معراج النبی ﷺ : عبدیت کا عروج


سید الانبیاء ﷺ کی جہد مسلسل دس برس سے جاری و ساری تھی۔ اس دوران آپ ﷺ نے اگرچہ دعوت کے کئی میدان سرکولیے تھے لیکن قریش بھی اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کے نت نئے حربے آزما رہے تھے۔ یہ بات صحیح ہے کہ اس مدت کے دوران بنو اسماعیل کے بیشتر سلیم الفطرت افراد رسول اللہ ﷺ کی آغوش ہدایت میں آ چکے تھے لیکن سرداران قریش اب بھی دعوت حق کے اس شجر کو بیخ و بن سے اکھاڑنے پر تلے ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب قریش کا مسلمانوں کے خلاف کیا گیا معاشی مقاطعہ اپنی ابدی موت مرا تو قریش اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے اور انہوں نے پیغمبر اسلامﷺ کے خلاف اپنے تمام قبائلی وسائل بروئے کار لاتے ہوئے آپ ﷺ کی دعوتی سرگرمیاں ختم نہ سہی لیکن قابل لحاظ حد تک محدود اور بے اثر کرنے کی کوششیں تیز تر کر دیں۔

قریش کی اس نئی تگ و دو کے پیچھے اگرچہ اپنی سرداری اور چودھراہٹ کو دوام بخشنے کی نفسیات بدرجۂ اتم موجود تھیں لیکن مسلمانوں کے معاشی مقاطعے کے اختتام کے ساتھ ہی نبی ﷺ کی رفیق و شفیق زوجہ، حضرت خدیجہؓ کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ  کے سرپرست ابو طالب کا بھی انتقال ہو گیا۔ ظاہر سی بات ہے کہ قبائلی ماحول میں خاندانی سرپرستی کے بغیر پر امن زندگی کا تصور کرنا بھی محال ہوا کرتا تھا۔ ابو لہب نے قبیلہ بنو ہاشم کی کمان سنبھالتے ہی نبی ﷺ کو اپنی سرپرستی میں لینے سے صاف صاف انکار کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی قریش نے بالعموم اور ابو لہب نے بالخصوص نبی ﷺ کے مخاصمت کو شدید تر کر دیا۔

اس صورت حال میں نبیﷺ موسم حج میں مختلف قبائل سے ملتے اور ان کو دعوت حق کے ساتھ ساتھ ان میں سے کسی طاقتور اور مؤثر قبیلے کی سرپرستی کی جستجو بھی فرماتے۔ لیکن ابو لہب اس دوران اپنے کارندوں کے ذریعے نبی ﷺ کے خلاف ڈھنڈورہ پٹواتا رہتا تھا۔ نتیجتاً کوئی بھی قبیلہ نبی ﷺ کو اپنی پناہ میں لینے کے لئے تیار نہ ہوا۔ اب رسول اللہ ﷺ نے طائف جانے کا ارادہ فرمایا جہاں آپ ﷺ کی بنو ثقیف کے ساتھ آبائی رشتہ داری تھی۔

اس سفر کے لئے زید بن حارثہؓ کو آپ ﷺ نے اپنا ہمسفر بنایا۔ حیرت انگیز طور پر اہل طائف نے نہ صرف یہ کہ نبی ﷺ کی دعوت پر لبیک نہیں کیا بلکہ عرب روایات کے برعکس نبی ﷺ کی مہمانداری کرنے سے بھی صاف انکار کر دیا۔ اس کے برعکس طائف کے رئیسوں نے شہر کے اوباشوں کو اکسا کر نبی ﷺ کے پیچھے لگا دیا۔ ان کم ظرفوں نے آپ ﷺ کے اوپر پتھر برسا برسا کر لہولہان کر دیا۔ اگرچہ زید بن حارثہؓ لگاتار نبی ﷺ کی ڈھال بنے رہے، لیکن طائف کے ان بدمعاشوں کی سنگ باری اتنی مسلسل تھی کہ نبی ﷺ کے نعلین تک میں خون جم گیا۔

اس سے پیشتر مکہ میں اور اب طائف والوں کے اس برتاو نے نبی ﷺ کو بہت زیادہ متاثر کیا۔ لیکن ان شدید ترین حالات کے علی الرغم نبی ﷺ کو اپنی دعوت کے حق ہونے میں کتنا کامل یقین تھا، اس کا اندازہ آپ ﷺ کی اس دعا سے لگایا جاسکتا ہے جو آپ ﷺ نے طائف سے واپسی پر بارگاہ ایزدی میں کی اور جس کو اکثر محدثین اور مورخین نے محفوظ کیا ہے۔ دعا کے الفاظ کچھ اس طرح کے ہیں :

”بارالٰہا! میں تجھ ہی سے اپنی کمزوری و بے بسی اور لوگوں کے نزدیک اپنی بے قدری کا شکوہ کرتا ہوں۔ یا ارحم الراحمین! تو کمزوروں کا رب ہے اور تو ہی میرا بھی رب ہے۔ تو مجھے کس کے حوالے کر رہا ہے؟ کیا کسی بیگانے کے جو میرے ساتھ تندی سے پیش آئے؟ یا کسی دشمن کے جس کو تو نے میرے معاملے کا مالک بنا دیا ہے؟ اگر مجھ پر تیرا غضب نہیں ہے تو مجھے کوئی پروا نہیں ؛ لیکن تیری عافیت میرے لئے زیادہ کشادہ ہے۔ میں تیرے چہرے کے اس نور کی پناہ چاہتا ہوں جس سے تاریکیاں روشن ہو گئیں اور جس پر دنیا و آخرت کے معاملات درست ہوئے کہ تو مجھ پر اپنا غضب نازل کرے، یا تیرا عتاب مجھ پر وارد ہو۔ تیری ہی رضا مطلوب ہے یہاں تک کہ تو خوش ہو جائے اور تیرے بغیر کوئی زور اور طاقت نہیں۔“ (ابن ہشام)

انہی نازک ترین حالات میں نبی ﷺ کو خالق کائنات نے مدعو کر کے پہلے بیت المقدس اور پھر آسمانوں کی سیر کرائی تاکہ آپ ﷺ کا حزن و ملال رفع ہو اور آپ ﷺ کو اللہ تعالٰی کی عظیم نشانیاں دکھائیں جائیں۔ اس سفر کو عرف عام میں معراج کہتے ہیں۔ قرآن حکیم میں اس سفر کا دو بار ذکر کیا گیا ہے۔ سورہ بنی اسرائیل میں اس کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے :

”پاک ہے وہ اللہ جو اپنے بندے کو رات ہی میں مسجد حرام سے مسجد اقصٰی تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے، اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں۔“ (بنی اسرائیل: 01 )

نبی ﷺ کو آیات الٰہی کا مشاہدہ کرانا اس بات کا غماز ہے کہ بنی اسرائیل کے عروج و زوال، جس کا باضابطہ ذکر آگے کی آیات میں کیا گیا ہے، کی بنیادی داستان کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کو اسلام کی فتح و نصرت کا مژدہ بھی سنایا گیا۔ آپ ﷺ کی دعوت کو اب کس مپرسی کی حالت سے نکلنا تھا اور آپ ﷺ کو ایک محفوظ ٹھکانے کے ساتھ ساتھ وفادار و فداکار ساتھیوں کی ایک جماعت حاصل ہونے والی تھی۔ اس صورت میں معراج اسلام کی عالمگیریت، اکملیت اور جامعیت کا ایک آفاقی اعلان تھا۔

آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ ﷺ کی بے بسی اور بے کسی کی حالت اب ختم ہونے جا رہی تھی۔ اسلام کو ایک نیا مرکز حاصل ہونے جا رہا تھا جہاں ان اصولوں کے مطابق ایک نیا معاشرہ وجود میں آنے والا تھا جو نبی ﷺ پر نازل ہو رہے تھے اور جن کا باضابطہ اعلان معراج کے اس موقعے پر ہو رہا تھا۔ سورہ النجم میں انہی بشارتوں کو نبی ﷺ کے سامنے ممثل کر کے پیش کیا گیا ہے :

”دل نے جھوٹ نہیں کہا جسے (پیغمبر نے ) دیکھا۔ کیا تم جھگڑا کرتے ہو اس پر جو (پیغمبر) دیکھتے ہیں۔ اسے تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا۔ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔ اسی کے پاس جنت المأوی ہے۔ جب کہ سدرۃ کو چھپائے لیتی تھی وہ چیز جو چھا رہی تھی۔ نہ تو نگاہ بہکی نہ حد سے بڑھی۔ یقیناً اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھ لیں۔“ (النجم: 11۔ 18 )

علم الیقین اور عین الیقین کے مدارج سے گزر کر اب نبی ﷺ حق الیقین کے درجہ عظیم کو پہنچائے جا رہے تھے۔ اگرچہ انبیائی تاریخ میں یہ ایک نرالا معاملہ ضرور تھا لیکن اس قسم کے مشاہدات انبیاءؑ کو اپنے اپنے ادوار میں کرائے جا چکے ہیں۔ مثال کے طور پر اللہ تعالٰی نے ”ابراہیمؑ کو آسمان و زمین کا نظام سلطنت دکھلایا۔“ (الانعام: 75 ) سورہ بنی اسرائیل کے مقابلے میں سورہ النجم میں ”آیۃ الکبری، بڑی ہی عظیم نشانیاں“ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ ان آیات کا انداز بتارہا ہے کہ نبی ﷺ کا آیات الہی کو دیکھنے کا اشتیاق انتہا کو پہنچا ہوا تھا، تاہم ”آداب عبدیت“ اور ”شان رسالت“ کا مکمل توازن اور اعتدال کمال کو چھو رہا تھا۔ انسانیت نے پہلی بار عبدیت کا ایسا عروج دیکھا۔

ان آیات الٰہی کا مفصل ذکر احادیث میں موجود ہے۔ وہاں پر نہ صرف جنت اور جہنم میں گزرنے والے حالات کا ذکر کیا گیا ہے بلکہ دنیا میں حق اور باطل کی کشمکش میں حصہ لینے والے لوگوں کے ساتھ پیش آرہے یا پیش آنے والے احوال کو بھی تمثیلاً بیان کیا گیا ہے۔ یہ بھی دراصل قائم ہونے والے نظام حق کا ساتھ دینے والے اعوان و انصار اور ان کے ساتھ نبرد آزما ہونے والے افراد کی پیشگی سرگزشت ہے جس کا نبی ﷺ کو مشاہدہ کروایا گیا۔

نبی ﷺ نے انبیاء کرامؑ کی امامت بھی کی اور آپ ﷺ کی مختلف آسمانوں پر مختلف پیغمبروں کے ساتھ ملاقات بھی کروائی گئی۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ انبیاءؑ ایک ہی دین لے کر آئے یہ کی ایک ہی شجر ہدایت کے گل ہائے سبد ہیں جس کا سلسلہ آدمؑ سے شروع ہو کر محمدﷺ پر ختم ہوتا ہے۔ یعنی نبی ﷺ خاتم النبیین و خاتم المرسلین ہیں۔ اس سلسلے میں قرآن کا اعلان ہے :

”اے پیغمبرو! حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو؛ تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے میں بخوبی واقف ہوں۔ یقیناً تمہارا یہ دین ایک ہی دین ہے اور میں ہی تم سب کو رب ہوں ؛ پس تم مجھ سے ڈرتے رہو۔“ (المؤمنون: 51۔ 52 )

معراج النبی ﷺ کے رموز و حقائق کو بیان کرنے والے بہت سارے علماء گزرے ہیں۔ ان علماء میں امام غزالی اور ابن العربی قابل ذکر ہیں۔ اپنی تحریروں، خاص کر ”فتوحات مکیہ“ میں ابن العربی نے اپنے خاص انداز میں نبی ﷺ کے اس آفاقی سفر کے اسرار و لطائف بیان کیے ہیں۔ مختلف ترجموں کے ذریعے معراج کے متعلق یہ ادبی سرمایہ مغرب کو منتقل ہوا۔

اسپینی محقق، Miguel Asin Palacios نے 1919ء میں اپنی کتاب ”La Escatalogia musulmana en la Divina Comedia“ چھاپ کر واضح کیا کہ یورپ کی نشأۃ ثانیہ کے دوران ڈانٹے نے Divine Commedia لکھ کر معراج میں موجود بہت سارے مواد کی عیسائی تشکیل (Christianization) کی۔ یہاں پر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ڈانٹے نے عیسائیت کے علاوہ ہر مذہبی فکر، خصوصاً اسلام کا تمسخر اڑایا اور مسلم اساطین کی تضحیک کی۔

اس کے برعکس جب علامہ اقبال نے اسی طرز پر ”جاوید نامہ“ لکھ کر انسانیت کے بڑے بڑے ناموں کا اور ان کے کردار کا، بلالحاظ مذہب و ملت، اعتراف کیا تو یہ بات منصۂ شہود کو پہنچی کہ معراج النبی ﷺ میں حکمت کے لاتعداد غوامض پوشیدہ ہیں اور اس بحر میں غوطہ زنی کرنے والا غواص خالی ہاتھ نہیں ابھرتا۔ ایک غیر متعصب قاری حکمت کے اس بحر ناپیدا کنار سے صدف صدف سے دانائی کے لعل و گہر چھانٹ چھانٹ کر اپنا دامن بھرتا ہے اور انسانیت کی روحانی تشنگی کو فرو کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments