تک کہ چیف جسٹس کے چیمبر میں گھس کر انہیں یرغمال بنا لیا۔ عمارت کے شیشے توڑ دیے گئے۔ چیف جسٹس چیمبر میں بھی توڑ پھوڑ کی گئی۔ چیف جسٹس نے اس کا نوٹس لیا۔ اب قانونی کارروائی جاری ہے۔ لیکن یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہ تھا۔ ایسے درجنوں افسوسناک واقعات ہو چکے ہیں اور وکلاء جو قانون کے محافظ سمجھے جاتے ہیں، قانون شکنی کا ہر اول دستہ بنے رہے۔ اسلام آباد میں ہائیکورٹ پر وکلاء کے حملے کا سبب یہ بنا کہ فٹ بال گراؤنڈ میں ان کے بنائے ہوئے خلاف قانون چیمبرز گرا دیے گئے تھے۔ اب تو سپریم کورٹ کا حتمی فیصلہ بھی آ گیا ہے کہ ایسے تمام چیمبرز گرا دیے جائیں جو فٹ بال گراؤنڈ میں بنائے گئے ہیں۔

کیا عدم برداشت، تلخی اور لا قانونیت ہمارا قومی مزاج بن چکی ہے؟ یہ انتہائی اہم سوال ہے۔ ہمارے دانشوروں کو سنجیدگی سے اس کا جائزہ لینا چاہیے۔ اگر ہم جمہوریت کے نام لیوا ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے اور ہمارا آئین بھی جمہوری خطوط پر بنا ہے تو پھر جمہوریت ہمارے مزاج اور ہمارے رویوں کا حصہ کیوں نہیں بنتی؟ عدالتوں میں جھگڑے، قانون ساز ایوانوں میں لڑائیاں، درس گاہوں میں ہنگامے، سڑکوں پر تصادم، ہر طرف عدم برداشت کے مظاہرے دکھائی دیتے ہیں۔

ایسا کیوں ہے؟ جمہوریت کا بنیادی اصول رائے کی آزادی ہے۔ قانون کا احترام اور اس پر عمل بھی اس سے جڑا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری بات سنی جائے، ہماری رائے کا احترام کیا جائے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم دوسروں کی بات بھی سنیں اور اس کا احترام کریں۔ ایسا نہیں ہو رہا۔ مسلم معاشرہ ہوتے ہوئے ہمارے ہاں دوسرے کے عقیدے، مسلک اور نظریے کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ یہاں تک کہ اس سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیا جاتا ہے۔دوسروں کی عبادت گاہوں کو بھی معاف نہیں کیا جاتا۔

بدقسمتی سے عدم برداشت کا یہ رجحان کم ہونے کے بجائے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ جوں جوں تعلیم کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔ توں توں ہم میں عدم تحمل کی بیماری بڑھتی جا رہی ہے۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے نظام تدریس و تعلیم اور نصاب میں اخلاق و کردار کی تعمیر اور جمہوری سوچ کی تشکیل کا کوئی حصہ نہیں؟ نوبت تو یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ کالجوں اور جامعات میں طلبہ، قومیت اور نسل کی بنیادوں پر تقسیم ہو چکے ہیں اور آئے روز ان میں تصادم ہوتا رہتا ہے۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے گھروں کے اندر بھی محبت، ایک دوسرے کے احترام اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا ماحول نہیں رہا۔ تلخیاں اور ناچاقیاں بڑھ رہی ہیں۔ طلاق کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس ماحول میں پلنے بڑھنے والے بچوں میں بھی اس طرح کی سوچ کا پیدا ہونا فطری سی بات ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے قومی رہنماؤں کا لب ولہجہ بھی محبت، باہمی احترام اور رواداری والا نہیں رہا۔ ایسے الفاظ اب روزمرہ کا معمول بن گئے ہیں، جو ماضی میں سیاست دانوں کی زبانوں پر کم ہی آتے تھے۔ چور، ڈاکو، لٹیرے، اچکے، غنڈے، بدمعاش اور ایسے ہی غیر مہذب الفاظ ہمارے نہایت سینئر رہنماؤں اور حکمرانوں کی زبانوں پر رہنے لگے ہیں۔ پیٹ چاک کریں گے، گھسیٹیں گے، جیلوں میں ڈالیں گے، عبرت کا نشان بنا دیں گے، کے نعرے معمول بن چکے ہیں۔

بڑوں کے اس طرز عمل نے کارکنوں میں بھی عدم برداشت اور اشتعال کے منفی جذبات ابھار دیے ہیں۔ ساری دنیا میں سیاست دان موجود ہیں۔ سیاسی سرگرمیاں بھی ہوتی ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف انتخابات بھی لڑے جاتے ہیں۔ ہار جیت بھی ہوتی ہے۔ لیکن وہ کچھ نہیں ہوتا جو ہمارے ہاں ہو رہا ہے۔

امریکہ خود کو مہذب جمہوری ملک کہلاتا ہے۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارت کے دور میں ایسا رویہ اختیار کیا اور اس طرح کی زبان بولنے لگے جو امریکی تہذیب کا حصہ نہ تھی۔ ٹرمپ نے مخالف سیاست دانوں اور صحافیوں کا تمسخر اڑایا۔ ان کے خلاف نا زیبا ریماکس دیے لیکن امریکی عوام کی اکثریت نے اسے پسند نہ کیا۔ مبصرین کے خیال میں ٹرمپ کی شکست کا ایک بڑا سبب اس کا یہی غیر مہذب رویہ تھا۔ ٹرمپ نے اس کا مظاہرہ ہارنے کے بعد بھی کیا جب اس نے اپنے حامیوں کو پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر جمع کیا اور وہ پارلیمنٹ کے اندر داخل ہو کر توڑ پھوڑ کرنے لگے۔ اس رویے کی قومی سطح پر مذمت کی گئی۔ خود ٹرمپ کی جماعت، ری پبلکن پارٹی کے رہنماؤں نے بھی اس پر تنقید کی۔

سیاست میں عدم تحمل اور عدم برداشت کے رویے ختم نہ ہوئے تو معاشرہ بری طرح تقسیم ہو جائے گا۔ گھر گھر لڑائیاں شروع ہو جائیں گی۔ سیاسی رہنماؤں کا فرض ہے کہ وہ خود بھی اپنے انداز بیان کو بدلیں۔ تلخ اور توہین آمیز الفاظ کے استعمال سے گریز کریں۔ اچھے سماجی تعلقات قائم کریں۔ حال ہی میں سینیٹ کی ایک نشست کے لئے پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کے دو امیدواروں کے درمیان ایک سنسنی خیز مقابلہ ہوا۔ لیکن ووٹنگ اور پھر گنتی کے دوران، دونوں مخالف امیدوار حفیظ شیخ اور یوسف رضا گیلانی ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے خوش گپیاں کرتے رہے۔

وہ ایوان میں ایک دوسرے سے گرم جوشی سے ملے۔ حفیظ شیخ نے یوسف رضا گیلانی کو جیت کی مبارک باد دی۔ ایسے مناظر ہی جمہوریت کا حسن ہیں۔ جب سیاست دان اوپر کی سطح پر اس طرح کی رواداری کا مظاہرہ کریں گے تو ان کے کارکنوں تک بھی بہت اچھا پیغام جائے گا۔ اور اگر اس بیماری پر قابو نہ پایا گیا تو صورتحال بے قابو ہو سکتی ہے۔ ہم نے ڈسکہ انتخابات میں بھی یہی کچھ دیکھا تھا جہاں دو افراد جانوں سے گئے۔ وقت آ گیا ہے کہ سیاست دان مل بیٹھیں اور ممکن ہو تو ایک ضابطہ اخلاق پر اتفاق کریں اور جمہوریت کو جمہوریت بنانے میں مدد دیں۔

بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments