”سوڈو شریف بیبیو‘‘ محترمہ! یہ انداز بیاں درست نہیں


سوڈو ”pseudo“ انگریزی زبان کا لفظ ہے۔ ”Oxford English Urdu Dictionary“ کے مطابق اس کا مطلب ہے :
”جعلی، بناوٹی، غیر مخلص، جھوٹا“

اب اگر ہم ان معنی کو لفظ ”سوڈو“ کی جگہ پر رکھیں تو مطلب بڑا خطرناک ہو جاتا ہے۔ یعنی ”سوڈو شریف بیبیاں“ میں لفظ سوڈو کا مطلب کیا ہے؟ آکسفرڈ ڈکشنری والے مطلب اگر مراد ہیں تو مطلب کچھ اس طرح بنیں گے :

1۔ جعلی شریف بیبیاں۔ یعنی ”ایسی عورتیں جن کی شرافت جعلی ہے۔“
2۔ بناوٹی شریف بیبیاں۔ یعنی ”ایسی عورتیں جو شرافت کا ڈھونگ کر رہی ہوں۔“
3۔ غیر مخلص شریف بیبیاں۔ یعنی ”ایسی عورتیں جو شرافت کا لحاظ نہ رکھتی ہوں۔“
4۔ جھوٹی شریف بیبیاں۔ یعنی ”ایسی عورتیں جو شریف نہ ہوں۔“

ان تمام لغوی مطالب کو ملا کر اگر ہم اصطلاحی معنی بنائیں تو ہم کہہ سکتے ہیں :
”سوڈو شریف بیبیوں سے مراد وہ عورتیں ہیں جو شریف نہ ہوں یا وہ عورتیں جو شرافت کا ڈھونگ رچاتی ہوں۔“

اب میں یہاں سوال پوچھتا ہوں کہ کسی عورت کو یہ کہنا کہ وہ شریف نہیں ، اس کے کردار پر حملہ ہے یا نہیں؟ اب شاید کوئی یہ سوچے کہ یہ حملہ کسی مرد کی طرف سے ہو گا۔ تو اسے بتاتا چلوں کہ یہ ایک عورت کا حملہ ہے۔ اور وہ بھی ایسی عورت جو عورتوں کی عزت کا درس بھی دیتی ہیں۔ ممکن ہے محترمہ کہیں کہ میں نے رویے کی بات کی تھی یا میں نے اس لفظ کو سمجھنے میں غلطی کی۔ دونوں باتیں ممکن ہیں۔

 8 مارچ 2021 کو ایک بلاگ ’ہم سب‘ پر شائع ہوا۔ جس کا عنوان تھا:
سوڈو شریف بیبیو، آپ کو عورت مارچ سے کیا مسئلہ ہے؟ مصنفہ : محترمہ خوشبخت صدیقی۔“

اس تحریر کو پڑھ کر مجھے ایسا لگا کہ جیسے کوئی انسان انتہائی غصے کی حالت میں بیٹھا ہو۔ اپنے آپ پر اپنا قابو کھو بیٹھا ہو اور جو منہ میں آئے کہے جا رہا ہو۔ یہ تحریر عدم برداشت کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔ اس بلاگ کو پڑھنے پر پتہ چلتا ہے کہ محترمہ کا یہ غصہ عورتوں پر نکلا ہے۔ وجہ یہ بنی کہ پرسوں ہونے والے عورت مارچ میں ان عورتوں نے نہ ہی صرف یہ کہ شرکت نہیں کی بلکہ اپنا الگ سے ایک مارچ نکالا اور اس مارچ میں ان کے نعروں کے مقابلے میں اپنے الگ نعرے لگائے اور ان کے پوسٹرز کے مقابلے میں اپنے الگ پوسٹر لگائے۔ محترمہ کو ان کی اس ”گستاخی“ پر اتنا غصہ آیا کہ کردار پر حملہ تو الگ کیا۔ ساتھ میں انہیں انتہائی برے القاب سے نوازا۔ جو کہ یہ ہیں:

” منافق، مردوں کی چاپلوس، سطحی علم والی، بے حس، خود غرض اور حد تو تب ہو گئی جب محترمہ نے ان کے عورت ہونے پر بھی افسوس کر لیا۔“

جبکہ ایک صاحب نے نیچے تبصرے میں ایسی عورتوں کو ”ذہنی مریض لکھا اور ماہر نفسیات کی جانب رجوع کرنے کا کہا۔“

محترمہ تحریرکی ابتداء میں ہی کنفیوز نظر آئیں۔ انہوں نے ان عورتوں سے سوال کیا جو ان کے بقول ”شریف نہیں“ کہ ”آپ کو مسئلہ کیا ہے ہمارے مارچ سے؟“ ۔ اب یہ انداز بیاں ایک ایسے شخص کا ہوتا ہے جو اپنی بات یا تو ثابت نہیں کر پا رہا ہوتا یا پھر مخالف کے دلائل سمجھ نہیں آ رہے ہوتے۔

محترمہ سے میرا سوال ہے کہ ”آپ کو پتہ ہی نہیں تھا“ سوڈو شریف بیبیوں ”کو مسئلہ کیا ہے یا پھر آپ ان کی بات سمجھ نہ سکیں؟“ کسی بھی نظریے یا فرد پر تنقید سے قبل اس کا موقف بیان کرنا ضروری ہے لیکن آپ نے تو پورے بلاگ میں ایسا کچھ نہیں کیا۔

محترمہ کا غصہ یہیں پر نہیں رکتا ، انہیں اپنے مکتب فکر پر بھی اعتراض ہے کہ وہ وضاحت کیوں دیتا ہے ”میرا جسم میری مرضی“ پر اعتراض اٹھانے والوں کو۔ سیدھی طرح یہ کیوں نہیں کہتا کہ جو تم سمجھ رہے وہی مطلب ہے اس کا۔ محترمہ سے عرض ہے کہ اپ کا مکتب فکر پوری طرح غصے میں نہیں آیا ہے ابھی تک ، اس لیے وضاحت کر رہا ہے جیسا کہ محترم یاسر پیرزادہ صاحب نے اپنے کالم میں کی کیونکہ وہ لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ آپ کی تجویز قبول کرنے کے نتیجے میں کیا نتائج نکلیں گے۔

اب سوال یہ ہے کہ محترمہ کو وہ تمام عورتیں جو ان کے نظریے اور موقف کے خلاف ہیں ”سوڈو شریف، منافق، بے حس، سطحی علم والی، چاپلوس اور عورت پر داغ“ کیوں نظر آئیں۔ اس کے پیچھے اصل وجہ ہے ہمارا معاشرتی رویہ۔ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ آپ دلیل کی بنیاد پر کوئی رائے اختیار کر ہی نہیں سکتے۔ ضرور آپ کا کوئی ایجنڈا ہو گا، ضرور آپ کسی کے ایجنٹ ہوں گے یا پھر آپ کسی عالمی سازش کا حصہ ہوں گے۔

جیسے عورت مارچ کے مخالفین اسے ”امریکہ اور یہودیوں کی سازش قرار دیتے کہ جن کا مقصد بے حیائی، فحاشی اور عریانی پھیلانا ہے“ ۔ اگر آپ ”محافظوں“ کے کسی عمل پر نکیر کریں دلیل سے تو ”آپ را کے ایجنٹ ہیں“ ۔ حکومت کے کسی عمل پر اعتراض کریں تو ”اگر صحافی ہیں تو لفافہ ملا ہے اور اگر عام آدمی ہیں تو ضرور حکومت مخالف جماعت کا حصہ ہوں گے ۔“ یہی حالت مذہبی طبقے کی ہے۔ چونکہ محترمہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں تو وہ کیسے محفوظ رہ سکتی ہیں اس سوچ سے لہٰذا انہوں نے بھی یہی انداز اپنایا۔

آخر میں ایک گزارش اور ایک سوال کرنا چاہوں گا۔ گزارش محترمہ سے ہے اور سوال ہمارے محترم ایڈیٹر صاحب سے۔

1۔ محترمہ سے بس اتنی گزارش ہے کہ ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے جہاں ہر نظریے کے لوگ رہتے ہیں۔ جب آپ کوئی موقف اپناتی ہیں تو اس کی مخالفت میں بھی ایک موقف ہوتا ہے۔ یہ انداز صرف اور صرف انسان کو عدم برداشت کی جانب لے کر جاتا ہے جو آپ نے اپنے بلاگ میں اپنایا۔

2۔ محترم ایڈیٹر صاحب سے سوال ہے کہ ”ہم سب“ کی ادارتی پالیسی میں یہ لکھا ہے کہ :

”اگر آپ کسی دوسرے مصنف کے مضمون کا جواب لکھ رہے ہیں یا حالات حاضرہ پر عمومی تبصرہ کر رہے ہیں تو اس فرد کو نشانہ بنانے کی بجائے اس کے موقف پر بات کریں۔ مضمون میں اگر کسی کی کردار کشی کا پہلو ہو تو اس کے شائع ہونے کا امکان بہت کم ہے۔“

اب مجھے سمجھ نہیں آتا کہ کسی عورت کی شرافت پر حملہ کرنا، اسے منافق کہنا، اسے چاپلوس کہنا، سطحی علم والی کہنا، بے حس اور خود غرض کہنا اگر کردار کشی نہیں تو پھر کردار کشی ہے کیا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments