گیلانی بمقابلہ سنجرانی: بادشاہ گر پیادہ قربان کرے گا؟


چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے لیے میدان سج گیا ہے۔ بات اب دنوں کی نہیں گھنٹوں کی رہ گئی ہے۔ گیلانی اور سنجرانی کے کیمپ ووٹرز کو لبھانے کے لیے بقول شبلی فراز کے ہر سیاسی حربہ استعمال کر رہے ہیں۔ وعدے، یقین دہانیاں، تسلیاں، وزارتیں، ٹھیکے، خرچہ پانی، نوکریاں، کیسز کی معافی، انکوائریوں کے ٹھپ کرنے کی یقین دہانیاں بھی سیاسی حربے کے طور پر استعمال ہو رہی ہیں۔ طاقت اور اختیار کے مزید حصول کی جنگ میں سب کچھ جائز سمجھ کے کیا جا رہا ہے۔ قانون ساز ادارے کے سربراہ کے چناؤ کے لیے ہر غیر قانونی رستہ اپنایا جاسکتا ہے۔ عوام اپنی آنکھوں سے ہوس اقتدار کا ننگا اور واہیات کھیل دم سادھے دیکھ رہی ہے کیونکہ یہ ان کا نہیں ملک کی سیاسی اشرافیہ کا کھیل ہے اور یہاں پر بھی عوام کی حیثیت محض ایک تماشائی سے زیادہ کی نہیں ہے۔

سمجھنے والی بات ہے کہ مقابلہ گیلانی اور سنجرانی کے مابین نہیں ہے بلکہ ان کے بڑوں کے درمیان ہے۔ کل یہی بڑے جب متفق تھے تو سنجرانی ان کا مشترکہ امیدوار تھا، آج جب جدا ہیں تو امیدوار بھی الگ الگ ہیں۔ طاقت کے مرکز کا سیاست کے بازی گر سے مقابلہ ہے۔ پہلے مرحلے میں تو بازی گر نے بازی ہی الٹ دی اور گیلانی کو کامیاب کرا دیا۔ اب کھیل کا دوسرا اور فیصلہ کن مرحلہ شروع ہو چکا ہے۔

سینیٹ کے چیئرمین کا انتخاب گیم چینجر مرحلہ ہو گا اور اس انتخاب کے بعد ملک کی سیاست کا رخ بدل بھی سکتا ہے۔ اگر گیلانی کامیاب ہو گئے تو ملکی سیاست کا منظرنامہ فیصلہ کن تبدیلی کی طرف جائے گا اور اگر سنجرانی کامیاب ہو گئے تو دھند مزید گہری ہو جائے گی۔

سوال یہ بھی اہم ہے کہ گیلانی اور سنجرانی میں سے کون کامیاب ہو گا مگر اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہر دو امیدواروں کی کامیابی کے بعد کا سیاسی منظر نامہ کیسا ہو گا۔ سوال یہ بھی ہے کہ آخر یہ الیکشن فریقین کے لیے اتنا اہم کیوں ہے۔ اس الیکشن کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پرویز خٹک جیسے اہم حکومتی وزیر نے میڈیا کے سامنے اپنی سب سے بڑی حریف جماعت کے مولانا عبدالغفور حیدری کو ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے امیدوار بننے کی پیش کش کر دی۔

پرویز خٹک نے گویا دھماکہ کر دیا اور کم سے کم تحریک انصاف کا ہر رکن سکتے میں آ گیا۔ کیا پرویز خٹک نے یہ آفر پارٹی قیادت سے انحراف کرتے ہوئے دی ہے؟ نہیں ایسا نہیں ہے یہ سیاست ہے اور یہاں سب کچھ چلتا ہے۔ تحریک انصاف کا اگر ٹریک ریکارڈ دیکھیں تو شیخ رشید، ایم کیو ایم اورچوہدری پرویز الٰہی سے متعلق جو کچھ عمران خان ماضی میں کہتے رہے ہیں، اس کے برعکس یہی لوگ اب ان کی ٹیم کا حصہ ہیں لہٰذا یہ آفر غیر معمولی نہیں ہے بلکہ تحریک انصاف کے لیے معمول کی بات ہے۔

فرض کریں اگر صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ بن جاتے ہیں تو پھر کیا ہو گا۔ اس ضمن میں عرض یہ ہے کہ ایک تو اپوزیشن کو سینیٹ میں بہت معمولی سی مگر برتری بہرحال حاصل ہے اور اپوزیشن اس نتیجے کو کبھی قبول نہیں کرے گی بلکہ اسٹیبلشمنٹ پر سیاست میں مداخلت کا الزام زیادہ شدت کے ساتھ لگایا جائے گا۔ دوسرا یہ کہ اگر ساتھ میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری کامیاب ہو جاتے ہیں تو پی ڈی ایم میں پھوٹ بھی پڑ سکتی ہے۔ اگر پھوٹ نہ بھی پڑی تو ایک دراڑ بہرحال ضرور آئے گی اور شاید یہی دراڑ کچھ طاقتور حلقے 26 مارچ سے شروع ہونے والے مہنگائی مارچ سے قبل ڈالنا چاہ رہے ہیں۔

رہی بات پی ڈی ایم کے کیمپ کی تو ماننا پڑے گا کہ مختلف الخیال سیاسی جماعتوں کا ایک پلیٹ فارم پر جمع رہنا بذات خود اہم ہے۔ مگر یہاں بھی تضادات موجود ہیں۔ نون لیگ اِن ہاؤس تبدیلی کی خواہش مند نہیں ہے اور حکومت کو گرانے کے لیے کسی بھی سطح پر جانے کے لیے تیار ہے اور کم و بیش یہی کیفیت جے یو آئی ایف کی ہے۔ کیونکہ ان کے نزدیک 2018 کے انتخابات الیکشن نہیں سلیکشن تھے اور جب وہ ان انتخابات کو ہی تسلیم نہیں کرتے تو ان اسمبلیوں کو کیسے جائز تسلیم کر لیں۔ جبکہ پاکستان پیپلزپارٹٰ کا موقف ہے کہ سیاسی نظام کے اندر رہتے ہوئے تبدیلی کی کوشش کی جائے۔ اور سوچ کا یہ تضاد بہرحال پہلے دن سے پی ڈی ایم میں موجود ہے مگر اس کے باوجود پی ڈی ایم چل رہی ہے۔

بالفرض اگر سینیٹ الیکشن میں پی ڈی ایم کا پینل کامیاب ہو جاتا ہے تو بہرحال اور بلاشبہ یہ ایک بہت بڑی فتح ہو گی۔ ایک ایسی فتح جو حکومت کے تابوت میں شاید آخری کیل ثابت ہو۔ تو کیا ایسا ہونے دیا جائے گا ، اس سوال کا جواب ہر کوئی اپنی سیاسی بصیرت سے خود ہی اخذ کر سکتا ہے۔ میرے خیال میں اگر واقعی ہی حکومت کی تبدیلی کا ارادہ کر لیا گیا ہے تو پی ڈی ایم کا پینل کامیاب ہو گا اور اگر موجودہ حکومت کو جاری رکھنا ہے تو سنجرانی کی کامیابی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ بات سنجرانی اور گیلانی کی نہیں رہی بات موجودہ حکومت کی بقاء کی ہے۔

رہی بات نمبر گیم کی تواب یہ غیر اہم بات ہو گئی ہے۔ ماضی میں سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی ناکامی اور حالیہ گیلانی کی کامیابی سے نمبر گیم کی بحث بے کار اور وقت کا ضیاع ہے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس ہار جیت سے کون کتنا فائدہ حاصل کرتا ہے یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اس کھیل میں ہار کر بھی کوئی مستقبل کے بڑے فائدے کی یقین دہانی لے جائے اور کوئی جیت کر بھی مستقبل کی سیاست سے مکمل آؤٹ ہو جائے۔

گیم آن ہے ، سیاسی بساط بچھی ہے ، بازی گر اور بادشاہ آمنے سامنے ہیں ، فیصلہ کن مرحلہ آ گیا ہے ، اب ہر چال قیامت کی چال ہو گی۔ پتہ نہیں کیوں لگتا یہی ہے کہ سیاست کا بازی گر اس بار پیادہ قربان کر کے بادشاہ کو گرانے کی یقین دہانی حاصل کر لے گا۔ پیادے کی قیمت کے بدلے بادشاہ کا تاج حاصل کرنا کوئی گھاٹے کا سودا تو نہیں ہے۔ بسا اوقات وقتی پسپائی جیت کا پیش بھی خیمہ ہوتی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ بازی گر سب پر بھاری پڑتا ہے یا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments