عروج پہ پہنچنے والے دو کرداروں کی ایک جیسی کہانی


کہتے ہیں عروج پہ پہنچے شخص کا زوال اس وقت شروع ہو جاتا ہے جب وہ اپنے عروج کو اپنا حق سمجھتے ہوئے اسے اپنا ذاتی کمال سمجھنا شروع کر دے، جب وہ اپنے ان مخلص ساتھیوں، ہمدردوں کو دوام حاصل ہوتے ہی چھوڑنا شروع کر دے اور ابن الوقت لوگوں کو ان کی جگہ دینا شروع کر دے۔

جرمنی میں نازی ازم کا بانی اڈولف ہٹلر تھا، وہ بینیتو مسولینی کے نظریات سے متاثر تھا۔ اس نے 1889 میں آسٹریا کے ایک غریب کسان کے گھر جنم لیا، 1913 میں جرمنی چلا گیا اور پھر جرمن فوج میں شامل ہو کر اس نے پہلی جنگ عظیم میں حصہ لیا مگر باوجود سرتوڑ کوششوں کے وہ افواج کا سربراہ نہ بن سکا کیونکہ اس میں قائدانہ صلاحیتوں کی کمی تھی۔ 1920 میں اس نے نیشنل سوشلسٹ جرمن ورکرز پارٹی میں شمولیت کی جو اس وقت صرف ساٹھ افراد پر مشتمل تھی، پھر ہٹلر اسی جماعت کا چیئرمین منتخب ہو گیا اور سال تھا 1921۔

1933 میں وہ انتخاب لڑا مگر اکثریت نہ ہونے کے باوجود وہ ملک کے سب سے بڑے انتظامی عہدے چانسلر تک پہنچ گیا، اس دوران اس نے نازی نظریات کی ترویج و ترقی جاری رکھی ، اپنے اقتدار کو طاقت بخشنے کے لیے لاکھوں یہودی اور دیگر مخالف سیاسی نظریات کے لوگ مروا ڈالے۔ 1939 میں پولینڈ کے خلاف جارحیت نے جرمنی اور پولینڈ کے درمیان جنگ کا آغاز کیا جو دوسری عالمی جنگ میں تبدیل ہو گئی اور بالآخر اپریل 1945 کو اس نے اپنی بیوی سمیت خودکشی کر لی۔

جنگ عظیم دوئم کے چھ سال سالہ عرصے میں ہٹلر کی جماعت ممبران کی تعداد کے لحاظ سے بہت زیادہ طاقتور ہو چکی تھی مگر پھر یہ مقبولیت ایک دم آسمان سے زمین پہ آ گری اور مقبولیت کو زوال پذیر ہونے میں پلک جھپکنے جتنی ہی دیر لگی۔

آج پاکستان پہ بھی ایک ایسا ہی شخص تخت نشیں ہے جسے اپنے خدا ہونے کا اتنا ہی یقین ہے جتنا کبھی ہٹلر کو تھا۔ اسی ہٹلر کے نظریات سے متاثر ہمارے وزیراعظم صاحب ایک اور مغربی سیاسی مفکر نکولو میکاولی کے سیاسی نظریات سے بھی خاصے قریب نظر آتے ہیں۔

میکاولی اٹلی کے شہر فلورنس سے تعلق رکھتا تھا، سیاست میں وہ خدمت کے بجائے جبر، زور زبردستی کے نظریات رکھتا تھا۔ اس کا ماننا تھا کہ ریاست کا کام نیکی کرنا، عوامی بھلائی کے کام کرنا، سیاسی مذہبی، جمہوری آزادیاں دینا نہیں ہے بلکہ اسے اپنی مضبوطی کے لیے ہر وہ اقدام اٹھانا چاہیے جس سے ریاست اور اقتدار مضبوط ہو ، چاہے اس کے لیے جبر کرنا پڑے یا پھر کوئی ظلم یا زیادتی کرنی پڑے۔ میکاولی سیاست میں منافقت، ریاکاری، سیاسی مصلحتوں کو بروقت استعمال کرنے، سازشوں اور عوام کی طاقت اور اتحاد کو کمزور کر کے اقتدار کو دوام بخشنے کو کامیاب ریاستی اصول مانتا تھا۔

ہمارے وزیراعظم بھی ماضی کے ان فسطائیت پسند سیاسی آمروں کے نقش قدم پہ چل کر یہاں تک پہنچے ہیں۔ خان صاحب کی سیاست کے پہلے بیس بائیس سال تک ان کی جماعت کی رکنیت چند سو سے زیادہ نہیں رہی، 2002 کا انتخاب بھی ایک سزایافتہ فوجی آمر کے کندھوں پہ چڑھ کر جیتے۔ پھر 2008 میں انتخابات کا بائیکاٹ کر کے میدان سے بھاگ کھڑے ہوئے، آخرکار 2011 میں ایک دم سے جماعت کی رکنیت میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا اور جس طرح جرمنی میں نازی نظریات پروان چڑھے اسی طرح پاکستان میں ”نیازی نظریات“ پروان چڑھے۔

حالانکہ عمران خان صاحب اپنی سیاست کے آغاز سے ہی کرپشن کے خلاف جہاد کرنے، پاک فوج کی جانب سے بار بار جمہوریت پہ شب خون مارنے کے خلاف سخت موقف رکھتے تھے۔ وہ ملک سے مہنگائی، بیروزگاری، بے گھری، عدم تحفظ اور عدم مساوات کے خاتمے کے دعویدار تھے۔ وہ ملک میں عدل و انصاف کی بلا امتیاز غیر جانبدارانہ فراہمی اور احتساب سب کا برابری کی بنیاد پر کرنے کا دعویٰ کیا کرتے تھے، مگر ان سب انقلابی نظریات کو چوبیس پچیس سال تک کوئی اہمیت، کوئی عوامی پذیرائی نہیں ملی لیکن پھر اچانک مینار پاکستان لاہور پہ 2011 کے جلسے کے بعد پلک جھپکنے میں یہ انقلابی نظریات ایک فکر، ایک فلسفہ، ایک بیانیہ بن کر ملک کے کونے کونے میں چھا گئے۔

عمران خان صاحب ملک میں تبدیلی کا استعارہ بن کر ابھرے، نیا پاکستان ہو گا، نئے پاکستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہوں گی، کوئی مائی کا لال کرپشن کا سوچ بھی نہیں سکے گا، پاکستان کے کرپٹ سیاسی رہنماؤں کی لوٹ مار کے اربوں ڈالر چند دنوں میں واپس پاکستان کی بینکوں میں ہوں گے، ایسا کڑا احتساب ہو گا کہ اگر وزیراعظم کا بیٹا بھی کرپشن کرے گا تو اسے وہی سزا ملے گی جو زرداری یا نواز شریف کو ملے گی، ملک میں ریاست مدینہ کی طرز پہ عدل وانصاف اور قانون کا ڈنکا بجے گا، غرض ایسا انقلاب ایسا نظریہ ایسا بیانیہ بنا کر پاکستانی قوم کے سامنے رکھا گیا کہ قوم اس جھانسے میں آ گئی اور پھر 2013 کے انتخابات میں پی ٹی آئی نے ملک بھر سے 77 لاکھ کے قریب ووٹ حاصل کر کے ووٹ حاصل کرنے کے لحاظ سے دوسری پوزیشن حاصل کی، یعنی جس جماعت کو 2002 میں ایک لاکھ ووٹ بھی نہیں ملے تھے اسے کل ڈالے گئے ووٹوں کا سترہ فیصد ووٹ ملا، بالکل اسی طرح 1931 کے جرمن انتخابات میں ہٹلر نے بھی ایسی ہی پوزیشن حاصل کی تھی اور پھر 1933 میں اسے دوبارہ انتخابات کے بعد سادہ اکثریت سے کچھ کم دلوا کر جرمنی کا چانسلر بنا دیا گیا تھا۔

2013 کے انتخابات کے بعد جلد ہی میاں نواز شریف کے اقتدار کو پہلے انتخابی دھاندلی کو جواز بنا کر دھرنے سے اور پھر پاناما پیپرز کا معاملہ کھڑا کر کے کمزور کیا گیا اور آخرکار چلتا کر دیا گیا۔ 2018 میں عمران خان صاحب کی جماعت کو پاکستان بھر سے پونے دو کروڑ کے قریب ووٹ دلوائے گئے مگر عددی اعتبار سے سادہ اکثریت بھی نہیں دی گئی اور بیساکھیاں ساتھ لگا کر اقتدار کے سنگھاسن پہ بٹھا دیا گیا۔

آج پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والی جماعت کے مقبول ترین وزیراعظم کی مقبول عوامی حکومت اور مقبول ترین عوامی بیانیے کو اقتدار میں آئے محض پونے تین سال ہوئے ہیں مگر مقبولیت کے ریکارڈ قائم کرنے والا بیانیہ غیرمقبولیت کے سارے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑتا ہوا پاتال میں دھنستا جا رہا ہے، خان صاحب نے پاکستان کو ہٹلر، میکاولی، ٹرمپ اور مودی جیسے فاشسٹوں کے نظریات کا مربہ بنا ڈالا ہے، یہاں بولنے پہ پابندی ہے، یہاں احتساب امتیازی ہے، یہاں قانون، عدل و انصاف سے عاری ہے، یہاں صرف اور صرف جھوٹ مکر و فریب ریاکاری ہے، منافقت اور مکاری ہے۔ مہنگائی بیروزگاری بھوک و بدحالی کا جن بے قابو ہو کر گھر گھر میں گھس کر عوام کو خودکشیوں پہ مجبور کر رہا ہے، اور تبدیلی اور نئے پاکستان کا بیانیہ اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔

مقبولیت کے عروج سے زوال تک پہنچنے کے اس سفر میں صرف چند سال لگے ہیں اور جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں اس کی وجہ صرف اور صرف جھوٹ، منافقت، دھوکے بازی ہے، خان صاحب شخصی حکومت اور ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لیے آئین، قانون اور اداروں کی تباہی کے درپے بنے ہوئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments