یونیورسٹیوں میں لسانیت پرستی کا مسئلہ


نظام تعلیم کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ماضی میں اساتذہ اور درسگاہوں کو حصول علم کا بہترین ذریعہ مانا جاتا تھا۔ ان تعلیمی اداروں کی بدولت انسان نے مختلف شعبۂ زندگی میں ایسی ترقی حاصل کی جسے دنیا آج بھی تسلیم کرتی ہے۔ ماضی میں ثابت ہونے والے اکثر حقائق کو آج کے اس جدید دور میں بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔

تعلیمی اداروں کو طلبا کی ذہنی نشوونما اور معاشرتی ترقی کا ضامن مانا جاتا تھا۔ تعلیمی اداروں کا مقصد طالب علموں کو شعور عطا کرنا اور انہیں بہترین انسان بنانا تھا۔ ایک ایسا ماحول فراہم کرنا جہاں مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے، مختلف زبانیں بولنے والے، اور مختلف عقائد کے پیروکار ایک چھت تلے اکٹھے رہ کر ایک دوسرے کے علم اور تجربات سے استفادہ کرتے تھے۔ یہ دور محدود وسائل کے باوجود تعلیمی عروج اور ترقی کا دور تھا۔

موجودہ دور میں اگر تعلیمی اداروں کی بات کی جائے تو علاقائی اور لسانی تعصب، قومیت پرستی اور طرف داری کا نظام عروج پر ہے۔ کالج اور سکول کی حد تک تو تعلیمی ادارے شدت پسندی سے محفوظ ہیں لیکن جونہی جامعات کی فضاء میں قدم رکھیں تو طلبا کی مختلف تنظیمیں نظر آتی ہیں جو اپنے علاقوں اور اپنی زبان بولنے والوں کے لئے برسرپیکار ہوتی ہیں۔

ان تنظیموں کا مقصد اپنی روایات اور اقدار کا تحفظ کرنا اور نئے آنے والے طالب علموں کو امداد فراہم کرنا ہوتا ہے۔ ان طلبا تنظیموں کے نیک مقاصد کا ذکر کیا جائے تو ایک زبان اور ایک علاقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا ایک جگہ اکٹھا ہونا خوش آئند ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں جامعات میں طلبا کے غیر نصابی مشاغل پر کوئی بھی توجہ نہیں دیتا لہٰذا ایسی طلبا تنظیمیں شدت پسندی کی راہ پر گامزن ہو جاتی ہیں۔

ملک بھر کی جامعات میں شاذ و نادر ہی کوئی ایسا ادارہ ہو گا جہاں طالب علموں کو لسانیت سے زیادہ وطنیت کا پیغام دیا جائے۔ پھر تربیت کی کمی اور علاقہ اور لسانیت پرستی کی بیش بہا قیمت چکانا پڑتی ہے۔

حال ہی میں نمل یونیورسٹی اسلام آباد میں شدت پسندی کا واقعہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ معمولی نوک جھونک کی وجہ سے طلباء کے دو گروہوں کے درمیان حالات اس قدر سنگین ہو گئے کہ معاملہ کسی کی جان لینے تک پہنچ گیا۔ سرائیکی اور پشتون طلباء کے درمیان حالات اس قدر سنگین ہو گئے کہ اس کی قیمت ایک قیمتی جان ثابت ہوئی۔ اس واقعہ پر چند روز تک تو ٹی وی چینلز، صحافیوں اور کالم نگاروں نے خوب تبصرہ کیا لیکن گزرتے وقت کے ساتھ قوم کے جذبات ماند پڑ گئے۔

یہ سانحہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا سانحہ نہیں، اس سے پہلے بھی ملک کی کئی جامعات میں معمولی بات پر طلبا ایک دوسرے کی جان لے بیٹھے۔ ہمیشہ چند تبصروں کے بعد عوام ایسے سانحات کو بھلا دیتی ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں حالات حاضرہ پر بات کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے اس لئے چند دنوں بعد کسی گزرے ہوئے واقعے پر بات کرنا صحافیوں، ٹی وی چینلز اور کالم نگاروں کے لئے اہم نہیں رہتا۔

آخر کب تک وہ معمار جنہوں نے ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے وطنیت کی بجائے لسانیت کے اصولوں پر زندگی گزارتے رہیں گے۔ کب تک مائیں جن کے سہانے مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجاتی ہیں ، ان کے شدت پسندی کا شکار ہو جانے پر ان کے جنازوں سے لپٹیں گی۔

میرا مقصد یہ نہیں کہ انسان اپنی زبان اور ثقافت کو بھول جائے، ہماری زبان اور ثقافت ہی تو ہماری پہچان ہے لیکن اسے انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔ جامعات کی انتظامیہ کو چاہیے کہ ایسا نظام بنائیں کہ ہر طالب علم پنجابی، پٹھان، سرائیکی، بلوچی یا سندھی ہونے کی بجائے پاکستانی ہونے پر فخر محسوس کرے۔

ایسی سرگرمیاں کروائی جائیں کہ طالب علموں میں وطن عزیز کی ترقی کے لئے محنت کرنے کا رجحان بڑھے۔ جامعات کے اندر ایسا ماحول بنایا جائے کہ ہر طالب علم خود کو بھی پاکستانی سمجھے اور دوسروں کو بھی پاکستانی کی نظر سے دیکھے تاکہ لسانیت کی بجائے وطنیت کو فروغ ملے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments