کورونا آئی سی یو میں ایک ڈاکٹر کے شب و روز



آج کل میری کورونا آئی سی یو میں ڈیوٹی ہے، روزانہ کتنے ہی لواحقین آتے ہیں، وینٹی لیٹر پر پڑے اپنے مریض دیکھتے ہیں، سسکیوں کے ساتھ دعائیں مانگتے ہیں۔ سورۃ الرحمن کی تلاوت چلا کر مریض کے سرہانے موبائل رکھ دیتے ہیں۔ بار بار ہمارے پاس آتے ہیں، ایک ہی سوال پوچھتے ہیں کہ ”کیا کچھ بہتری کی گنجائش ہے، ہمارا مریض کب تک ٹھیک ہو جائے گا“ میں انہیں بس یہی جواب دیتا ہوں کہ ہمارے بس میں جو ہے، وہ ہم کر رہے ہیں، باقی آپ دعا کریں۔

کورونا آئی سی یو میں زندگی اور موت کے درمیان جو فرق ہے وہ ”وینٹی لیٹر“ کا ہے۔ خود سے سوال کرتا ہوں کہ ابھی تک کورونا مریضوں کا وینٹی لٹیر پر کوئی اچھا رسپانس نہیں، تو لوگ کیوں اپنے لواحقین کو اس مشین پر ڈلوانا چاہتے ہیں، اس سوال کا جواب بھی مجھے فوراً مل جاتا ہے۔ میں وہ دن یاد کرتا ہوں جب میری اپنی پھوپھو کورونا کا شکار تھیں، مجھے تقریباً ہر ڈاکٹر نے جواب دے دیا تھا، لیکن میں انہیں بچانے کی خاطر کسی بھی حد تک جانے کو تیار تھا، شاید ہمارے دلوں میں جو محبت کا جذبہ ہے، جو امید کی ایک روشنی ہے، وہی ہمیں زندہ رکھتی ہے، ہمیں کچھ بھی کرنے کا حوصلہ دیتی ہے۔

اسی جگہ سب سے زیادہ دعائیں کی جاتی ہیں، لواحقین رو رو کر، جھولیاں اٹھائے اپنے پیاروں کی صحت یابی کی دعا مانگتے ہیں۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں سب سچے اور خلوص دل سے اپنے پروردگار سے مانگتے ہیں، ان دعاؤں کے بعد ، وہ سب معجزے کے منتظر ہوتے ہیں کہ کب ان کا پیارا اس مصنوعی مشین سے واپس لوٹ آئے، اس مصنوعی مشین سے واپس آنے کا سفر نہایت کٹھن ہے، لوگوں سے یہ سفر طے نہیں ہوتا، وہ معجزے کے لیے اوپر والے سے دعا کرتے ہیں اور ہم سے امید لگا بیٹھتے ہیں کہ ہم کب انہیں خوشخبری سنائیں گے؟ لیکن معجزے بھلا اتنی آسانی سے کیسے رونما ہوتے ہیں؟

کچھ کورونا کے مریض یاد بھی رہ جاتے ہیں جیسے کہ وہ ایک مریضہ تھی، جوان تھی لیکن اس جان لیوا وبا کا شکار ہو گئی، اسے وینٹی لیٹر پر ڈال دیا گیا ، آہستہ آہستہ اس کی حالت بگڑتی جا رہی تھی، ایک لمحہ وہ آ گیا کہ جب ہمیں پتا چل چکا تھا کہ ہم انسانوں کی کوشش اب یہاں تک ہی ہے، اس سے آگے مالک کی رضا ہے، جس کے سامنے ہم بے بس ہیں، اس مریضہ کے بچے میرے پاس آتے، رو کے کہتے کہ ڈاکٹر صاحب ماما کو بچا لیں، جو بھی دوائی آپ کہیں، جو کام آپ کہیں، ہم کرنے کو تیار ہیں، لیکن ماما کو بچا لیں۔

میں آج تک اتنا بے بس نہیں ہوا، ایک طرف ماں تھی، جس پر محبت ختم ہے، وہ زندگی اور موت کی کشمش میں تھی، جبکہ میں چاہتے ہوئے بھی کچھ کر نہیں سکتا تھا۔ میں نے اس کی موت کو ڈیکلیئر کیا، اس کا ڈیتھ سرٹیفیکٹ بنا کر اس کے سہمے ہوئے بچوں کو تھمایا اور بوجھل دل کے ساتھ واپس اپنے کمرے میں آ گیا۔

کبھی کبھی خود سے سوال کرتا ہوں کہ کاش موت ہوتی ہی نہیں تو حضرت موسیٰ والا واقعہ یاد آ جاتا ہے۔ لیکن پھر سوچتا ہوں کہ کاش سب کو موت آ جاتی لیکن ماں موت سے مستثنیٰ ہوتی، اگر خدا نے ماں کو اتنی محبت سے نوازا ہے تو اس کو موت نہ دیتا، آخر ہم انسانوں پر اتنی بڑی آزمائش کیوں؟

اسی کشمکش میں نبی کریم ﷺ کی والدہ کی وفات والا واقعہ یاد آ جاتا ہے، اللہ نے تو اپنے محبوب کو اتنی چھوٹی عمر میں اتنی بڑی آزمائش سے گزارا تو ہم اس آزمائش، اس جدائی سے کیسے بچ سکتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کی زندگی یاد آ جاتی ہے کہ ان آزمائشوں کے بعد  وہ ایک ایسی شخصیت بنے جن کی تعلیمات رہتی دن تک ہم سب کے لئے مشعل راہ ہیں تو میں پرسکون ہو جاتا ہوں کہ وہ جو ہمیں اس آزمائش میں ڈال رہا ہے ، وہ ضرور اس آزمائش سے نکالنے کا سامان بھی مہیا کرے گا، کیونکہ یہ اس کا فیصلہ ہے کہ ”وہ کسی بھی ذی روح پر اس کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments